محمدقاسم شمالی ہندستان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے _ ایک دوپہر گھر میں آئے اور صحن میں بچھے ہوئے پلنگ پر بیٹھ گئے _ دوپہر کا کھانا نکالتے ہوئے بیوی نے کہا :
“اجی، بچی کی شادی بیاہ کی بھی کچھ فکر کیجئے _”
بچی تھوڑی دور باورچی خانے کے چبوترے پر بیٹھی دال دھو رہی تھی _ محمد قاسم نے ایک نظر بچی پر ڈالی _ بیوی نے ابھی پلنگ پر دسترخوان بچھایا ہی تھا کہ محمد قاسم اترے ، پیر میں جوتے ڈالے اور باہر چلے گئے _ بیوی کہتی رہ گئی کہ کھانا تو کھالیتے _
بیٹھک میں آکر محمد قاسم نے کسی سے کہا : “ذرا مولوی عبداللہ کو بلا لاؤ _” عبداللہ ان کے بھانجے تھے اور ابھی مدرسہ میں پڑھ رہے تھے _ قریب ہی کرائے کے ایک کمرہ میں رہتے تھے _ ماموں کا پیغام ملا تو بھاگے ہوئے آئے _ وہ کپڑے تو صاف ستھرے پہنے ہوئے تھے ، مگر پاجامے کے ایک پائنچے میں کھونچا لگا ہوا تھا اور کچھ لکھنے کے دوران دوات الٹ جانے کی بنا پر قمیص کے دامن پرروشنائی کا ایک چھوٹا سا نشان پڑ گیا تھا_
محمد قاسم نے بھانجے سے کہا :”میاں، تم نے اپنی شادی کے بارے میں کچھ سوچا؟”
ماموں کے سوال پر مولوی عبداللہ کچھ سٹپٹا سے گئے _
“بزرگوں کی موجودگی میں بھلا میں کیا سوچوں؟ “عبد اللہ نے جواب دیا _
” تو اِکرامَن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تمہاری مرضی ہو تو تم دونوں کا نکاح پڑھا دیا جائے_” محمد قاسم نے کہا _
عبداللہ نے لمحہ بھر سوچا_
“ماموں جی! آپ اور اباجی جو بھی فیصلہ کریں گے اس سے مجھے انکار کی مجال نہیں_”
محمد قاسم کے بہنوئی انصار علی اپنی ملازمت کے سلسلے میں وطن سے بہت دور گوالیارمیں رہتے تھے_ انہوں نے قاسم سے کہہ رکھا تھا کہ کوئی مناسب رشتہ سامنے آئے تو عبداللہ کی شادی کر دیجیے گا _ اپنے بھانجے کا جواب سن کر محمد قاسم نے اسے وہیں ٹھہرنے کو کہا اور اندر گھر میں چلے گئے _ وہاں بیوی کو مخاطب کیا:
“اکرامن کے لئے مولوی عبداللہ کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ گھر کا بچہ ہے، کچھ دیکھنا بھالنا تو ہے نہیں ، تمہاری مرضی ہو تو نکاح پڑھ دیا جائے_”
محمد قاسم کی بیوی کو بھی تجویز مناسب لگی _ دونوں میں اتفاق رائے ہو گیا تو محمد قاسم بیٹی کے پاس آئے _ وہ ابھی تک دال دھونے میں مشغول تھی _ وہ وہیں بیٹی کے پاس اکڑوں بیٹھ گئے _
“بیٹی! ہم نے سوچا ہے کہ مولوی عبداللہ سے تمہارا نکاح پڑھا دیں، مگر پہلے تم بتاؤ ، تمہاری مرضی کیا ہے؟ ”
اِکرامن شرم کے مارے دہری ہوگئی _ گھٹنوں میں منہ چھپا لیا _
محمد قاسم کی بیوی نے کہا: “اجی، توبہ ہے، بچیوں سے بھلا یوں شادی بیاہ کی بات کیا کرتے ہیں کیا؟”
“کیوں اس میں کیا عیب ہے؟شرع کامعاملہ ہے، بچی کی رائے پوچھنی لازم ہے _ شرع کے معاملے میں کیا شرم؟ اگر اکرامن کی رائے نہ ہو تو کوئی اور صورت دیکھیں گے ، مگر جس طرح مولوی عبداللہ کی مرضی معلوم کی ہے اسی طرح ضروری ہے کہ اکرامن کی رائے بھی معلوم ہو جائے _”
محمد قاسم کی بیوی نے کہا: “باحیا بچیاں منہ پھاڑ کے ‘ہاں’ نہیں کیا کرتیں _ انکار ہوتا تو وہ میری طرف دیکھتی ، یا اٹھ کر کمرہ میں چلی جاتی ، اس طرح میں اس کا عندیہ سمجھ لیتی _ ان معاملات میں بچیوں کی خاموشی ہی ان کی رضامندی ہوتی ہے _ اسے بھی مولوی عبداللہ کی طرح بھلا کیا اعتراض ہوگا؟”
بیوی کی بات سن کر محمد قاسم اٹھے اور باہر چلے گئے _ بیٹھک میں عبد اللہ ماموں کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے _ وہاں دوچار لوگ اور بھی موجود تھے _ محمد قاسم نے ان کو بلایا اور کہا: “میں مولوی عبداللہ کا نکاح اپنی بیٹی امت الاکرام سے کر رہا ہوں _”
انھوں نے ان میں سے ایک آدمی کو دو پیسے دے کر کہا:”نکڑ کی دکان سے تھوڑے سے چھوہارے لے آؤ_”
انہی حاضرین میں سے دو گواہ بن گئے _ ذرا دیر میں نکاح پڑھا دیا گیا _ پھر محمد قاسم نے دولہا میاں ہی سے کہا: “باہر جاکر ایک ڈولی لے آؤ اور اپنی بیوی کو لے کر اپنے گھر سدھارو_”
ڈولی آگئی تو محمد قاسم پھر گھر میں آئے اور بیٹی کے پاس گئے ، جو ظہر کی نمازپڑھنے کے بعد ابھی جانماز ہی پر بیٹھی تھی_
“بیٹی! اللہ کا شکر ہے، میں تمہارے فرض سے سبک دوش ہوگیا _ مولوی عبداللہ ڈولی لئے باہر تمھارے منتظر ہیں_ اب تم ان کے ساتھ اپنے گھر جاؤ_”
محمد قاسم کی بیوی نے کہا:
“ارے ،ایسا چٹ پٹ شادی بیاہ کردیا _ مجھے کچھ تو مہلت دی ہوتی کہ بچی کے دوچار جوڑے کپڑے بنا دیتی _ کم از کم نکاح کے وقت تو اچھے کپڑے بدلوادیتی_”
“کیوں ، ان کپڑوں میں کیا عیب ہے؟ کیا ان میں وہ نماز نہیں پڑھ سکتی؟”
“بھلا وہ نماز کیوں نہیں پڑھ سکتی؟ ابھی تو اس نے ظہر کی نماز پڑھی ہے انہی کپڑوں میں _”
“تو بس ، نماز کے کپڑوں سے اچھا جوڑا اور کون سا ہوگا؟ رہی بات بچی کو کچھ دینے دلانے کی تو کوئی ضروری ہے کہ آج ہی دو _ تمہاری بیٹی ہے اور مولوی عبداللہ بھی تمہارا ہی بیٹا ہے _ ان کے لئے کیا تکلف کرنا؟ ہاں، گھر کی ضرورت کا سامان ،جب چاہو ، بھجوا دینا _ ”
اس اثنا میں ماں نے اکرامن کو برقعہ اڑھایا ، دعا دی ، باپ نے سر پر ہاتھ رکھا اور لے جا کر ڈولی میں بٹھا آئے _ لے جاتے ہوئے بیٹی کو زندگی ، شوہر کے حقوق اور گھریلو ذمہ داریوں کے بارے میں نصیحتیں کرتے رہے _ ادھر ڈولی روانہ ہوئی ، ادھر ماں نے نائن کے ہاتھ بیٹی کے روز کے کپڑوں کی پوٹلی اور کھانا پکانے اور کھانے کے چند برتن بھیج دئے _بس یہی کل جہیز تھا_
اگلے دن محمد قاسم نے بیٹی داماد کو گھر پر بلایا_ گھر میں جو سالن روٹی پکا تھا ، باہر مردانے میں لے کر آئے اور جو لوگ بیٹھک میں موجود تھے ان سے کہا :
“بھائی ، یہ مولوی عبداللہ کا ولیمہ ہے _ ان کے ابا تو گوالیار میں ہیں _ وہ تو گرمی کے موسم ہی میں آئیں گے _ مدرسہ کی چھٹی ہوگی تو مولوی عبداللہ بیوی کو لے کر اپنی ماں سے مل آئیں گے _ مولوی عبداللہ کی والدہ محمد قاسم کی خالہ زاد بہن تھیں اور قریب کے دوسرے قصبہ میں رہتی تھیں_
یہ واقعہ ہے دیوبند کا _
محمد قاسم بعد میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے نام سے مشہور ہوئے _ دارالعلوم دیوبند کے بانی _ان کے بھانجے مولوی عبداللہ اسی دارالعلوم دیوبند میں پڑھتے تھے _ یہاں سے فارغ ہو کر وہ علی گڑھ گئے _ سر سید احمد خان کے قریبی رفقا میں ان کا شمار ہوا اورعلی گڑھ کالج کے پہلے ناظم دینیات بنے _
روایت:
مولانا عبداللہ انصاریؒ کے پڑپوتے محمد طارق غازی
منقول از کتاب ‘مرد بھی بکتے ہیں’ (علیم خان فلکی) aleemfalki@yahoo.com
تلخیص و ادارت : محمد رضی الاسلام ندوی
پرانا زمانہ۔۔۔خالص رزق۔۔۔خالص لوگ۔۔۔خالص نیت۔۔۔خالص نتائج۔۔
نیا زمانہ۔۔۔ہر عمل دکھاوا۔۔