ہر دور میں معاشرے کی ترقی کا دارو مدار اساتذہ کے تعلیمی اور فنی صلاحیتوں کے فروغ سے راست یا بالواسطہ طور پر وابستہ رہا ہے۔اساتذہ میں جب ذہنی جمود طاری ہوجائے اور ان میں تعلیمی و فنی صلاحیتوں کے فروغ کے راستے مسدود ہوجائیں تب نظام تعلیم بے روح اور معنویت سے عاری ہوجاتا ہے۔اساتذہ کی تعلیمی و فنی صلاحیتوں کے فروغ کے بغیرملک و قوم کا عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا بھی تقریبا ناممکن ہی نظر آتا ہے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اساتذہ کے بغیر کوئی بھی قوم آج تک ترقی کا سفر طئے نہیں کر سکی ۔ نظام تعلیم کوزندہ بامقصد اور قوم و ملت کی آرزؤں کی تکمیل کا ذریعہ بنانے میں اساتذہ کے تعلیمی و فنی صلاحیتوں کے فروغ کوکلیدی حیثیت حاصل ہے۔عصری تقاضوں سے عاری اساتذہ کے ہاتھوں قوم و ملک کی جدیدتعمیر یقیناًایک امر محال نظرآتی ہے۔زمانے سے قدم ملانے کے لئے اساتذہ کا عصری تقاضوں، تعلیمی اور فنی صلاحیتوں سے آراستہ ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے۔تعلیمی وفنی فروغ میں معاون وسائل اور مواقعوں سے بہتر استفادہ کرنے والے اساتذہ درس و تدریس اور اکتساب پراپنے گہرے نقش چھوڑتے ہیں ۔ اساتذہ میں تعلیمی اور فنی صلاحیتوں کے فروغ سے درس و تدریس اور اکتساب کومعیار اور کمال حاصل ہوتا ہے۔ اساتذہ کی تعلیمی و فنی صلاحیتوں کافروغ درس و تدریس کو نئے زاویے عطاکرنے معنویت کی ردا بخشنے اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے میں ایک مثالی کردار انجام دیتا ہے۔ہماراتعلیمی نظام اساتذہ کی تعلیمی اور فنی صلاحیتوں کے فروغ میں بلاشبہ کوتاہی کا شکار ہے۔ تعلیمی اور فنی صلاحیتوں کے فروغ میں محدود وسائل کا شکوہ کرنے سے بہتر ہے کہ اساتذہ ازخود اپنی تدریسی اور فنی صلاحیتوں کے فروغ کے وسیلے اور سامان تلاش کر یں۔اساتذہ کی یہ ایک ادنیٰ سی کوشش نہ صرف ان کے تعلیمی اور فنی صلاحیتوں کے فروغ کا باعث بنے گی بلکہ ملک و قوم کی ترقی کا دھارا بھی بدل دے گی۔کسی بھی قوم کا معیار اس کے ملک کے اساتذہ سے بلند نہیں ہوتا ہے۔اسی لئے اساتذہ کو قومی ترقی کا ایک اساسی عنصر کہا گیا ہے۔ تعلیمی اور فنی صلاحیتوں کے فروغ میں اساتذہ کی مسلسل کوشش اور اپنے پیشے سے کبھی نہ ختم ہونے والی دلچسپی نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ملک وقوم کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے لئے نظام تعلیم کوایسے راستے اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جو اساتذہ کی تدریسی اور فنی صلاحیتوں کے فروغ اور ان کے پیشہ وارانہ ترقی میں معاون ومددگار ثابت ہوں۔اساتذہ سے بہتر خدمات کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ان کی مسلسل رہبری ،رہنمائی اور ان کی تعلیمی و فنی صلاحیتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ قوم و ملک کی تعمیر میں وہ اپنا گرانقدر کردار ادا کر سکیں۔اساتذہ کی خدمات کو موثر اور کامیابی سے ہمکنا ر کرنے کے لئے ان کو تعلیمی ،فنی اور عملی تربیت کی جانب مائل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ وہ جدید تعلیمی نظریات اور ترقی یافتہ دنیا کے پیچیدہ مسائل سے آگہی حاصل کرتے ہوئے نئی نسل کو ان چیالنجس کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرسکیں۔عصری آگہی و عصری معلومات سے وابستگی پیدا کرنے کے لئے اساتذہ کی تعلیمی ،فنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو فروغ دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ارباب نظام تعلیم اساتذہ میں عصری تعلیمی نظریات کے فروغ میں تساہل سے کام نہ لیں اور ان میں تعلیمی و فنی صلاحیتوں کے فروغ کا جذبہ پیدا کریں۔ گزرتے وقت کے ساتھ اساتذہ میں محسوس یا غیر محسوس طور پر درس و تدریس سے اکتاہٹ کا احساس پایا جانا ایک عام بات ہے۔ اسکولوں میں درس و تدریس کے بڑھتے ہوئے کام کے بوجھ اور دباؤ کی شکایت بھی اساتذہ میں بے چینی کا سبب بنتی جارہی ہے۔محنت و دیانت داری سے خدمات انجام دینے کے باوجود ان کو وہ ستائش اور تعریف حاصل نہیں ہوپاتی جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ان کے مشاہیرہ میں اضافہ نہیں ہورہا ہے ۔ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتاوغیر ہ وغیرہ ۔اگر ان تمام مسائل کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اساتذہ نے اپنی شخصیت کے معیار اور اپنے فن کو بلند کرنے میں تساہل سے کام لیا ۔اپنی تعلیمی و فنی صلاحیتوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں بنایا۔ اپنے پیشے سے جذباتی مطابقت کے فقدان کے سبب درس و تدریس میں کوئی خاص اور نمایا ں کام انجام دینے سے خو د کو عاجز رکھا۔اساتذہ اپنا مقام مرتبہ اورعظمت کی برقراری کے لئے اپنی تعلیمی ،فنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں بہتری لائیں اور ان کو فروغ دینے کی ہر وقت کوشش کریں۔ ارباب مجاز اساتذہ کو پیشہ درس وتدریس سے ہم آہنگ کرنے اور ان میں جوش و ولولہ بھرنے ،جذبے درس و تدریس کے ٹمٹماتے دیوں کو روشنی عطاکرنے کے لئے اساتذہ کیتعلیمی و فنی صلاحیتوں کے فروغ کو ممکن بنائیں۔ اساتذہ اپنی تعلیمی ،فنی اور پیشہ وارانہ ترقی میں لاپرواہی سے کام نہ لیں۔ اساتذہ اپنے عزم و یقین سے کام لے کر نہ صرف پیشہ وارنہ ترقی کی بلندیوں کو سر کرسکتے ہیں بلکہ درس و تدریس کو بھی دلچسپ اور موثر بنا دیتے ہیں۔ماہر تعلیم لنڈا شولاوے(Linda Sholaway)کے مطابق ’’شخصی اور پیشہ وارانہ نشوونما و ترقی ایک دوسرے سے باہم مربوط ہوتی ہے۔دونوں میں سے اگر ایک بھی نظراندازہوجائیتب دوسری ترقی بھیمتاثر ہوجاتی ہے۔لیکن دونو ں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اساتذہ ایک صحت مند اور خوشحالی تدریسی کیرئیر کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ (personal and professional growth are complementary processes.Neglect one, and the other will suffer.But concentrating on both, you’re assuring yourself of a healthy and happy teaching career)درس و تدریس کو ایک مکمل فنکارانہ پیشہ کی صور ت عطا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ اپنی معلومات اور مہارتوں کو عصر ی تقاضوں کے مطابق بنائیں۔ اساتذہ کے تعلیمی ،فنی اور پیشہ وارانہ فروغ کے لئے سانڈرا ڈی ینگ کے مطابق’’ اپنے علم میں اضافے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ مطالعہ،تحقیق،مشقی عمل اورحصول علم میں مسلسل مصروف رہیں۔‘‘(Reading,researching,practice and continuing of education is neccessary for expanding the knowledge of a teacher-Sandra De Young)اساتذہ نصابی کتب کے علاوہ خارجی کتابوں اور دیگر تعلیمی وسائل کا بروقت اور مناسب استعمال کرتے ہوئے اپنی معلومات میں اضافے کے علاوہ اختراعی طریقے ہائے تدریس کے ذریعہ اکتساب اور درس و تدریس کو ایک کیف آور اور پرکشش عمل بنا سکتے ہیں۔اپنی درسیات میں تخلیقی وسائل اور اختراعی تکنیک کا استعمال وہی اساتذہ کرتے ہیں جو زمانے کی رفتار کاعلم رکھتے ہیں اور جدید علوم کے حصول میں ہمہ وقت اپنے آپ کو مصروف رکھتے ہیں۔کمرۂ جماعت میں اپنی تدریسی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ اساتذہ کو اپنی تعلیمی ،فنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے فروغ میں معاون سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے تاکہ ان کی پیشہ درس و تدریس سے دلچسپی اور جوش و ولولہ باقی رہے۔
اساتذہ کی تعلیمی فنی اور شخصی ترقی کو بہتر بنانے کے طریقے:۔ایک کامیاب اور موثر استاد بننے کے لئے سخت محنت و خاص مدت کی ضرورت ہوتی ہے۔دیگر پیشوں کی طرح پیشہ تدریس سے وابستہ افراد کی فطری اور قدرتی صلاحیتوں کو بھی فروغ دینا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اساتذہ کو ان کااپنا اداراہ یا محکمہ کوئی موقع فراہم کرے یا نہ کرے وہ درج ذیل طریقوں کو اپناکراپنی تعلیمی ،فنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔
(1)ایک بہتر اور کامیاب استاد بننے کے لئے ضروری ہے کہ استاد اپنی خوبیوں اور کمزوریوں سے واقف ہو۔کمزوریوں کا ادراک استادکو اپنی معلومات منظم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اساتذہ جب اپنی کمزوریوں سے واقف ہوجاتے ہیں تو ان میں نئے تعلیمی رجحانا ت سیکھنا نے کا جذبہ سر اٹھانے لگتا ہے۔نئے تعلیمی و تدریسی رجحانات اساتذہ کی پیشہ وارانہ مہارتوں میں نکھار پیدا کرنے کے علاوہ اساتذہ کو یقین و اعتماد کی کیفیت سے سرشار کردیتے ہیں۔
(2)استاد اپنی تدریسی سرگرمیوں کو بہتر بنانے کے لئے دیگر اساتذہ سے مشاورت کریں۔اپنی ناکامیوں اور تدریسی مشکلات کو دیگر اساتذہ کے علم میں لاتے ہوئے ان سے مسائل کے حل طلب کریں۔دوسروں کے صحت مند نظریات کو اپنانے میں تامل سے کام نہ لیں ۔تنقید کو تعمیر سے تعبیر کریں۔نکتہ چینی اور تنقیدوں کا خندہ پیشانی سے سامنا کریں۔اپنے تدریسی برتاؤ اور رویوں کو دوسروں کے آگے پیش کرنے میں گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں۔ کمرۂ جماعت کی اپنی تدریس سرگرمیوں کے مشاہد ے اور احتساب کا دیگر ساتھیوں کو موقع دیں تاکہ آپ کی تعلیمی ،فنی اور پیشہ وارانہ ترقی ممکن ہو۔ دیگر اساتذہ کو کھلی اجازت دیں کہ وہ آپ کے کمرۂ جماعت کی سرگرمیوں کو بہتر بنانے میں مشورے دینے سے گریز نہ کریں۔
(3) تدریسی سرگرمیوں میں بہتری کے لئے حکمت عملیاں وضع کریں۔زیادہ سے زیادہ وقت مطالعہ میں صرف کریں۔نئے تعلیمی رجحانات و نظریات سے اپنے آپ کو متصف کریں۔جدید اختراعی، تخلیقی نظریات ،تجربات اور طریقوں کو اپنی تدریس کا حصہ بنائیں۔جدید نظریات سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ہمہ وقت اپنی تربیت پرتوجہ دیں۔جدید طریقہ ہائے تدریس کو کمرۂ جماعت کا حصہ بنائیں ۔
(4)کمرۂ جماعت کی تدریس پیشہ وارانہ احساس و ذمہ داری کاایک حصہ ہوتی ہے ۔کمرۂ جماعت کی ذمہ داریوں کے علاوہ بھی استاد پر چند اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جس پر اساتذہ کو خاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔اکثر اساتذہ کمرۂ جماعت کی سرگرمیوں کی انجام دہی کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور دیگر ذمہ داریوں سے عہدہ براں نہیں ہوتے ہیں جس کے خراب اثرات نہ صرف درس و تدریس پر مرتب ہوتے ہیں بلکہ اساتذہ کی شخصی اور پیشہ وارانہ زندگی کے لئے بھی یہ سم قاتل ثابت ہوتے ہیں۔اپنی تعلیمی،فنی اور پیشہ وارانہ مہارتوں کے فروغ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھیں۔کمرۂ جماعت کے باہر کی سرگرمیوں سے استاد کا لاتعلق ہوجانا طلبہ کے ہمہ جہت ترقی کے لئے بہت مضر ثابت ہوتا ہے۔
(4)ساتھی اساتذہ سے بہتر میل میلاپ قائم رکھیں۔ساتھیوں سے دوستانہ تعلقات سے استاد کی پیشہ وارانہ اور فنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔اساتذہ کا باہمی میل جول تجربات اور مشاہدات کے اشتراک کا ایک کامیاب وسیلہ ہوتا ہے۔ باہمی تعاون کی وجہ سے نظریات رجحانات اور تکینک کا تبادلہ عمل میں آتا ہے۔ کمرۂ جماعت کے اکثر و بیشتر مسائل اساتذہ کی آپسی گفت و شنید سے حل ہوجاتے ہیں۔ اکتساب کو پروان چڑھانے میں اساتذہ کا ایک دوسرے سے تعاون اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔یہ تعاون جہاں طلبہ کی ترقی کے لئے کارآ مد ہوتا ہے وہیں اساتذہ کی فنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بھی بلند ی عطا کرتا ہے۔باہمی تعلقات کام کرنے کی صلاحیت اور معیار میں اضافے کا سبب ہوتے ہیں۔
(5)اساتذہ اپنی تعلیمی،فنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے والے ہر پروگرام میں خوش دلی ،جوش و ولولے سے حصہ لیں۔اپنی معلومات میں اضافے ،جدید تعلیمی نظریات و رجحانات سے آگہی پیدا کرنے کے علاوہ جدید اور اختراعی تدریسی طریقوں سے اپنے آپ کو متصف کریں اور کوئی ایسا موقع نہ گنوائیں جو ان کی تعلیمی، فنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے فروغ میں معاون ثابت ہوسکتاہے۔تعلیمی سیمنارس، ورکشاپس، تربیتی ورکشاپس اور ادبی ،سائنسی پروگرامس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔ایسے پروگرامس میں ضرور شریک ہوں جہاں ماہرین کے نظریات سے استفادے کے موقع دستیاب ر ہیں۔
(6)جدید نظریات کو اپنے کمرۂ جماعت میں نافذ کرنے کے لئے اگر ان میں تبدیلیوں کو جگہ دینی پڑے تو ضرور کمرۂ جماعت کے مطابق اپنے طریقہ تدریس اور تکنیک میں تبدیلی کو جگہ دیں۔قدیم تکنیک کو جدید تکنیک سے بدل دیں۔ قدیم تدریسی تکنیک کی وجہ سے طلبہ مثبت اکتسابی عمل سے محروم رہتے ہیں۔ضرورت ہوتو قدیم اور جدید کے امتزاج سے کام لیں۔درس و تدریس کے دوران ہر وقت عصر ی تقاضوں کو مدنظر رکھیں تاکہ بچوں کواسکول سے باہر کی دنیا اجنبی معلوم نہ ہو۔ اپنی تدریس کو حقیقت سے قریب رکھیں۔درس و تدریس میں مصنوعی پن کو بالکل جگہ نہ دیں۔درس و تدریس کا مقصد بچوں کو حقائق سے آشنا کرنا ہوتا ہے۔ حقائق کو دلکش پیرائیہ میں بیان کرنے کے ہنر سے اپنے آپ کو آراستہ کریں۔ تلخ بات کو شیریں انداز میں پیش کرنے کا سلیقہ سیکھیں۔حقائق و نظریات کو شفاف طریقے سے پیش کریں۔شک و شبہ اور ابہام کو ہر گز جگہ نہ دیں۔
(7)اساتذہ کی تربیت سازی کا کام انجام دینے والے افراد سے رابطے میں رہیں ان کے تجربات اور مشاہدات سے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں۔ تجربہ کار قابل اساتذہ سے ملاقات کریں۔ماہرین تعلیم اورنظریہ ساز شخصیات سے میل جول رکھیں۔اساتذہ کی فنی ،تعلیمی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے والے کلبس ،اساتذہ انجمنوں اور تحقیقاتی مراکز سے رابطہ برقرار رکھیں تاکہ فنی اور پیشہ وارانہ ترقی جمود کا شکار نہ ہو۔محکمہ تعلیمات کی جانب سے جاری کردہ اعلانات اور پالیسوں پر نظر رکھیں۔
(8)تعلیمی رسائل،جرائد اور اخبارات کا مطالعہ کریں۔ تعلیمی رسائل جرائد اور اخبارات کے ذریعے جدید تعلیمی نظریات ،رجحانات ،تجربات اور تکنیک تک رسائی آسان ہوجاتی ہے۔دنیا بھر میں انجام پانے والی تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہیں۔ ان معلومات کی روشنی میں اساتذہ اپنی فنی،تعلیمی اور پیشہ وارانہ ترقی کو مزید مستحکم کر سکتے ہیں۔
(9)سوشل میڈیا کے استعمال اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی اساتذہ کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے فروغ میں بے حد معاون ہوتا ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ اساتذہ نہ صرف اپنی نصابی معلومات میں اضافے کو یقینی بناسکتے ہیں بلکہ درس و تدریس کے جدید طریقے ہائے تدریس سے بھی اپنے آپ کو مزین کر سکتے ہیں۔انٹرنیٹ پر کئی ایسی تعلیمی ویب سائٹس موجود ہیں جس سے اساتذہ اپنی فنی ،تعلیمی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو جلا دے سکتے ہیں۔
اساتذہ کا پختہ عزم و یقین ہی ان کو اپنے پیشے میں کامیابی عطاکرتا ہے۔وہ کاوشیں جن کے پس پردہ اخلاص اور محنت و لگن کارفر ہو وہ یقیناًکامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔پیشہ تدریس جہدمسلسل کادوسرا نام ہے ۔یہ ایک عظیم قومی خدمت ہے۔اساتذ ہ میں تعلیمی و فنی صلاحیتوں ،مہارتوں کا فروغ انھیں عظیم کارنامے سرانجام دینے پر آمادہ کرتا ہے۔وہ اساتذہ جو اپنے تدریسی کیرئیر میں کارنامے انجام دینے کے متمنی ہوتے ہیں اپنے عزائم اور اہداف کا تعین بہت پہلے ہی کر لیتے ہیں۔مثبت شخصیت کے حامل اساتذہ کبھی ناکامی سے خوفزدہ نہیں ہوتے ہیں۔مایوسی ان کے لئے کفر ہوتی ہے۔وہ ہر وقت امید اور یقین کے درمیان اپنے آپ کو کھڑا پاتے ہیں۔فطرت ہمیشہ تبدیلی کی خوگر رہی ہے اور جو اساتذہ فطرت کے اصولوں پر کاربند رہتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ عظیم کامیابیاں ان ہی کے قدم چومتی ہے جو خود کو وقت کے ساتھ ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔اساتذہ کو عزم و یقین کے ساتھ اخلاص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ادارہ جات و محکماجات اگر فنی ،تعلیمی اور پیشہ وارانہ مہارتوں کے فروغ میں اپنا تعاون پیش کرے یہ نہ کریں لیکن اساتذہ اپنی تعلیمی،فنی،اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور مہارتوں کے فروغ میں تساہل سے کبھی کام نہ لیں۔اساتذہ اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور مہارتوں کے فروغ کے لئے ہر ممکن اقدام کریں۔کیونکہ درس و تدریس کا اولین مقصد طلبہ کو زندگی کی بے پنا ہ صلاحیتیں سے آراستہ کرتے ہوئے قوم و ملت کی خدمت کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے۔اساتذہ کا تعلق سماج کے ان افراد میں ہوتا ہے جو ذہانت و لیاقت کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں۔ اساتذہ اپنے عہدے کے پاس ووقار کو ملحوظ رکھیں۔ اپنی بہترین تخلیقی،ذہنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم وملت کی تعمیر میں اپنا تعاون پیش کریں۔اساتذہ میں تعلیمی ،فنی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہوئے قوم و ملت کی حقیقی خدمت انجام دی جاسکتی ہے۔
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔