وہ مینار والی مسجد کے سب سے اونچے مینار پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہاں سے اُسے دور دور تک سارا منظر صاف نظر آتا تھا۔ گاؤں کے کچے پکے مکانات مشرقی سمت میں شہر سے آنے والی پختہ سڑک جو اس گاؤں سے ہوتی ہوئی دوسرے شہر تک چلی جاتی تھی۔ مغربی سمت میں گندے پانی کا چھپڑ ‘ گاؤں کے اطراف میں ہی دور تک پھیلا ہوا زرعی زمین کا رقبہ جس میں باغات بھی موجود تھے اور گاؤں کے ساتھ ہی قبرستان۔۔۔ زندہ لوگوں کے ساتھ مرنے والوں کی بستی۔۔۔ قبرستان دیکھ کر اکثر وہ مسکرانے لگتا تھا۔ اُسے یاد آجاتا تھا۔ جب حضرت انسان دنیا پر آباد ہوا تھا اور جب دنیا کے پہلے انسان نے موت کی لذت کو چکھا تھا اور جب دنیا کے پہلے انسان کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس مرنے والے کو چھپائے کیسے۔۔۔ تب اس کے بزرگوں میں سے کسی ایک نے اسے قبر کھودنے کا طریقہ سکھا تھا۔ قبرستان کی یہ صورت اس کے بزرگوں کی ایجاد کی یادگار تھی۔ جب وہ اداس ہوتا تھا تو اس مینار پر آبیٹھتا تھا۔۔۔ مگر آج تو وہ رزق کی تلاش میں یہاں آکر بیٹھا تھا۔ اس کی نظر بہت تیز تھی۔ اب وہ گاؤں میں جھانک رہا تھا۔ اس کے مقدر کا رزق کہاں پر موجود ہے۔ کسی بچے کے ہاتھ میں یا پھر نلکے کے پاس تھڑے پر بیٹھی اس عورت کے پاس جو پانی کی مدد سے گوشت صاف کررہی تھی۔ پھر اچانک وہ چونک پڑا۔ اسے کھانے کے لیے تو کچھ نظر نہیں آیا تھا مگر اس نے کچھ اور دیکھ لیا تھا۔ کچھ ایسا جسے نظر انداز کرنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ اب وہ اچھل پڑا اور اس نے فضامیں چھلانگ لگا دی تھی۔ اب وہ اپنے پر سکوڑے ہوا کے دوش پر تیر جیسی تیز رفتاری کے ساتھ شرافت علی کے گھر کی طرف آرہا تھا۔ پھر وہ گھر کی منڈیر پر آبیٹھا۔
’’کائیں۔۔۔ کائیں۔۔۔کائیں۔۔۔‘‘ وہ حلق پھاڑ کر چیخنے لگا تھا۔ زلیخا نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ وہ اس وقت صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی۔ شرافت چارپائی پر بیٹھا دیسی گھی کے پراٹھے اور اچار کے ساتھ ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔
’’ایک تو اس کم بخت سے میں بہت تنگ ہوں۔۔۔‘‘زلیخا ماتھے پر بل ڈال کر بولی تھی۔
’’تنگ تو نہیں کرتا بس خبر لاتا ہے کہ مہمان آنے والے ہیں۔۔۔‘‘
’’منحوس کہیں کا۔۔۔ اس کی لائی خبر غلط بھی تو نہیں ہوتی۔ جب بھی کائیں کائیں کرتا ہے افشاں اپنی فوج کے ساتھ آجاتی ہے۔۔۔‘‘
’’تو پھر تیاری کرلو۔۔۔ افشاں آتی ہی ہو گی ۔۔۔ اپنی فوج کے ساتھ۔۔۔ آخر سہیلی ہے تمہاری۔۔۔‘‘ آخر میں شرافت کا لہجہ طنزیہ ہوگیا تھا۔ پھر شرافت نے پراٹھے کا ایک ٹکڑا چھت کی طرف اچھال دیا۔ وہ جب بھی اس کے گھر آتا تھا۔ شرافت اسے کھانے کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ دیتا تھا۔ اس نے کمال مہارت سے فضا میں ہی ٹکڑا اُچک لیا تھا۔۔۔ اور منڈیر پر ہی بیٹھ کر کھانے لگا تھا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ لقمہ شرافت کے گلے میں ہی پھنس کر رہ گیا تھا۔ زلیخا نے آگے بڑھ کر کنڈی گرا دی تھی۔ ایک فربہ خاتون دندناتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک منحنی سا آدمی اور سولہ سال سے لے کر آٹھ سال تک کے چار بچے بھی موجود تھے۔ شرافت اٹھ کھڑا ہواتھا۔
’’اے۔۔۔ ہے۔۔۔ہے۔۔۔ میری پیاری بہن زلیخا۔۔۔ میں تو اداس ہوگئی تھی۔‘‘ اس نے زلیخا کو اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا تھا۔ دوسری طرف وہ آدمی شرافت سے لپٹ گیا تھا۔ بچے صحن میں کھیلنے لگے تھے ۔۔۔ یہ افشاں تھی۔ وہ مہینے میں دو ایک بار اپنی پوری فیملی کے ہمراہ زلیخا سے ملنے ضرور آتی تھی اور جب مسافر بس گاؤں کے سٹاپ پر آکر رکتی تھی تو وہ کوا ہمیشہ ان کی آمد کو بھانپ لیتا تھا۔ اب اگلا مرحلہ شرافت کے گھر پر خبر پہنچانے کا ہوا تھا۔ جب تک افشاں اپنی فیملی کے ہمراہ یہاں موجود رہتی تھی۔ وہ کوا نظر آنے والے مناظر کا مشاہدہ کرتا رہتا تھا۔
’’اے بہن۔۔۔ تم لوگ خوش قسمت ہو جو گاؤں میں رہتے ہو۔ شہر میں تو زندگی بہت دشوار ہے۔‘‘ افشاں نے بات شروع کی تھی اور زلیخا بس سر ہلا کر رہ گئی تھی۔ افشاں سے اس کی ملاقات شہر میں ہوئی تھی۔ زلیخا کچھ ضروری گھریلو سامان کی خریداری کے لیے شہر گئی تھی اور پھر ایک دکان پر اسے افشاں مل گئی تھی۔ باتوں باتوں میں دوستی ہوگئی تھی۔ افشاں کو گاؤں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ زلیخا نے اسے بس ایسے ہی اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ مصروفیت کے اس دور میں کس کے پاس وقت ہے۔ وہ تو بس افشاں کا دل رکھ رہی تھی۔ مگر یہ دل لگی زلیخا کو مہنگی پڑ گئی۔اگلے ہی ہفتے افشاں زلیخا کے گھر پوری فوج کے ساتھ آدھمکی تھی۔ تب تو زلیخا کو بہت خوشی ہوئی تھی۔ وہ مہمان کو خدا کی رحمت سمجھتی تھی، مگر پھر کچھ ایسا ہواکہ یہ رحمت زحمت بنتی چلی گئی۔
شرافت علی کو وراثت میں کوئی کھیت نہیں ملا تھا۔وہ تو بس ایک کھیت میں مزدور تھا۔ اس نے محنت کر کے اپنا ایک چھوٹا سا آشیانہ بنایا تھا اب وہ بھینس کا مالک تھا۔ عید قرباں پر فروخت کرنے کے لیے وہ چھ بکرے بھی پال رہا تھا۔ سارا سال تو وہ زمینداروں کے کھیتوں میں کام کرتا ہی تھا مگر جب گندم کی کٹائی کا موسم آتا تھا تو دونوں میاں بیوی مل کر کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ مگر اجرت میں پیسوں کی بجائے وہ زمیندار سے گندم لے لیتے تھے۔ یہ گندم ان کے سال بھر کا راشن ہوتی ۔ یوں وہ ایک اچھی خوش حال زندگی بسر کررہے تھے کہ ایسے میں افشاں نے کسی ناگہانی آفت کی مانند ان کی زندگی میں قدم رکھا تھا۔
’’اے بہن۔۔۔ تم لوگوں کا خرچ ہی کیا ہے۔ کھلی آب و ہوا۔۔۔ گھر میں پانی کا نلکا لگا ہوا ہے۔ بجلی کا خرچ نہ ہونے کے برابر اور پھر بجلی کا بل بھی معمولی ہی آتا ہوگا۔ دودھ گھر کا ہے۔ آٹا گھر کا ہے اور لکڑیوں کا ایندھن ہونے کی وجہ سے گیس کی بھی بچت۔۔۔ ہمیں دیکھو۔۔۔ ہم شہر میں یوں جی رہے ہیں کہ بس جیسے دوزخ میں آگئے ہوں۔ اب تو وہاں آٹے کا بھی کال ہوگیا ہے۔ اب کی بار تو میں اپنی بہن کے گھر سے گندم کی ایک بوری لے ہی جاؤں گی۔۔۔‘‘ افشاں کی یہ بات سن کر شرافت تو گھبرا گیا تھا۔ زلیخا کی بھی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
’’کم بختوں۔۔۔ کہے دیتی ہوں۔۔۔ رُک جاؤ۔۔۔‘‘ افشاں نے اپنے بچوں کو ڈانٹا تھا۔ وہ دیسی مرغیوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ اس کا بڑا بیٹا ایک بکرے کو ٹکر مارنے کا طریقہ سکھا رہا تھا۔ بکرا چند قدم پیچھے ہٹ کر پھر اپنی اگلی ٹانگیں اٹھا کر ٹکر مارتا تھا۔ عجیب طوفان بدتمیزی برپا تھا اور شرافت اور اس کی بیوی بے چارے شرافت کے مارے خاموش تھے۔ اُن کے جانے کے بعد دونوں میاں بیوی میں جھگڑا ہو گیا تھا۔برتن بھی چلے تھے اور کوا کائیں۔۔۔ کائیں کرتا اڑ گیا تھا۔
ابھی تین ہفتے ہی گزرے تھے کہ کوا پھر سے خبر لے آیا تھا۔
’’کائیں۔۔۔کائیں۔۔۔کائیں۔۔۔‘ جب مہمان آتے تھے تو کوے کا انداز ہی کچھ اور ہوتاتھا۔ وہ منڈیر پر بیٹھا اپنے پر پھیلا رہا تھا۔
’’اب کیا کریں۔۔۔ ‘‘ شرافت نے زلیخا کی طرف دیکھاتھا۔ زلیخا نے شرافت کی طرف دیکھا پھر شرافت نے دوڑ لگا دی۔۔۔۔ اس کے ہاتھ میں تالا موجود تھا۔’’ایک ترکیب ہے‘‘شرافت نے گھر کے دروازے کو باہر سے تالا لگا دیا تھا اور پھر دیوار پھاند کر گھر کے اندر آگیا تھا۔ اب دونوں میاں بیوی دیوار کے ساتھ دبک کر بیٹھ گئے تھے۔ کوا منڈیر پر بیٹھا اس غیر متوقع منظر کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گلی میں بہت سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ پھر ان کے کانوں سے افشاں کی حیرت میں ڈوبی آواز ٹکرائی۔ ’’اے ۔۔۔ ہائے یہ کہاں چلے گئے۔۔۔‘‘
’’مم۔۔۔ مم۔۔۔مجھے کیا معلوم۔۔۔؟‘‘ اس کا شوہر ہکلاتا تھا۔
’’ستیا ناس ۔۔۔ ہمارا چار سو روپیہ جو کرائے پر صرف ہوا ضائع چلا گیا۔۔۔‘‘
’’با۔۔۔ با۔۔۔بکرے کا کیا ہوگا۔۔۔‘
’’ہم دو چار دنوں میں پھر سے واپس آئیں گے۔ان بے وقوفوں سے بکرا ہتھیانا کون سا مشکل کام ہے‘‘
’’ پھر۔۔۔ پھر سے چار سو روپیہ خرچ ہوگا۔۔۔‘‘
’’چپ رہو۔۔۔ ہزاروں کا فائدہ بھی تو ہو گا۔۔۔‘
پھر افشاں اپنی فوج کے ساتھ نامراد ہی واپس لوٹ گئی۔ انہیں واپس جاتادیکھ کر کوا چیخنے لگا تھا۔
’’کائیں۔۔۔کائیں۔۔۔کائیں۔۔۔‘‘
شرافت اور زلیخا ایک دوسرے کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ بے چارے شرافت کے مارے تو کچھ کرنے کے قابل نہیں تھے کہ کسی کا دل نہ ٹوٹ جائے۔ وہ تو کوے نے انہیں بچا لیا تھا۔ اب وہ تشکر بھری آنکھوں سے کوے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ زلیخا کوے سے نفرت کرتی تھی۔ اب نفرت دم توڑ چکی تھی۔ اب شرافت کے ساتھ ساتھ وہ بھی کوے کا خیال رکھنے لگی تھی۔ کوے کو یہاں سے کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ جب محبت ملی تو کوے کا ڈر دور ہوگیا ۔ اب وہ صحن میں بھی اتر آتا تھا۔ وہ مرغیوں کے ساتھ کھیلتا تھا۔ بکروں کے ساتھ شرارتیں کرتا تھا۔ جب زلیخا گوشت صاف کرتی تو وہ ایک آدھ بوٹی زلیخا کے ہاتھ سے چھین لیتا۔ زلیخا کو اس کوے کی حرکتوں پر غصہ تو آتا تھا مگر وہ کوا کام کی خبر بھی تو لاتا تھا۔
گزشتہ دو ہفتوں میں افشاں اپنی فوج کے ہمراہ چار بار ہلا بولنے آئی تھی۔ مگر ہر بار مایوس واپس لوٹی تھی۔ آخری بار تو وہ گھر کے دروازے کے باہر کھڑی ہو کر زلیخا اور شرافت کو بددعائیں ہی دینے لگی تھی۔ گلی کے موڑ تک وہ انہیں کوستی چلی جا رہی تھی اوریہ دونوں میاں بیوی دیوار کے ساتھ لگے مسکرا رہے تھے۔ کوا منڈیر پر بیٹھا چیخ رہا تھا جیسے وہ بھی افشاں کو خدا حافظ کہہ رہا ہو۔
پھر بہت سے دن گزر گئے۔ اب امن تھا‘ سکون تھا۔ افشاں اُن کے ذہن سے محو ہو چکی تھی۔ زندگی ایک دائرے میں گزررہی تھی۔ ایک دن زلیخا کے گھر گاؤں کی چند عورتیں آبیٹھیں۔وہ زلیخا کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ اس کوے کی بے باکیوں کو بھی بھانپ رہی تھیں۔ کوا تو اس گھر کا پالتو بن چکا تھا۔ وہ زلیخا کے اطراف میں ہی منڈلاتا پھر رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر ایک عورت بولی ’’بہن اس منحوس پرندے کا گھر میں کیا کام۔۔۔ بھگاؤ اسے۔۔۔‘‘ یہ بات سن کر کوا منڈیر پر جا بیٹھا تھا۔ زلیخا اس کی طرف دیکھنے لگی تھی۔ ’’منحوس کاہے کا۔۔۔ پرندہ ہی تو ہے ۔۔۔‘‘
’’تم نہیں جانتی بہن۔۔۔ یہ مردار خور ہے۔ اوپر سے سیاہ رنگ۔۔۔ ان کے ساتھ تو چڑیلوں کا سایہ ہوتا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو بہن۔۔۔‘‘ زلیخا کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
’’پرسوں گاؤں میں فخرو کی موت ہوئی تھی۔ اسی منحوس کی وجہ سے تو ہوئی تھی۔۔۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو بہن۔۔۔‘‘
’’اس نے فخرو کے گھر ہڈی گرا دی تھی۔ جانے کہاں سے اٹھا کر لایا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ قبرستان سے کسی مردے کی ہڈی اٹھا لایا ہو۔ ایسا اثر ہوا۔۔۔ ایسا اثر ہوا کہ فخرو مرگیا۔۔۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو بہن۔۔۔‘‘
’’سچ ہی تو کہہ رہی ہوں۔ جھوٹ تھوڑا ہی بولوں گی۔۔۔‘‘ بس جناب زلیخا باتوں میں آگئی تھی۔ اس نے ایک کونے سے مٹی کا ڈھیلا اٹھایا اور اپنے محسن کوے پر دے مارا۔ کوے کو زلیخا سے اس حرکت کی امید نہیں تھی۔ وہ کائیں‘ کائیں کرتا اڑ گیا تھا۔ اس کا دل رو‘ رو کر فریاد کررہا تھا۔
’’اے پاک اللہ۔۔۔ ہزاروں سالوں سے انسان کی فطرت نہیں بدلی۔ جو اسے نفع دے یہ اسی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ درخت انہیں پھل‘ سایہ اور آکسیجن دیتا ہے۔ یہ اسی کو کاٹ کر چولہے کا ایندھن بنا دیتے ہیں۔۔۔‘‘
وہ مسجد کے مینار پر آبیٹھا تھا۔ اس کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کبھی وہ شرافت کے گھر نہیں جائے گا۔ ایک دو دن میں شرافت نے بھانپ لیا تھا کہ اب کوا نہیں آتا۔ اس نے زلیخا سے پوچھا تو وہ بولی ’’وہ منحوس تھا۔ اس کے ساتھ چڑیلوں کا سایہ تھا۔ پچھلے دنوں گاؤں میں جو فخرو کی موت۔۔۔‘‘ اس نے اپنی سہیلیوں کی باتیں دھرادیں تھیں۔ شرافت تو افسوس سے سر ہلانے لگا تھا۔
’’ارے بے وقوف۔۔۔ کیا تو نہیں جانتی کہ موت اور زندگی کا مالک اللہ ہے۔ کیا تو نہیں جانتی کہ عزت اور ذلت کا مالک اللہ ہے۔ ان خدائی اوصاف میں بھلا اس معصوم پرندے کا کیا عمل دخل۔۔۔ تم نے اچھا نہیں کیا۔ وہ احسان کرنے والا تھا اور تم احسان ناشناس ہو۔۔۔‘‘ مزید دو ہفتے گزر چکے تھے۔ وہ صبح کا وقت تھا۔ شرافت چارپائی پر بیٹھا ناشتہ کررہا تھا۔ زلیخا صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی کہ اچانک شرافت کے کانوں سے پھڑپھڑاہٹ کی آواز ٹکرائی۔ شرافت نے سر اٹھا کر دیکھا تو کوا منڈیر پر آبیٹھا تھا۔ وہ بہت اداس تھا۔ وہ بہت خاموش تھا۔ شرافت نے پراٹھے کا ایک ٹکڑا توڑ کر اس کی طرف پھینکا تھا۔ مگر اس نے ٹکڑا اچکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ تو بس خاموشی سے کبھی شرافت کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی زلیخا کی طرف دیکھتا تھا۔ اب کی بار زلیخا نے اسے اڑانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ شاید وہ اپنے رویے پر شرمندہ تھی۔ تھوڑی د یر گزری تھی کہ اچانک دروازے پر زور دار اندا زمیں دستک ہوئی۔ شرافت گھبرا گیا تھا۔
’’یا اللہ خیر۔۔۔ کون اتنی جلدی میں ہے۔۔۔‘‘ پھر اس نے کنڈی گرادی۔ ’’اے بہن۔۔۔ ہم تو تم لوگوں کی شکلیں دیکھنے کو ترس گئے تھے۔۔۔‘‘ یہ افشاں تھی۔ وہ اپنی فوج کے ہمراہ دندناتی ہوئی گھر میں داخل ہورہی تھی۔ حیرت اور صدمے سے شرافت اور زلیخا کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔ پھر انہوں نے یک بارگی منڈیر کی طرف دیکھا۔ وہ کوا اب بھی منڈیر پر بیٹھا ہوا تھا۔ مگر وہ کچھ عجیب سی حرکتیں کررہا تھا۔ کبھی وہ ایک ٹانگ پر جھکائی دیتا تو کبھی دوسری ٹانگ پر۔ یوں جیسے ساون میں مور ناچ رہا ہو۔ پھر وہ کائیں۔۔۔ کائیں کرتا اڑ گیا۔ زلیخا کو ایک لمحے کے لیے یوں محسوس ہوا تھا کہ جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ احسان ناشناسائی کا اس سے اچھا جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ صحن میں افشاں کے بچوں نے طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا تھا اور وہ بے چارے شرافت کے مارے خاموش تھے۔
***
اہم بلاگز
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔