ارے یار علی تم کوک پی رہے ہو۔۔۔۔۔۔ ہاں تمہیں دِکھ نہیں رہا۔۔۔۔۔
ارے یار ایسے نہیں ایسے پیو جھوم کے ناچ کے۔۔۔۔جیسے کوک کے ایڈ میں لڑکے پیتے ہیں۔۔۔۔۔
بس کردے قاسم ایڈ کی تو بات ہی نا کر۔۔۔۔۔۔ وہ تو ٹوتھ پیسٹ سے منہ دھو کے پورے محلے کو لیکر بیچ سڑک پر مل کر ناچتے ہیں ہاہا۔۔۔۔اور ٹریفک بھی ڈسٹرب نہیں ہوتی۔۔۔۔
ارے سب چھوڑ بم پھوڑ یہ دیکھ فیس بک پہ آپ کا ساحر کا پیج۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈانس کامپیٹیشن۔۔۔۔۔ہر شہر کا مقابلہ ہے۔۔۔۔۔
چل یار ہم بھی اپنا ٹیلنٹ دکھائیں گے۔۔۔۔۔۔
تو میری ڈانس وڈیو ریکارڈ کرلے اور میں تیری۔۔۔۔ دیکھتے ہیں کس کی قسمت ساتھ دیتی ہے۔۔۔۔
یہ وہ گفتگو جو ،اب ہر شہر کے ہر گھر میں ہورہی ہے۔۔۔۔ ٹی وی ون سے نشر ہونے والا مارننگ شو آپ کا ساحر لا رہا ہے ڈانس کامپیٹیشن۔۔۔۔
اسی طرح پہلے بھی پاکستان آئڈل کے نام سے جیو کی جانب سے شروع ہونے والا سانگ کامپیٹیشن نے نوجوان کو آواز کے جادو میں پھنسایا اور پھر سب نے پاکستان آئڈل کے فیس بک پیج پر پڑھا کے نوجوان کس قدر مایوس اور دل شکستہ نظر آئے گویا گانا انکی زندگی کا اہم ترین حصہ ہو اور اس مقابلے میں ہار کر گویا وہ زندگی ہار بیٹھے۔۔۔۔۔ آپ چاہیں تو ابھی پاکستان آئڈل کے فیس بک پیج پر نوجوانوں کے ڈپرس شدہ کمنٹ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
اور اب ٹی وی ون کا ساحر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے درمیان سے شرم و حیا کی چادر کو گرا دینا چاہتا ہے۔۔۔۔کھل کے ناچو۔۔۔۔اپنا ٹیلنٹ دکھاؤ۔۔۔۔دنیا میں شاید اب ایسے ہی ٹیلنٹ رہ گئے ہیں!!
سوال یہ ہے کے اس طرح کے پروگرامات کا مقصد کیا ہے؟؟ اس کے فائدے ہیں یا نقصان؟۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کا مفہوم ہے جب قوم کے نوجوانوں میں بے راہ روی،بے حیائی عام ہوجاتی ہے۔ تو قوم زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔
ٹیلنٹ شو کے نام پر نچوانا گوانا۔۔۔۔ محض قوم کو بے راہ روی اور گمراہی کی طرف لے جانا ہے۔بے شمار سائنسی تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ موسیقی اور گانے بجانے کے اثرات ہمارے جسم اور ذہن دونوں پر مرتب ہوتے ہیں۔موسیقی سنتے ہوئے لوگوں پر جذباتی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
علامہ اقبال نے موسیقی کی اسی صفت کے متعلق فرمایا تھا:
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ جسم کو بیدار
یعنی موسیقی جسم کو بیدار کرکے آپ کی روحانی صلاحیتوں کو معزور کردیتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے ڈانس کمپٹیشن میں گانے سنوا کے ہی آپ کے جذبات کو جسم کو تھرکنے پر مجبور کیا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کیا موسیقی حرام ہے؟؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ موسیقی کے متعلق کہتے ہیں:
گانا بجانا دل کے اندر نفاق پیدا کرتا ہے۔ (علامہ ابن قیم الجوزیہ اغاثہ اللفھان رار البیان جلد اول)
حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ حاجیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔آپؓ نے دیکھا کہ آدمی گانا گا رہا ہے اور باقی سب گانا سن رہے ہیں تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا:اللہ کرے کے تم لوگ بہرے ہوجاؤ۔اللہ کرے کے تم لوگ بہرے ہوجاؤ۔
(اتحاف السادہ المتقین بحوالہ مفتی شفیع صاحب)
اسی طرح ائمہ اربعہ کے نزدیک بھی گانے موسیقی کے بارے میں یہی رائے ہے۔دوسری طرف بہت سے لوگ صوفی علما موسیقی کو جائز قرار دیتے ہیں۔
جبکہ ہندو مت۔عیسائیت سکھ اور دوسرے مذاہب میں موسیقی ان کی عبادت کا حصہ بن چکی ہے جبکہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
اب سوال یہ ہے کے کیا ہمارے لئے تفریح اور ٹیلنٹ کا سامان یہی ناچ گانا ہے؟؟
اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے جو ہماری زندگی کے تمام گوشوں اور ضروریات کو نظر میں رکھتا ہے اسی میں ہماری تفریحات اور تنوع پسندی بھی آجاتی ہے جس میں ہمارے لیے حلال اور جائز تفریحات شامل ہیں جیسے کے:تیراندازی۔گھڑ سواری،پیدل دوڑ،کشتی و تیراکی۔ اہل خانہ و دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا۔قرات مقابلہ، معلومات عامہ سے متعلق سوالات پر مبنی پروگرام۔
جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے معاشرتی فوائد سے متعلق مقابلہ جات جیسا کہ آج کے بچے کمپیوٹر کی دنیا میں کمال دکھا سکتے ہیں۔
اسی طرح اسلامی معلومات پر مبنی پروگرامات۔
جبکہ دوسری طرف اللہ اور دین سے غافل کردینے والی موسیقی و ناچنا تھرکنا روح میں ایک بے حسی لاپرواہی ایک خلا پیدا کردیتی ہے ذہن موسیقی کے زیر اثر میں جسم کے اعضا کو تھرکنے مچلنے پر مجبور کردیتا ہے ایسے میں بے حیائی کی فضا عام ہوتی ہے اور دیکھنے اور سننے والے اچھے اور برے کی تمیز نہیں کرپاتے آنکھوں کے سامنے ناچتی ہوئی لڑکی یا لڑکا اسے اچھا لگنے لگتا ہے۔
اس بے حیائی کے زیر اثر معاشرہ اور بھی کئی لغویات کو حرام یا برا نہیں سمجھتا اور یوں قوم زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔
آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وثنا اول طاؤس ورباب آخر
آج مغربی دنیا میں موسیقی کے بے تاج بادشاہوں نے بھی جب اس کے منفی اثرات کا جائزہ لیا ہے اور اس کے برعکس اسلام کا مطالعہ کیا ہے انہوں نے موسیقی کو ترک کرکے اسلام قبو ل کیا ہے۔
ماضی میں ہماری ماؤں نے ٹیپو سلطان۔۔۔محمد بن قاسم۔۔۔۔ شیر شاہ سوری۔۔
جیسے جاں نثار پیدا کیے ہیں لیکن آج ہمارا میڈیا ہمیں تنزلی کی شاہراہ پہ لے جارہا ہے۔۔ایسے میں ہر باشعور مسلمان عالم دین حضرات اور پیمرا ذمہ داران سے گزارش ہے کے میڈیا پہ پیش ہونے والے ایسے پروگرامات پر پابندی لگائی جائے جس سے جونوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو۔
10 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
من کی توانائی کیلیے’’ص‘‘۔
کسی اسکالر کا بیان نظروں کے سامنے سے گزرا کہ روح اور نفس کے لئےــ’’ ص‘‘ سے شروع ہونے والی پانچ چیزوں کو اپنی ذات میں شامل کریں جو آپکے لئے’’ وٹامن ‘‘ ثابت ہونگی۔وہ پانچ چیزیں صوم، صلوات، صدقہ، صلح رحمی، صبر ہیں۔
غور کیا تو واقعی بندہ ان پانچوں باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرلے تو اسکی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے گی، اسکے تن اور من دونوں کو سکون اور تقویت بھی مل جائے گی۔
1_۔ صلواۃ جو قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ، ہمارا اللہ رب العزت ہی تو ہمارا مالک و خالق ہے وہی ہماری سنتا ہے اس کا قرب ہی بندگی کی علامت ہے دن میں پانچ مرتبہ اسکے دربار میں حاضری دینے سے قلب کو صرف سکون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم سرگوشیوں میں اس سے مانگتے ہیں اسکی بے شمار نعمتوں پر اشکبار شکریہ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور ہمارا رب اپنی رحمتوں سے ہماری جھولیاں بھرتا جاتا ہے ،سبحان اللہ !
2۔ روح اور نفس کی پاکیزگی اور طاقت کے لئے دوسرا وٹامن صوم یعنی روزہ ہے جس میں بندہ صرف رب کی رضا اور خوشنودی کے لئے گرمی ہو یا سردی، دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور روزے کی حالت میں وہ اپنے نفس کو کسی بھی بدی کی طرف جانے سے سختی سے روکتا ہے یعنی روزہ ڈھال بن جاتا ہے برائیوں کے وار سے بچنے کے لئے بلکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس بھی شدت سے ہوتا ہے اور پھر یہی کوشش اسکے لئے اجر ثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے سبحان اللہ !
3۔ مومن حقوق العباد کے بعد حقوق العباد کی پاسداری سے ہی رب کی رضا کا مستحق بنتا ہے جو حقوق العباد کی پاسداری کا پابند ہوجائے تو وہ آس پاس کے تمام رشتوں کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتا ہے انکے حقوق ادا کرنے کو وہ اپنے لئے لازم بنا لیتا ہے ماں باپ کا رشتہ تو سب سے افضل و اعلی ہے جس سے غافل ہوکر وہ اپنی آخرت بھی گنواسکتا ہے لیکن باقی رشتوں کا بھی خیال رکھنا اسکے فرائض میں شامل ہے جس سے غافل رہ کر وہ رب کی رضا سے محروم ہوجاتا ہے یہ غفلت اسے اس دنیا میں بھی سکون نہیں دے سکتی نہ ہی اسکے رزق میں برکت ہوسکتی ہے اور نہ آخرت کی بھلائی حاصل ہوپائے گی جبکہ صلح رحمی کرنے والے کے لئے( یہ وٹامن) اسے دنیا کے ساتھ اخرت کی خوشیاں بھی عطاکرے گی ان شاءاللہ لہزا اس وٹامن کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنا بے حد فائدہ مند ہے سبحان اللہ !
4۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ صدقہ بلاوں کو روکتا ہے بیشک اس کا تجربہ سیکڑوں مرتبہ دیکھ بھی چکے ہیں اللہ رب العزت کے ہر حکم کے پیچھے مصلحت پوشیدہ ہے اور اسکے بندوں کے لئے دنیا وآخرت کے فائدے ہی فائدے ہیں ،مشکلات اور تکالیف میں یہ صدقہ رب کی طرف سے بندے کا مددگار بن جاتا ہے اور سامنے والے مستحق کی مدد کا ذریعہ بھی، سبحان اللہ !
5۔ زندگی...
قاضی بابا
قاضی حسین احمد بہت بہادر اور ذہین انسان تھے عام لوگوں میں رہ کر کام کرتے تھے ان کا نام عام لوگ بھی عزت سے لیتے تھے چاہے وہ ان کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ قاضی حسین احمد سے میری کچھ ملاقاتیں ہوئیں جن میں میں نے ان میں محبت اور شفقت دیکھی 1993 میں جب میں نے الیکشن میں حصہ لیا تو دیکھا کہ اس وقت قاضی صاحب جماعت اسلامی میں نئی جان لے آئے تھے انہوں نے جماعت کو عام اور پاپولر بنایا ایک شادی میں جب میری ملاقات قاضی حسین احمد سے ہوئی تو وہ میرے متعلق بہت کچھ جانتے تھے حالانکہ میں بہت زیادہ مشہور نہیں تھا قاضی حسین احمد سیاست کرتے تھے تو بہادر کی طرح کھڑے ہو جاتے تھے جس کی مثال لال مسجد واقعہ ہے جس کی انہوں نے مخالفت کی اور سینٹ سے بھی استعفی دیا سینٹ میں صرف حاضری لگوانے نہیں جاتے تھے بلکہ کام کرتے اور اپنے علاقے کے لوگوں کا بھی بہت کام کیا مطالعہ بہت کرتے تھے اور مسلسل کرتے تھے مولانا مودودی کی وفات کے بعد جو خلا جماعت اسلامی میں پیدا ہوا تھا اس کو قاضی حسین احمد نے پُر کر دیا۔۔،
یہ الفاظ ہیں مسلم لیگ نون کے ایک رہنما کے جن کا تعلق سندھ سے ہے ۔۔۔۔
میں اس ہستی کے بارے کچھ لکھنے بیٹھی تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ان کی شخصیت کے کون سے پہلو پہ لکھوں کیونکہ ہمہ جہت شخصیت کو احاطہء تحریر میں لانا خاصا دشوار ہوتا ہے پھر یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ایک غیر جانبدار کی طرح لکھوں، مخالف کی طرح لکھوں یا ایک عقیدت مند کی طرح ۔حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں حیثیتوں کے ساتھ بھی لکھوں تو مواد ایک ہی ہوگا وہ اس لیے کہ ان کے مخالف بھی ان کے عقیدت مند پائے گئے اور عقیدت مند اعتدال کی راہ میں رہ کے ان سے شجاعت صداقت اور جرأت کے اسباق سیکھتے نظر آئے۔۔
یہ بات ہے جون1996 کی ۔ مجھے کچن میں ابو کی آواز سنائی دی، امی کو بتا رہے تھے
او زبردستی چلا گیا اے،
۔کس طرح۔۔،
منتظمین نے بڑا کہیا کہ بیٹا کوسٹر وچ جگہ نہیں تو نہیں جاسکدا پنڈی۔۔ او انہاں نوں دسے بغیر کوسٹر دی چھت تے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔،
یہ تو معلوم تھا کہ راولپنڈی لیاقت باغ میں احتجاجی جلسہ ہے آج جماعت اسلامی کے تحت۔اب ابو کی گفتگو سے پتہ چلا کہ میری دوست کا چھوٹا بھائ چودہ پندرہ سالہ نوجوان بصد شوق روانہ ہو گیا ہے قاضی کی پکار پر۔۔
بے نظیر حکومت کی ،روٹی کپڑا مکان ، کی ،عطا و بخشش، کی پالیسیاں ، افلاس زدہ عوام کی سسکتی بِلکتی زندگی کی محرومیوں کی قیمت پہ حکمرانوں کی عیاشیوں پہ یہ احتجاجی جلسہ ہورہا تھا۔۔۔۔
عصر کے قریب ابو خاصے دکھی لہجے میں کہنے لگے چلو سب ۔۔۔۔
کہاں۔۔۔۔؟ پی ٹی وی کی مختصر سی خبر کے الفاظ میری سماعت میں محفوظ تھے۔۔۔۔۔ یااللہ خیر ہو۔۔۔
۔۔وہ ۔۔۔ شہید ۔۔۔ہوگیاہے۔۔۔۔پولیس نے سیدھے فائر کھول دیے ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔اس کے آگے ابو کچھ کہہ نہ سکے ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد میں اپنی انتہائی قریبی دوست کے...
جماعت اسلامی اور فرض کفایہ
یہ کرب و اذیت اب برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ وجود چھلنی ہے۔۔۔۔زخم زخم ہے۔۔۔اتنے ٹکڑے ہوئے ہیں وجود کے ان کو سمیٹتے سمیٹتے صدیاں لگ جائیں۔۔۔۔ صرف سوا سال کی مختصر مدت میں اتنے بڑے انسانی المیے نے کرہ ارض کے ایک چھوٹے سے حصے پہ جنم لیا ہے کہ اس سے پہلے شائد دنیا کی تاریخ میں ایسی نسل کشی نہیں دیکھی گئی۔ ظلم کی ایسی بدترین مثال نہیں ملتی۔
آج کی تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ کہلانے والی قومیں !!! سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ہلاکت خیز ایجادات ،کائنات کی بلندیوں کو چھونے اور مریخ پہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے شوقین انسانوں کی درندگی نے درندوں کو شرمادیا ہے۔ اس درندگی کی سب سے بدترین مثال اسرائیل نے اور اس کے دہشت گرد یار امریکہ اور اس کے حواریوں نے پیش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مسلم ممالک کے سربراہان اور سیاستدانوں نے خاموش حمایت کے ذریعے اس درندگی میں اپنا حصہ بھی ڈال دیا ہے ۔ ظالم کے ظلم پہ خاموشی اختیار کرنا دراصل اس ظالم کا ساتھ دینا ہی ہے ۔ اس کے ظلم کی تصدیق کرنا اور اخلاقی جواز مہیا کرنا ہے۔
فلسطین کے ایک حصے غزہ میں جس انسانی المیہ نے آج سے چودہ ماہ پہلے جنم لیا گو کہ یہ ظلم تو کئی عشروں سےجاری ہے اور غزہ درحقیقت ایک بہت بڑی جیل ہے جس میں بقول حافظ نعیم الرحمن اکیس لاکھ انسان بطور قیدی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اب تو یہ مذبح خانہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک 45،484 افراد کی شہادت( ایک اندازہ کے مطابق تو یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جوکہ ملبے تلے دبے ہیں ) ، لاکھوں افراد زخمی ہیں، بیماری ،سردی اور بھوک سے ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔۔۔ رپورٹ کے مطابق 365 اسکوائر کلومیٹر پہ مشتمل غزہ کا علاقہ 85000 ٹن سے زیادہ بارودی بمباری کے نتیجے میں ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے ۔ شہر کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ مکانات،کاروبار،مساجد،اسکول،یونیورسٹیاں، ہسپتال ( اسرائیل کی تازہ کارروائی کے نتیجے میں آخری ہسپتال کمال عدوان ) و دیگر انفراسٹرکچر اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 40 ملین ٹن کے ملبے میں تبدیل ہوچکا ہے جس کو صاف کرنے کیلئے 15 سال کی مدت اور 500 ملین ڈالر کا سرمایہ درکار ہے ۔
اس وقت غزہ کے مظلوم مسلمان سردی، بارش میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں اور ان کے خیموں پہ اسرائیلی بمباری بھی جاری ہے،خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث بھی شہادتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس موقع پہ امت مسلمہ کہاں ہیں ؟؟؟ نبی مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی کہاں ہیں؟؟؟ نبی مہربان نے تو امت کو جسد واحد سے تشبیہ دی ہے کہ جیسے جسم کے ایک حصے میں درد ہوتو پورا جسم متاثر ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مسلمان کسی تکلیف میں ہو تو پوری امت اس کرب کو محسوس کرتی ہے اور بے چین ہو جاتی ہے ۔۔۔ لیکن وائے افسوس!!! آج امت بے...
رنگت کا شور
خوب صورتی محض سفیدی میں نہیں اورحسن کا معیار گوری رنگت نہیں ۔ اس زندگی میں کچھ کردار ایسے ہیں جو چلتے پھرتے کہانی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہر انسان کی زندگی میں قدرت نے ایک مثبت پہلو رکھا ہوتا ہے ۔ سارہ بھی ایسا ہی ایک کردار ہے جسے پانچ برس کی عمر میں اس کے والدین آنکھوں میں مثبت خواب سجائے اسے مکتب میں بھیجتے ہیں کہ ایک روز سارہ پڑھ لکھ کر اس قوم کی خدمت کرے گی ۔ سارہ کو بدقسمتی سے بچپن ہی سے معاشرے سے وہ پیار نہ ملا جس کی وہ حق دار تھی ۔ پڑوس کے بچے اور بزرگ سب ایسے کالی کالی کہہ کر مخاطب کرتے مگر سارہ نے کبھی ماتھے پر شکن تک نہ لائی۔ سارہ کے والدین ان باتوں سے اکثر افسردہ ہوتے تھے آخر وہ کس کس کو اور کیا کیا کہہ کر سمجھاتے ۔
وقت گزرتا گیا سارہ کا مکتب میں پہلا دن اتنا بھی شان دار نہ رہا جتنی اس کو مسرت تھی ۔ مکتب کے بچے بھی اس کو کالی کلوٹی کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ۔ سارہ سب کو بھائی اور بہن کہہ کر مخاطب کرتی لیکن کوئی اس کے ساتھ بیٹھنا تک گوارا نہ کرتا ۔ وقت گزرتا گیا سارہ نے کتابوں کو اپنا دوست بنایا ۔ ہر سال جماعت میں اول آتی رہی ۔ جماعت ہشتم میں اب زیر تعلیم تھی لیکن اس کے چہرے کی رنگت اب بھی ایک مسئلہ تھا لیکن ہر جماعت میں ایک کردار ایسا بھی تھا جس نے سارہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا اور وہ کردار اس کی معلمات کا تھا ۔ استاد کبھی بھی بچوں کو اس کی رنگت کی وجہ سے اس سے نفرت یا محبت نہیں کرتے ۔ ایک حقیقی استاد وہی ہوتا ہے جو بچوں میں محبت کو پروان چڑھاتا اور انھیں بلند حوصلہ فراہم کرتا ہے ۔
میڈم شمیم اپنے ادارے میں ایک قابل معلمہ کے طور پر پہچانی جاتی تھی ۔ ایک روز انہیں کلاس میں پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو دیکھا سب بچے قہقہ لگا رہے ہیں اور وہیں ایک بچی ایسی بھی بھی ہے جو اداس بیٹھی ہے ۔ میم شمیم نے بچوں کو مخاطب کیا اور پوچھا : ” بچو ! کیا تم جانتے ہو اچھے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ “ جماعت سے یکے بعد دیگرے مختلف آوازیں آنے لگی : صاف ستھرے ، اچھا بولنے والے ، اچھا پڑھنے والے ، بڑوں کی بات ماننے والے ۔۔۔۔ میم شمیم نے سوال تبدیل کیا کہ برے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ تو جماعت کے کچھ بچے سارہ کی جانب دیکھ کر ہنسنے لگے اور کہیں سے آواز بلند ہوئی سارہ کی طرح کالے کلوٹے ۔۔۔کلاس میں بلند قہقہ لگا ۔ میم شمیم نے سب کو غصے سے مخاطب کرتے ہوئے کہا ! بچو ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ پاک کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ ہم اس کے تخلیق کردہ انسان کی تذلیل کریں ؟ اس کو برا بھلا کہیں، کیا ہم سب ایک جسم کی مانند نہیں...
محمد علی جناح قائد اعظم کیسے بنے؟
1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کا ہندوستان میں اقتدار مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا اس لیے انہوں نے بغاوت کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی اور انہیں ہر طرح سے دبانے اور کمزور کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے انڈیا میں اپنی تجارت اور مصنوعات کو فروخت دینے کے لیے مسلمان ہنر مندوں کو گھر بٹھا دیا انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا مسلمانوں کی زبان کو متروک کرکے انگریزی زبان کو فروغ دیا گیا فارسی زبان پڑھنے والوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے یہاں تک کہ مثل مشہور ہو گئی کہ "پڑھو فارسی بیچو تیل" ۔ مسلمان پسماندہ سے پسماندہ ہوتے چلے گئے۔
ہندوؤں نےان حالات کا فائدہ اٹھایا انہوں نے انگریزی زبان سیکھ کر انگریزوں کا قرب حاصل کیا اور اپنی اس حکمت عملی کے ذریعے حکومت میں اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔
ہندو تعداد میں مسلمانوں سے زیادہ تھے اس بنا پر وہ جان گئے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اقتدار ان کے ہاتھ آسکتا ہے انہوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا۔
مسلمان بھی انگریزوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر "ہندوستان چھوڑ دو" تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہندو مسلم اتحاد میں جو مسلمان رہنما شامل تھے ان میں ایک نمایاں نام محمد علی جناح کا تھا جو پیشے کے اعتبار سے قانون دان تھے۔ ان کا شمار ہندوستان کے بڑے وکیلوں میں ہوتا تھا وہ ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے اور ہندوستان کے عوام کے سیاسی حقوق کے علمبردار تھے مگر جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ہندو رہنماؤں کا مقصد صرف ہندو اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں چنانچہ انہوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جو مسلمانوں کی سیاسی جماعت تھی اور ان کے سیاسی حقوق کے لیے کوشاں تھی۔
محمد علی جناح اور دیگر مسلمان زعماء یہ جان چکے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کی جائے جہاں وہ دین اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں کیونکہ ہندو اور مسلمان دو بالکل علیحدہ قومیں ہیں جن کے افکار، نظریات، دین، مذہب اور رہن سہن کے طور طریقے اس قدر مختلف ہیں کہ یہ آپس میں مل جل کر نہیں رہ سکتے۔ اس دو قومی نظریے کی بنیاد پر محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کا آغاز کیا آپ نے تحریک پاکستان کے لیے دن رات ایک کر دیے۔
محمد علی جناح ایک با اصول بے باک اور مخلص سیاستدان تھے۔ آپ نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ دوست دشمن بھی مخالفت کے باوجود آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ محمد علی جناح نے اپنی و لولہ انگیز قیادت کی بدولت بکھری ہوئی مسلمان قوم کو اسلام کے...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
ہمارے میڈیا کو یسے informative پروگرام نشر کرنے چاہیے جو نوجوان نسل کے لیے لئے سودمند ثابت ہو ناکہ ایسے پروگرام جو نسل کو تباہی کے دہانے پر لے جا ءے۔
بہت اچھی تحریر۔
جزاک اللہ
Ascy programme ko foren band hona chiya jo hamari naslon ko bara rawi ke traf la ja k na sirf un ko dunyavi balky akhrat k hasaray ma dal dayn in programme ko chalanay walon pa b pabandi lagahe jaha k wo sirf islami hadood k ander rah k no jawab nasal k lia ascy programme chalayn jo sahe mahno ma un k lia trbit o tafree ka bahis hon
Nojawan nasal k lia media ka positive role bot zruri hay jo in ke zani or jasmani trbit quran o sunnet ke roshnI ma kr saky
شہلا عمیر نے معاشرے میں بڑھتے ہوئے ناچ گانے کلچر پر بلکل صیح قلم اٹھایا ہے۔آج کے نوجوان کو ہمارا میڈیا جس رخ پر لے جارہا ہے وہ لمحہ فکریہ ہے۔جس نسل کو آگے بڑھ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے اسے رقص و موسیقی کے زہریلے نشے میں مست کیا جارہا ہے۔جو کام کسی زمانے میں بادشاہوں کے خواجہ سرا کیا کرتے تھے آج فخر سے انکے مقI ابلے منعقد کروائے جارہے ہیں۔
شہلا کا بلاگ اس کلچر کے خلاف بہت عمدہ تحریر ہے۔
Aap k murasla na bot ham point ke traf sub ke tawaja devahe hay k media nojawan nasal ke zani sazi ma bot ham role ada kr k un ke khaleef ul arz honay zamidari ke traf sa nojawan nasal ka dayan hata raha hay
Media play an important role to brain wash our youth make them Totley against teaching of islam
Pamara should banned all this type of programmes and all people should raise their voice
Masha allah billkul sahi soorat haal dikhai
As I am looking at your writing, casino online I regret being unable to do outdoor activities due to Corona 19, and I miss my old daily life. If you also miss the daily life of those days, would you please visit my site once? My site is a site where I post about photos and daily life when I was free.