دو مظلوم طبقے

کسی بھی معاشرے کو بنانے یا بگاڑنے کا سہرا اس قوم کے دو طبقات کے پاس ہے ایک وہ طبقہ جس کے پاس اس قوم کے مذہبی و دینی معاملات ہیں  اور دوسرا وہ جس کے پاس پوری ایک قوم تیار کرنے کی ذمہ داری ہے ۔ بدقسمتی سے یہی وہ طبقات ہیں جن کی اول تو ہماری قوم میں کوئی پذیرائی نہیں ہے ۔ امام مسجد جس کو نہ صرف نمازوں کی بلکہ پورے محلے کی امامت کرنے کی بھی ذمہ داری ہے  ۔ اول تو وہ بے چارہ “حادثاتی” طور پر مسجد کا امام بن جاتا ہے ۔ مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بہرحال معاش کی فکر تو اس کے ساتھ بھی لگی ہے ۔ پہلے وہ کہیں پانچ ہزار روپے میں حفظ و ناظرہ کی کلاس لیتا ہے اور پھر محض دس اور بارہ ہزار روپے میں مسجد کا امام بن جاتا ہے ۔ جہاں اس کو صبح ساری دنیا سے پہلے بیدار ہونا ہوتا ہے ۔ پوری قوم میں یہی تو وہ ایک ذمہ دار ترین آدمی ہے کہ جو وقت کی پابندی کرتا ہے ۔ سردی ہو یا گرمی ، ہاری ہو یا بیماری ، خوشی ہو یا غمی خود کی طبیعت خراب ہو یا بیگم بچے کی اس کو ہر حال میں پوری پابندی کے ساتھ  بروقت نماز شروع کروادینی ہے ۔ سردیوں میں تو شاید پھر ذرا جلدی فارغ ہوجائے لیکن گرمیوں میں تو رات گئے تک اپنے فرائض سر انجام دینے ہیں ۔ اسی دوران کسی کا جنازہ آجائے یا رات گئے مووی اور ڈھول ڈھمکے کے بعد رات 12 یا 1 بجے نکاح پڑھانا ہو تو تب بھی یہی مولوی صاحب درکار ہیں ۔ ہمارے مردے بخشوانے کے لئیے بھی یہی مولوی جائیگا ۔ جس کی تنخواہ صرف دس ہزار روپے ہے ۔ کہیں سے اس بے چارے کے پاس کھانا پینا آجائے کبھی صدقے کے نام پر کبھی نذر و نیاز کے نام پر اپنے بیوی بچوں سے عام طور پر دور یہ “مولوی” کچھ کھا پی لے تو مولوی کھاتا بہت ہے ۔ پھر کسی کا اپنے سیٹھ سے پھڈا ہوجائے ، بیوی سے لڑائی ہوجائے یا پڑوسی سے تلخ کلامی غصہ تو بہر حا ل اما م صاحب پر ہی نکلنا ہے ۔ مسجد میں ” فلاں ” صاحب کی بات اسلئیے ہر حال میں مانی جائیگی کیونکہ وہ مسجد میں فنڈ سب سے زیادہ دیتے ہیں ۔ وہ بے چارہ مولوی منبر سے بھلا کیا حق بات کریگا جس کو ہر لمحہ اپنے دس ہزار چھن جانے کا ڈر لگا ہو ۔ ذرا معاشرے میں جائزہ لیں زیادہ نہیں اپنے آپ سے پوچھ لیں کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپکا بچہ “اما م مسجد ” بن جائے ؟ اب تو پھر بھی صورتحال ذرا بہتر ہے خاص کر شہروں میں ورنہ  پہلے تو جو گھر کا سب سے بگڑا ہو بچہ ہوتا تھا  اسی کو مدرسے میں ڈالا جاتا تھا  اگر کوئی معذور ہوجاتا تو وہ اللہ کے نام ہوجاتا اور کیوں نہ ہوتا ہم تو اللہ کے نام پر ویسے بھی سب سے ناقص چیز جو دیتے ہیں ۔ اور اس کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ یہ مولوی صاحب ایسے بیانات دیں ،  ایسے خطبے دیں،  ایسے اعلی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کریں کہ پوری قوم متقی پرہیز گار ، صالح با کردار پانچ وقت کے باجماعت نمازی اور خوش مزاج بن جائے ۔ پہلے آپ اپنی قوم کے اعلی دماغ ، بہترین گھرانوں کے بچوں کو مساجد میں امام و خطیب بنائیں ۔ ان کو سہولیات دیں ۔ مساجد میں کم از کم دو ائمہ رکھیں تا کہ دونوں کو آسانی رہے نماز بوجھ نہ بنے بوقت ضرورت کہیں آ جا سکیں ۔ مقامی لوگ جب اپنے بچوں کو اس شعبے میں لائینگے ۔ مساجد میں امام بنائینگے سا را محلہ با اخلاق ہوجائیگا ۔ ذرا جائزہ تو لیں کراچی کی کتنی مساجد میں اردو بولنے والے  ائمہ ہیں ؟خدارا اس بات پر پنجابی پٹھان نہ کریں ۔ مساجد آپ کی ، مساجد کے فنڈز آپ کے  اور چندے آپ کے ۔ مساجد کی کمیٹیاں اور ٹرسٹ آپ کے لیکن امام باہر کا کیونکہ آپ کا بچہ تو ملٹی نیشنل کمپنیز  میں ملازمت کے لئیے ہے ، کاروبار سنبھالنے کے لئیے ہے ۔ بس غریب کا بچہ ہے “امام مسجد” بننے کے لئیے ۔ ائمہ مساجد سے اس روئیے اور سلوک کے ساتھ “اسلامی انقلاب” ، “امریکا کی تباہی کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں ۔ پہلے مسجدوں کو ہدف بنائیں ، پڑھے لکھے قابل نو جوانوں کو جو مقامی ہوں مساجد کی امامت سونپ دیں ۔ بخدا محلے  کے محلے اسلامی معاشروں میں ڈھل جائینگے ۔

دوسرا مظلوم ترین طبقہ اساتذہ کا ہے ۔ جی ہاں وہی اساتذہ کہ جن کے ذریعے سے آپ اپنے بچوں سے ” ستاروں پر کمندیں ڈلوانا چاہتے ہیں ” آسمان سے تارے تڑوا کر لانا چاہتے ہیں ۔ صبح سے لے کر سہہ پہر تک اس سے ہر کام نکلواتے ہیں ۔اس بے چارے کی ذہنی نشو نما اور تربیت کے لئیے امریکا اور یورپ کے جدید طریقہء تدریس  اور  طرز تعلیم سکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن پہلے اس سے تو پوچھ لیں کہ وہ اس شعبے میں ” بذات خود ” آیا ہے یا ” فی الحال نوکری نہیں ہے سوچا ٹیچنگ کرلوں ” جیسا کوئی خیال لے کر آیا ہے ۔ پرائمری اسکولوں میں پڑھانے والے نوے فیصد اساتذہ  ” حادثاتی ” طور پر اس شعبے میں آتے ہیں ۔ سارا وقت ان کی زبان پر  شکوے شکایتیں رہتی ہیں  دوسرے شعبوں میں میں کام کرنے والوں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں  اور کیوں نہ دیکھیں ۔ اسکول کے اکاونٹنٹ ، چوکیدار ، ڈرائیور  حتی کہ چپڑاسی تک کی تنخواہ یا تو ان کے برابر ہے یا ان سے زیادہ ہے ۔ ہم پانچ ،دس اور پندرہ ہزار روپے دے کر چاہتے ہیں کہ یہ بل گیٹس اور اسٹیو جابز پیدا  کردیں ۔ کارپوریٹ سیکٹر کے پورے  اصول و ضوابط محض تنخواہ پر لاگو کر کے اور کسی بھی قسم کی سہولیات نہ دے کر ہمیں اسکولوں سے ” علامہ اقبال ” اور  “قائد اعظم ” درکار ہیں ۔ معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جن کے لئیے ٹیچنگ میں کسی بھی قسم کی چارمنگ ہے ؟ یہ تو وہ شعبہ ہے جس میں صرف عزت تھی اور اب تو ” گاہک ہمیشہ ٹھیک ہوتا ہے ”  والی سوچ نے  ماں باپ اور بچوں کو کسٹمرز بنا دیا ہے ۔ اس لئیے اساتذہ کی وہ رہی سہی عزت بھی دلوں سے نکل گئی جو تھی ۔ پہلے اساتذہ بچے کو اپنا سمجھتے تھے ۔ ماں باپ کو بھی معلوم تھا ہڈی ہماری ہے اور گوشت استاد کا ۔ بہترین ہیرے ان ہی لال پیلے اسکولوں سے نکلا کرتے تھے  اور دل سے استاد کی عزت کیا کرتے تھے ۔ پیسہ اس زمانے میں بھی نہیں تھا لیکن عزت تھی ۔ اب تو اسکول کا مقصد بھی پیسہ کمانا ہے اور استاد بھی “نوکری ”  کرنے اسکول آتا ہے ۔ تربیت پرانے وقتوں کی بات ہوگئی  ہے ۔ تربیت تو محبت سے کی جاتی ہے حکم تو فیکٹری کا باس دیتا ہے ۔ “کارپوریٹ کلچر ” میں تو کارپوریٹ اساتذہ ہی آئینگے  اور ان کے لئیے بھی بچے گاہک کے سوا اور کچھ نہیں ہونگے ۔ آپ اساتذہ کو عزت اور سہولیات دینا شروع کریں ۔ انہیں  “نوکر”  کے بجائے استاد کا درجہ دیں ۔ ان کو اپنے عمل سے باور کرائیں کہ آپ نوکری نہیں عبادت کر رہے ہیں  اور ہم آپ کی دل سے قدر کرتے ہیں ۔ پھر کچھ امید ہے کہ ہم ایک بہتر نسل پروان چڑھا سکیں ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں