کسی بھی ملک اور معاشرے کی قسمت اور خوشحالی تعلیم سے وابستہ ہوتی ہے۔ہمارے ذہنوں میں یہ بات ترازو کی طرح قائم کر دی گئی ہے کہ معیاری تعلیم اچھی نصابی کتب کے ذریعہ فراہم کی جاسکتی ہے۔بالکل اس حقیقت سے ہم سرموئے انحراف نہیں کر سکتے ہیں کہ کتاب حصول علم کا ایک کارگر وسیلہ ہے لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ بغیر استاد کے یہ وسیلہ اپنی افادیت گنوا دیتا ہے۔کتابیں معلومات کی فراہمی میں نہایت کار گر ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن سماج میں تبدیلی اور انقلاب کا نقیب کتاب نہیں بلکہ استا د ہوتا ہے۔ قوموں کی قسمت کی تبدیلی کا کام کتابیں نہیں بلکہ استاد انجام دیتے ہیں۔تعلیم جو تربیت سے عاری ہو وہ تعلیم نہیں محض معلومات کا ڈھیرکہلاتی ہے۔جس کتاب کے الفاظ کے پیچھے استاد کی زندہ شخصیت، جانفشانی و جفاکشی، اور جذبہ تعمیر و تبدل موجود نہ ہووہ کتاب بے جان الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے۔جس تعلیمی نظام میں استاد کو مرکزی اور قابل قدر حیثیت حاصل نہیں ہے وہ نظام ایک مہذب ڈھونگ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔اپنے مضامین میں بارہا میں نے ایک بات پیش کرنی کی کوشش کی ہے کہ ’’استاد کتاب نہیں بلکہ زندگی پڑھاتا ہے۔‘‘استاد کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھناضروری ہے کہ وہ معلومات کے فراہمی کا ایک آلہ نہیں بلکہ وہ قوم و انسانیت کا معمار ہے۔کمرۂ جماعت معلومات کی فراہمی کا ایک پلاٹ فارم ضرورہے لیکن یہاں پر استاد اپنی حکمت اور علم کی توانیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انسانیت اور معاشرے کی تعمیر انجام دیتا ہے۔استاد کے لئے کتاب صرف نصابی سرگرمیوں کی ادائیگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ استاد اگر استاد ہے تو وہ کتاب کیسی بھی کیوں نہ ہو وہ اپنے مطلب کی چیزیں اس سے برآمد کر لے گا۔سیکولرازم کی کتاب سے اسلامیات اور اسلامیات کی کتاب سے سیکولرازم برآمد کرنا ایک استاد کے لئے معمولی کام ہوتا ہے۔تربیت کے لئے استاد کے پاس بڑی اور اعلیٰ ڈگریوں کا ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ تربیت کے جذبے سے سرشار استاد خواہ اس کی ڈگری معمولی اور چھوٹی کیوں نہ ہو تربیت کے جذبے سے عاری اعلیٰ ڈگری کے حامل استاد سے تربیت سازی کا کام بہتر انجام دیتا ہے۔ بڑی ڈگریوں کے حامل اساتذہ اگر تربیت کے جذبے سیعاری ہوں تب بڑی بڑی تعلیمی ڈگریوں کے باوجود بھی وہ چھوٹی سی تربیت کے کام بھی انجام نہیں دے سکتے ہیں۔تدریس آدمی کو ایک اچھی مشین اورمہذب جانور تو بنا سکتی ہے لیکن ایک اچھا انسان بنانا اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔تربیت کا زیور ہی اسے شرف انسانیت سے سرفراز کر تاہے۔تربیت کے بغیر ایک اچھے انسان کی تعمیر کا تصور محال نظرآتا ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ ’’اچھے استاد کے ہاتھ میں بری کتاب بھی اچھی بن جاتی ہے اور اچھے استاد کے بغیر اچھی کتا ب بھی بری ہوجاتی ہے۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کا دارو مداراس کی نوجوان نسل پر منحصر ہوتا ہے۔جو لوگ اپنے مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنانا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح پر خاص توجہ دیں۔جس قوم نے بھی اپنی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور اصلاح میں کوتاہی سے کام لیا ہے اسے اغیار کے رحم و کرم پر زندگی گزارنی پڑی ہے۔تعلیم و تربیت کی کوتاہی نہ صرف قوموں کی شناخت مٹا دیتی ہے بلکہ سیاسی طور پر ان کو بے حیثیت بھی کر دیتی ہے۔آج ملت اسلامیہ کے زوال اور ناگفتہ بہ حالات کے ذمہ دار سیاسی اسباب ہونہ ہو لیکن تعلیم و تربیت سے برتی جانے والی مجرمانہ غفلت ضرور ہے۔نسلوں میں پرورش پانے والی غلطیوں اور خرابیوں کی ذمہ داری والدین اور اساتذہ پر مساوی طورپر عائد ہوتی ہے۔ماں باپ ،اساتذہ اور معاشرے کے وہ افراد جن پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہیں دراصل یہی افراد خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔ان افراد کی کوتاہیاں فی الفور نہیں بلکہ بیس پچیس برس بعد نمودار ہوتی ہیں۔دوراندیش اور ملی فکر سے سرشار افرادجو کسی نسل کے مستقبل کی کامیابی اورناکامی کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں وہ بڑے درست طریقے سے اس بات کا کمرہ جماعت میں اندازہ قائم کر لیتے ہیں اور اپنی تما م تر توجہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور نشوونما میں صرف کردیتیہیں۔
اسکول زندگی کی ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جہاں پر زندگی کے مسائل کا حل اور عوارض کا تریاق تیار کیا جاتا ہے۔وہ افراد جو ان وسائل کی فراہمی ،مسائل کے سدباب اور تریاق کی تیاری میں منہمک رہتے ہیں ان کو زمانہ اساتذہ کے نام سے جانتا ہے۔اسکول میں زندگی سے متعلق ہر شئے کا علم فراہم کیا جاتا ہے بلکہ زندگی گزارنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے خواہ وہ دنیوی زندگی ہویا اخروی۔استاد زندگی کے اسرار و رموز اور تصورات و واقعات ، فطری اور انسانی اصولوں کو اپنی علمیت کے ذریعے طلبہ کو سمجھاتا ہے۔استاد کمرۂ جماعت میں اپنے آپ کو ایک واعظ کے طور پر نہیں بلکہ ایک رہبر اور رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے ۔طلبہ کی رہنمائی کرتا ہے جس کی وجہ سے ان کی ذات اور زندگی کے واقعات پر پڑے ظلمتوں کے پردے اٹھنے لگتے ہیں ۔ طلبہ کی سوچ و فکر میں سنجیدگی،متانت اور پختگی پیدا کرنے کی فرض شناس اساتذہ ہر پل کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کمرۂ جماعت اسکول کاوہ حصہ ہے جہاں استاد کی اپنی فرماں روائی ہوتی ہے اور اس کے حکم کا سکہ چلتا ہے۔ اسی لئے کمرۂ جماعت کو تعمیر و تخریب کا منبع کہا گیا ہے۔حقیقی استاد اپنی تربیت کے ذریعے طلبہ کو ایک ایسابیج بنادیتا ہے جس میں سایہ دار اور ثمر آور درخت بننے کی تما م خصوصیات بدرجہ اتم موجودرہتیہیں جس کووہ اسکول خاص طور پر کمرۂ جماعت کی ساز گار زمین میں بو کرر اپنے علم کی برکھاسے اس کی آبیاری کرتا ہے ۔جس کی وجہ سے باغ انسانیت مہک اٹھتا ہے اور دنیا میں انسان سکون ،چین و امان پاتے ہیں۔کمرۂ جماعت میں اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے استاد بچوں میں مثالی تصورات کو جاگزیں کرتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق اور انسانی اقدار کو فروغ دیتا ہے جن کی بنیادوں پرطلبہ کی سماجی شناخت استوار ہوتی ہے۔اسی لئے کمرۂ جماعت کے انصرام کے لئے استاد میں بنیادی قابلیت اور دانش مندی کا پایا جانا بے حد ضروری ہے۔درج ذیل سطور میں ان نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر عمل پیرا ہوکر اساتذہ کمرۂ جماعت پر نہ صرف قابو پاسکتے ہیں بلکہ موثر تدریس اور اعلیٰ تعلیم و تربیت کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
کمرۂ جماعت پر قابو پانے میں ناکام استاد موثر تدریسی فرائض کی انجام دہی پر قادر نہیں ہوتا ۔کمرۂ جماعت پرقابو پائے بغیر استاد کی ہر کوشش بے کار و بے سود ثابت ہوجاتی ہے۔طلبہ کو جب احساس ہوجاتا ہے کہ ان کا استاد کمرۂ جماعت پر قابو پانے میں ناکام ہوگیا ہے یا وہ کمرۂ جماعت پر قابو رکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا تب کمرۂ جماعت میں ان سے غیر مہذب ،غیر شائستہ برتاؤ، غیر تعلیمی اور اکتساب میں مانع حرکات و تخریبی واقعات کااظہاہونے لگتا ہے ۔اسی غیر صحت مند برتاؤ کی وجہ سے کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط درہم برہم ہوجاتا ہے اور استاد تدریسی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ایک ابتر نظم و ضبط ،شکستہ اور تفرقہ پرور حالات سے بھرا کمرۂ جماعت درس و اکتساب کا مرکز بننے کے بجائے طلبہ کی عدم دلچسپی اور تفرقہ پروری کی آماجگا ہ بن جاتا ہے۔ایسے نامساعد حالات میں اکتساب تو دور تدریسی سرگرمیوں کی انجام دہی بھی ناممکن ہوجاتی ہے ۔ کمرۂ جماعت پر قابو نہ رکھنے والا استاد بہترین تدریسی صلاحیتیں رکھنے کے باوجوددرس و تدریس سے متنفر ہوکر تکلیف دہ تدریسی دباؤ (Teaching Stress)کا شکار ہوجاتا ہے۔تدریسی دباؤ کے شکنجے میں جکڑے استاد میں ذوق و شوق،امید و حوصلہ اور جوش و ولولے کا فقدان یا کمی پائی جاتی ہے۔ا یسے طلبہ جو پرسکون ماحول میں اکتساب کے خواہاں رہتے ہیں وہ بھی کمرۂ جماعت کے ابتر نظم و ضبط اور شورو غل کی وجہ سے خود کو سیکھنے سے عاجز پاتے ہیں۔لاکھ کوشش کے باوجود اپنی توجہ و انہماک کو جٹانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔کمرۂ جماعت میں نظم و ضبط کے فقدان کے باعث لائق طلبہ کے علاوہ خراب برتاؤ کے حامل طلبہ بھی پڑھنے اور سیکھنے میں رفتہ رفتہ دلچسپی کھو بیٹھتے ہیں۔ بہر کیف استاد کا کمرۂ جماعت پر کنٹرول نہ رکھ پاناایک ایسا نقص ہے جس کی وجہ سے کمرۂ جماعت کا مجموعی نظم و ضبط تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ان وجوہات کے پیش نظر یہ بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ استاد کمرۂ جماعت پر قابوپانے کے طور طریقے نہ صرف سیکھیں بلکہ ان میں مہارت پیدا کرے تاکہ طلبہ کے خراب برتاؤ پر قابو پایا جاسکے۔ کمرۂ جماعت کی فضاء کو اکتساب اور درس وتدریس کے لئے سازگار بنایا جاسکے ۔ ساتھ ہی ساتھ درس و تدریس اور اکتساب کے عمل کو بے کیف اور بیزارگی سے محفوظ بنایا جاسکے۔طلبہ میں جوش و ولولہ ،اخلاق و اطور اور بہتر نظم و ضبط کی کیفیت کو پروان چڑھایا جاسکے۔طلبہ کے غیر پسندیدہ اور تخریبی رویوں کا اساتذہ جب بروقت سامنا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو کمرۂ جماعت کی فضاء اکتساب کے لئے تروتازہ اور خوش گوار ہوجاتی ہے۔کمرۂ جماعت کے ابتر اور غیر صحت مند ماحول کواپنی قابلیت اور حکمت عملی سے زیر قابو رکھتے ہوئے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کو اساتذہ آسمان کی بلندیا ں فراہم کرسکتے ہیں۔طلبہ کے ابتر برتاؤ کے لئے ذمہ دارو جوہات ہی کمرۂ جماعت کی اکتسابی و تدریسی فضاء کو مکدر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ذیل میں چند قابل ذکر وجوہات کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔
(1)طلبہ جب اکتساب اور سیکھنے کے عمل کو غیر دلچسپ ،بے کار اور حد درجہ آسان تصور کر تے ہیں تو ان کی توانائی کا رخ ایسی، خو د تخلیق کردہ سرگرمیوں کی سمت گامزن ہوجاتا ہے جس سے جماعت کا نظم و ضبط بگڑنے کے قوی امکاناتپیدا ہوجاتے ہیں۔
(2)جب طلبہ اپنے اکتساب کی سطح کو دوسروں کے اکتساب کی سطح سے ابتر یا نیچے تصور کرتے ہیں تو ان میں اکتساب اور آموزش سے عدم دلچسپی پروان چڑھنے لگتی ہے ۔جس کی وجہ سے ان میں غیر پسندید ہ ،غیر مہذب ،غیر شائستہ برتاؤ اور تخریبی کیفیات سر ابھار نے لگتی ہیں جو کمرۂ جماعت کے نظم وضبط کو برباد کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔
(3)عدم دلچسپی،عدم توجہ کے باعث طلبہ استاد کی تدریسی ہدایات اورسبق کی تفہیمی مکالموں کو واضح سماعت کرنے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمرۂ جماعت میں بات چیت اور دیگر غیر ضروری کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
(4)اپنی اکتساب کمزوریوں کو چھپانے ،ہم جماعت ساتھیوں یا دیگر افرادکی توجہ پانے کی کوشش میں اپنی توجہ گنوا بیٹھتے ہیں اور غیر کارآمد سرگرمیاں اور نا پسندیدہ برتاؤ کا ان سے اظہار ہونے لگتا ہے۔
(5) طلبہ کے جارحانہ برتاؤ ،ہر بات پر حد سے تجاوز کرنا یا غیر متوازن ردعمل کی وجہ اکثر ان کا خراب سماجی پس منظر و ماحول ہوتا ہے۔
(6)کمرۂ جماعت میں نظم و ضبط کی برقراری کے لئے نظم و ضبط کے قاعدے اور قوانین کے فقدان کے سبب کمرۂ جماعت پر قابوپانے میں اساتذہ ناکام ہوجاتے ہیں۔
کمرۂ جماعت میں طلبہ کو نظم و ضبط کا پابند بنانے اور ان پر قابو رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ نظم و ضبط کی برقراری کے لئے بہتر قاعدے اور قوانین مرتب کریں ۔نظم و ضبط کی حکمت عملیوں کو مرتب اور نافذ کرتے وقت بہت دانش مندی سے کام لیں۔تشدد اور جارحیت کاہرگزمظاہر نہ کریں۔ صبر وتحمل سے کام لیں۔ درج ذیل مشوروں پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ بچوں کے خراب برتاؤ پر قابو پانے، کمرۂ جماعت میں پسندیدہ اقدار و مزاج کو پروان چڑھانے کے ساتھ کمرۂ جماعت کا ماحول خوش گوار اور درس و تدریس کو اپنی معلنہ منصوبوں کے تحت انجام دینے کے لائق بن سکتے ہیں۔
(1)کمرۂ جماعت میں تدریس کے دوران استاد کی نظر جماعت کے تمام طلبہ پر رہے اور ہر طالب علم یہ محسوس کر ے کہ ان کی ہر سرگرمی پر استاد کی گہری نظر ہے۔بچوں میں جب یہ احساس جاگزیں ہوجاتا ہے تب کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط بڑی حد تک قابومیں رہتا ہے۔
(2)طلبہ کے خراب برتاؤ پر اپنی ناراضگی کا اظہار ضرور کریں لیکن انہیں ہدف تنقید و ملامت نہ بنائیں۔طلبہ کے خراب برتاؤ کی وجہ سے آپ کو پہنچنے والی تکلیف کے بارے میں انہیں آگاہ کریں اور بتائیے کہ خراب برتاؤ کی وجہ سے کسی کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔طلبہ کو ان کے برتاؤ میں تبدیلی اور بہتری پیدا کرنے کی تلقین کریں۔
(3)جماعت میں اگر کوئی طالب علم دوسروں کو تنگ یا پریشان کر رہاہے تب اس کے پاس جاکر اس کی وجہ دریافت کریں۔پریشانی کی وجہ کا سد باب کریں اور برتاؤ کی اصلاح کے لئے واضح احکامات صادر کریں۔تدریسی سرگرمی کو چند لمحات کے لئے روک کر واضح احکامات صادر کرنا ،تمام طلبہ پر کڑی نگاہ رکھنا اور خراب برتاؤ پر قابو پانے والی حکمت عملیوں پر عمل کر تے ہوئے استاد بچوں کے خراب برتاؤ اور تدریسی الجھنوں پرقابو پانے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
(4) خراب برتاؤ اور کمرۂ جماعت میں گڑبڑ پیدا کرنے والے طلبہ کی اکثریت دباؤ (Stress)کا شکار ہوتی ہیں اور اسی دباؤ کی وجہ سے وہ خراب برتاؤ کا مظاہرہ کرتے ہیں استاد ایک مربی اور رہنما کی طرح ان کے دباؤ کی وجوہات معلوم کرے اور انھیں دباؤ کے بھنور سے باہر نکالیں۔ استاد کا یہ اقدام کمرۂ جماعت کے ماحول کو خوش گوار بنانے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی زندگی کو بدلنے میں معاون ہوتا ہے۔
(5) دوسروں کے سامنے گڑبڑ پیدا کرنے والے طلبہ کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کریں ان کے خراب برتاؤ کا تذکرہ کرنے کے بجائے ان کی اچھائیوں کو بیان کریں۔گڑبڑ پیدا کرنے والے طلبہ کے ساتھ استاد اپنا کچھ وقت گزرے ۔ ان کو چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں تفویض کرتے ہوئے ان میں احساس ذمہ دار کے جذبے کو پروان چڑھائیں۔طلبہ میں احساس ذمہ داری کا جذبہ جب فروغ پانے لگتا ہے طلبہ اپنے آپ، خراب برتاؤ سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
(6)طلبہ کو سمجھائیں کہ کسی بھی خراب برتاؤ کے نتیجے میں تعلقات متاثر ہوجاتے ہیں اور کشیدہ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔تناؤ اور تنازعات کی اصل وجہ بھی بیشتر موقعوں پر خراب برتاؤ ہی ہوتا ہے۔طلبہ کو عمل اور ردعمل پیش کرنے میں احیتاط برتنے کی تلقین کریں۔
(7)کمرۂ جماعت کے نظم وضبط (ڈسپلن) کی برقراری کے لئے اصول و ضوابط مرتب کریں تاکہ بچوں کے خراب اور الجھنیں پیدا کرنے والے برتاؤ پر قابو پایا جاسکے۔اچھا برتاؤ پیش کرنے والے طلبہ کی ستائش کریں تاکہ خراب برتاؤ کے عادی طلبہ کوتحریک ملے اور وہ اپنے خراب برتاؤ کو ترک کردیں۔
(8) کمرۂ جماعت میں نظم وضبط کی خرابی میں قوت ارتکاز کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ طلبہ میں قوت ارتکاز کے فروغ سے خراب برتاؤ پرباآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اساتذہ طلبہ میں قوت ارتکاز(Power of Concenteration)پیدا کریں۔طلبہ میں اچھی صحت مند سماجی مہارتوں کو فروغ دیں۔عزت نفس(Self-esteem)کی اہمیت سے واقف کرائیں اور عزت نفس کو پامال کرنے والے عناصر و عوامل سے آگاہ کریں تاکہ طلبہ اپنی عزت نفس اور وقار کا تحفظ کر سکیں۔اکتسابی معذوریوں اور کمزوریوں کا شکار طلبہ کے مسائل کو پیار و شفقت سے دور کریں اور ان میں اعتماد کی فضا بحال کرے۔اکتسابی الجھنو ں اور معذوری سے دوچار طلبہ سے بھی خراب اور ناپسندیدہ برتاؤ کا اظہار ایک عام بات ہے۔خراب برتاؤ اور برے اخلاق سے ہونے والی تباہ کاریوں سے طلبہ کو مطلع کریں تاکہ ان کی زندگی کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکے۔
(9)منفی اور مثبت برتاؤ کے درمیان اساتذہ توازن برقرار رکھیں۔ شدت پسندی اور لاپرواہی( تجاہل) سے ہر گز کام نہ لیں۔مثبت سرگرمیوں اور اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو بھی لگاتار رہنمائی اور رہبری کی ضرورت درپیش ہوتی ہے تاکہ ان کے برتاؤ میں مزید نکھار پیدا ہوا اور وہ اپنے کام کو مزید بہتر بنا سکیں۔
تعلیم تدریس سے مختلف ہوتی ہے بہت سے لوگ پڑھا سکتے ہیں لیکن تعلیم دینے والے بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں۔وہ معاشرہ جو اعلیٰ تصورات ،اخلاق اور انسانی اقدار پر قائم نہ ہو وہ ایک بے جان معاشرہ کہلاتا ہے اور ایسے معاشرے کے افراد اخلاقی اقدار سے عاری ااجڈ اور گنوار ہوتے ہیں۔اسکول زندگی سے وابستہ ہر چیز کا علم فراہم کرتا ہے۔ مختصریہ کہ’’ اسکول میں زندگی سیکھائی جاتی ہے۔‘‘اسکول میں طلبہ کو اس قابل بنا یا جاتا ہے کہ وہ فطری اور انسانی اصولوں کو سمجھ سکے۔اسکول کے بتائے گئے راستے پر چل کر طلبہ موجودات و واقعات سے پردہ اٹھاتے ہیں ان کی سوچ و فکر میں سنجیدگی اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔قصہ مختصر اسکول ایک ایسی عبادت گاہ ہے جہاں استاد ایک متبرک اور مقدس حیثیت رکھتا ہے۔ اساتذہ اپنے مقام و مرتبے کا خاص خیال رکھیں۔تعلیم میں صبر و استقامت کی بہت اہمیت ہے۔تعلیم وتربیت ایک مقدس کام ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ زندگی کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔استاد اپنے آپ کو ایک مثالی نمونے کے طور پر پیش کرنے کے ساتھ مطلوبہ نتائج کے حصول میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ بہتر نتائج کا انتظار صبر و استقامت کے ساتھ کرے۔تربیت میں عجلت تباہ کن ہوتی ہے۔اسی لئے اساتذہ تعلیم و تربیت میں صبر و تحمل اور استقامت کا دامن ہرگز نہ چھوڑیں۔
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔