“لیمو کچھ زیادہ چھوٹے نہیں ہیں ؟”
میں نے حیرت سے پوچھا
سبزی والا بولا ” صاحب یہ دیکھنے میں چھوٹے ہیں مگر رس خوب نکلتا ہے – چائنا کے ہیں “
“چائنا -؟ لیمو بھی چائنا سے آتے ہیں “
سبزی والا بولا ” صاحب ، آپ لیمو کی بات کرتے ہیں ، سنا ہے مرغی کے انڈے بھی وہیں سے آرہے ہیں “
” وہیں سے، کہاں سے؟ ” میں نے مارے حیرت کے دوسرا سوال داغ دیا
” صاحب لگتا ہے آپ بہت دنوں کے بعد سودا سلف لینے نکلے ہو ، مارکیٹ میں آدھا مال چائنا سے آتا ہے “
بظاھر یہ چھوٹا سا مکالمہ تھا مگر اس مکالمے نےچو دہ طبق روشن کردئیے
ادرک چائنا سے ، ناخن تراش چائنا ، باریک کنگھی چائنا ، کپڑے سینے کی سوئی چائنا ، بوٹ پالش چائنا معمولی سے معمولی برتنے کی چیز ہو یا بڑی سے بڑی انڈسٹریل ضرورت کی چیز – حتیٰ کہ سیمنٹ پلانٹ – شوگر پلانٹ – گاڑیاں ، ریل کے انجن ، ہیوی ڈیو ٹی آٹو وھیکل ، کیمیکل ، ہتھیار ، بم ، پٹاخے سب کے سب چائنا !
آخر کیوں نہ ہو ؟
” پاک -چائنا دوستی ” کوہ ہمالیہ سے مضبوط –
ہمارا جگری دوست چائنا – جس نے ہر مشکل اور آ ڑے وقت میں پاکستان سے دوستی نبھائی
یہ ایسی مسلمہ حقیقت ہے کہ جس سے انکار بھی ممکن نہیں
حقائق تو اور بھی بہت کچھ ہیں ، کیا ضروری ہے کہ ہر حقیقت ہمارے اوپر ہی آشکار ہو ؟
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حقائق کا یہ تازیانہ مجھ جیسے معمولی لکھے پڑھوں ، اردو میڈیم اور ” باسٹرڈ سویلینز ” پر ہی کیوں گرنا چاہتا ہے ؟
ھماری زبان میں ایک زبان زد عام کہاوت ہے
” بنئیے کا بچہ کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے “
جس طرح بنئیے کا بچہ کچھ دیکھ کر گرتا ہے کم و بیش چائنا بھی اسی نقش قدم پر چل رہا ہے
سب سوچنے کا ٹھیکہ میں نے تو نہیں لے رکھا ؟ کچھ آپ بھی سوچیں ؟
لیمو ، ادرک ، بالوں کی کنگھی ، نیل کٹر ، لائٹر ، موبائل فون اور اسی طرح کی دیگر” اشیاء تعیشات” تو آپ نے بھی خریدی ہوں گی
ذرا سوچیں کہ پاکستان کی محبت میں چائنا نے اپنا سب کچھ آپ کے قدموں میں ڈال دیا — وہ بھی مقامی پیداوار سے انتہا ئی کم قیمت پر !!
جب ھم ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو سوئی کیوں نہیں بناتے ؟
اس لئے کہ ” وارے ” میں نہیں آتا !
پتلون کی زپ لنڈا کی پرانی جینز سے نکال کر چائنا کا ٹیگ لگا کر آسانی سے فروخت ہوتا ہے تو ” زپ ” بنانے کی دو کروڑ کی مشین کوئی پاگل ہی خریدے گا –
شب برات کے پٹاخے ، انار پھلجڑی بنانے پر اتنا رسک کون لے ؟؟
ٹیلیفون پر آرڈر بک کرواؤ اور دس دنوں بعد شپمنٹ چھڑ وا لو-
پھر آخر چائنا کے نام سے لوگوں کو پریشانی کیا ہے ؟
یہی ناں کہ وہ کتے کا گوشت کھاتے ہیں
آپ کا یہ اعتراض بھی دور کئیے دیتے ہیں
وہ اگر کتے کا گوشت کھاتے ہیں تو ہم گدھے گھوڑے اور سورسمیت سب کا کھا لیتے ہیں
محنتی اور امن پسند قوم ہے
اس کے ساتھ میل جول کا ہمیں ہمیشہ فائدہ ہی ہوا ہے
اگر گوادر پورٹ پر وہ اپنے پلے سے خرچہ کر کے پورٹ بنا رہا ہے تو آپ کو کیا تکلیف ہے ؟
کراچی پورٹ کی آٹھ برتھیں خرید لیں تو کیا مفت میں لی ہیں ؟ آخر پاکستان کو پیسہ دیا ہے –
اب غیر ملکی سرمایا کاروں نے پاکستان کا رخ کرنا شروع کیا تو آپ کی کیوں ” ھٹ ” رہی ہے ؟
آپ تو شروع ہی سے ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھے ، کھل کر کیوں نہیں کہتے کہ آپ ” کمیونسٹ انقلاب ” سے ڈرتے ہیں ؟
پہلے پہل آپ نے سرمایہ دارانہ استحصال سے ڈرایا – پھر سامراجی مفادات کی رٹ لگائی –
اللہ الله کرکے پاکستان اپنے پڑوسی دوست کی مدد سے امریکا کے مقابلے پر آیا تو آپ نے دوبارہ منہ بنانا شروع کردیا
اماں رہنے دو یہ” دایاں بازو اور ” بایاں بازو” کا سبق ہم کو نہیں پڑھاؤ
دائیاں ، بایاں ، سجا کھبا سب رب نے بنایا ہے –
مارکس کے نظریات،سٹالنسٹ اور پرولتاریہ کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھو ، میں تو عرصہ دراز کے بعد مجبوری میں سبزی خرید نے نکلا تھا
ہاں محنت کش ، مزدور ، اس کی غربت ، بھوک، بیماری، ذلت اور محرومی کی بات کرو کہ اس پر مجھ سے زیادہ اتھارٹی کون ہوگا ؟
میں پیلے اسکول کا گریجویٹ ، مڈل کلاسیا ، دھکہ نوکریوں کا مارا جس کے گھر میں درجن بھر بچے محض اس انتظار میں کہ باپ آج شاید کھانا لے کر آجائے گا –
جس کی پڑوسن نے چند ماہ پہلے اپنے دو بچوں سمیت ریل کی پٹری پر جان دے دی
شہناز ڈاکٹر صاحب کی ماسی اپنی تیسری زچگی کے دوران ہسپتال میں دم توڑ گئی – شھناز کی لاش اس وقت تک اس کے لواحقین کو نہیں دی گئ جب تک چندہ کرکے ہسپتال کا بل نہیں بھرا گیا
عزت کی کیا بات کرتے ہو انکل !!!
میرے پورے گاوں میں سوائے نمبر دار کے گھر والوں کے سب کی عزت لوٹی جاچکی ہے – آپ نے ہمارے گا ؤں والوں کی وڈیو چھپ چھپا کر تو دیکھ ہی لی ہوگی ؟
میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ پاک چین دوستی ہماری لازوال دوستی کی ا علی مثال ہے
زیادہ پڑھا لکھا ہوتا تو کہہ سکتا تھا کہ سرخ فوج اور فوج میں کیا فرق تھا ؟
ہری پگڑی اور ترچھی ٹوپی ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہے ؟
سوشلسٹ انقلاب، مارکسی نظریات، ٹراٹسکی، کلازیوٹز اور سن تزو یا ماؤ زے کس چڑیا کا نام ہیں ؟
میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ چو این کے ساتھ لائی کیوں لگاتے ہیں ؟ اور جب ماؤ زے تنگ نے کسی کو تنگ نہیں کیا تو تخلص ” تنگ ” کس نے رکھا ؟
قسم لے لو میں یہ بھی نہیں جانتا کہ چین کے عظیم راہنما ماﺅزے تنگ نے جو عظیم لانگ مارچ کیا تھا جس نے طویل مدتی آمرانہ دور کا خاتمہ کیا اس کی فنڈنگ کس نے کی تھی ؟
مجھ سے نہ پوچھو کہ ماؤ نے جو دولاکھ افراد پر مشتمل غریبوں کی فوج تیار کی تھی اس کو اسلحہ کس نے فراہم کیا تھا ؟
یہ سوال غیر ضروری ہے کہ غریبوں کی فوج نے گوریلا جنگ کی تیاری کہاں سے حاصل کی ؟
غربت کسی بھی انسان کو کس وقت وحشی اور جنگجو بنادے ؟ وثوق سے کون کہہ سکتا ہے ؟
میں نے تو یہ بھی نہیں گن سکا کہ ماؤ کی اس غریب سرخ فوج نے چھ ہزار میل کا فاصلہ ایک سال میں طے کیا – اور دو لاکھ افراد میں سے زندہ بچ جانے والے صرف چالیس ہزار تھے –
آپ مجھ سے مزید کیا جاننا چاہتے ہیں ؟
گوادر کی بندر گاہ بن لینے دو ، کراچی پورٹ کی تمام برتھوں کا سودا ہوجائے ، حا لات کسی ایک کروٹ بیٹھ جائیں اتنی جلدی بھی کیا ہے
پڑھا لکھا ہوتا تو بتاتا کہ مشرقی ترکستان میں کیا ہوا تھا ؟
ہمالیہ کے دامن میں واقح مشرقی ترکستان کبھی مسلم خلافت کا بھی حصہ تھا
آج کے چین کے کل رقبے کا پانچواں حصّہ مشرقی ترکستان – یہاں کے مسلمان مجاہد ” ا یغور نسل ” تھے – 1863میں یعقوب بیگ نے آزاد اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی – جسے ماؤ زے تنگ نے قبضہ کرکے “سنکیانگ ” کا نام دیا – جس کا مطلب ” نئی سرزمین “
تقریبا دو سو سال کے بعد ایک اور نئی سرزمین کی بنیاد رکھی جانے والی ہے
جس کی سرحد تبت کے پہا ڑ وں سے لیکر گوادر کے ساحلوں ، ہندوستان کے کیرالہ اور نیپال کے کھٹما نڈو تک ہوگی
معاشی ، معدنیاتی اور صنعتی اجارہ داری کا نیا دور شروع ہوگا
مشرقی ترکستان کے مسلما نوں کا جو حشر ہمارے ہمالیہ سے زیادہ عظیم دوست نے کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے
ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی . عربی اور مقامی زبان بولنے پر سزائیں ، اسلامی شعائر پر پابندی ، داڑھی رکھنا قانونا جرم ، مسلمانوں پر سرکاری نوکری بند !
ارے یہ کیا میں تو سبزی لینے نکلا تھا ، یہ کیا بھاشن شروع کردئیے ،
اچھا ہوا میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ورنہ جوش و جنوں میں جانے کیا کچھ کہہ جاتا –
“ویسے لیمو کچھ زیادہ چھوٹے نہیں ہیں “؟
کمال تحریر ھے، نجیب بھائی
ماشاءاللہ۔ ۔
مستقبل کے خطرات کی کمال انداز میں نشاندہی کی هے
بیحد محبت جناب عدیل سلیم صاحب