کسی بھی ملک وقوم کی ترقی کا انحصار اس کے تعلیمی نظام پر ہوتا ہے۔خوشحال معاشرے کی تشکیل میں بلند معیا ر تعلیم ،اچھے مدارس اور بہترین اساتذہ کا اہم کردار ہوتاہے۔لیکن وہ معاشرہ جہاں تعلیم کو قانونی طور پر تجارت کا موقف حاصل ہو اور مدارس کو طبقاتی نظام کی بنیادوں پر قائم کیا جائے وہاں صحت مند جمہوری نظام کی کس طرح توقع کی جا سکتی ہے۔ہمارا تعلیمی نظام طبقاتی کشمکش کی منہ بولتی تصویر ہے۔غریبوں وناداروں کے لئے محدود وسائل بلکہ کثیر المسائل مدارس،متوسط و درمیانی طبقے کے لئے ادنی خانگی اسکولس اور دولت مندوں کے لئے اعلی و بہتر کار پوریٹ تعلیمی نظام۔تعلیمی نظام کا یہ فرق ہمارے منقسم اور زوال پذیر معا شرے کی اعلی مثال ہے۔غریب طبقہ کے لئے سرکاری مدارس کا جال تو موجود ہے لیکن تعلیمی ما حول اور تعلیمی ضروریات کی فراہمی وتکمیل میں ارباب مجاز نا کام ہو چکے ہیں ۔ مدارس کو وسائل کی فراہمی و تکمیل حکومت کے لئے اگرچہ ایک معمولی کام ہے ا ور حکومت یہ معمولی کام انجام دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ان مدارس سے غیر معمولی افراد کا ظہوریقینی ہے۔حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے حکمرانوں سے ایک نہایت ہی اعلی اور مثالی تعلیمی نظام وراثت میں ہم کو ملا تھا لیکن اس نظام کو مزید ترقی دیناتو در کنار اس نظام کو ہماری حکو مت سنبھال تک نہ سکی۔شہر حیدرآبا د میں سر کاری اعلی تعلیمی اداروں کا ایک مبسوط جا ل بچھا ہواتھا غریب اورامیرایک ہی مدرسہ میں تعلیم حا صل کر تے تھے لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب تعلیم کو عبادت سمجھاجاتاتھااور اسے تجارت کا درجہ حاصل نہیں ہوا تھا۔�آج سرکا ری اسکولس کے جائزے سے ایک سوال ذہن میں ابھرتاہے کہ ماضی میں ہم ترقی یافتہ تھے یا آج ہم تر قی کی منازل طئے کر رہے ہیں۔ دو تاتین کمروں پر مبنی یہ اردو مدارس کس طرح اردو قوم کو ایک صحت مند تعلیمی ما حول فراہم کر سکتے ہیں اساتذہ کی قلت کے ہوتے ہوئے ملک کی تر قی ایک خام خیالی نہیں تو اور کیاہے۔ ۱۰۰گز پر مبنی 10/10 کے رقبے پر محیط دو تین کمروں کے مدارس جن کی دبتی ہو ئی اس بسطاس کی چھت مو سم گر ما کے آغاز سے ہی ا پنی قہر سامانیوں کانظا رہ پیش کر تی ہے وہیں بارش میں ٹپکتی ہو ئی یہ چھتیں بچوں کو حفظ ما تقدم کی تعلیم بھی بدرجہ اتم دیتی نظر آتی ہیں۔ ان مدارس کے طلباء کے لئے رحمت باراں بھی کسی عذاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔الغرض طلباء تعلیم حاصل کر یںیانہ کر یں موسم کی ستم ظریفوں کوسہنے کے ضرور عادی ہوجا تے ہیں۔ پانی ، بجلی کی سربراہی اور بیت الخلاء کی جھنجھٹ سے یہ مدارس بالکل آزاد ہیں۔ میدان کی عدم موجودگی کی بنا ء پر فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کا تقرر بھی بے فیض ہے۔ پانچ جماعتوں کے لئے ایک یادو اساتذ ہ کا تقرر حکومت کی کفایت شعاری کا غماز ہے۔ کسی بھی ملک کی تر قی میں سیاستداں اہم کردار انجام دیتے ہیں۔پالیسی ساز( بیوروکیٹس) افراد کا ملک کے اعلی ترین تعلیم یافتہ طبقے میں شمار ہو تا ہے۔ان کا تقرر ملک و قوم کی بہتری کے لئے کیا جا تاہے۔انھیں کی مرتب کردہ پالسیوں پر ملک کی تعمیر ہو تی ہے۔عدلیہ میں خدمت انجام دینے والے منصف دانشوران کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ ملک میں امن و امان کی بر قراری اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔وکلاء عدلیہ کے معاون ہونے کے سا تھ کسی بھی مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے کی مہارت رکھتے ہیںیہ اپنے دلائل سے جھوٹ اورمکر و فریب کا ابطال کرتے ہیں اسی لئے یہ صداقت و حقانیت کے علم بردار کہلاتے ہیں۔انسانی زندگی کی نگہداشت اور اس کے علاج معالجے کے لئے ڈاکٹر ز کا ہو نا اشد ضروری ہے اور ڈاکٹرس کو معاشرے میں بہت ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔مبصرین و صحا فی سماجی برائیوں کے انسداد اپنا گرانقدر عملی تعاون پیش کرتے ہیں۔عوام تک حق و سچ پہنچانا ان کا اولین فر یضہ ہوتا ہے۔ مذکورہ افراد کا معاشرے کے اعلی تعلیم یافتہ افراد میں شمار ہوتاہے اور یہ اعلی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔لیکن یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ یہ افراد رشوت خوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔عوامی املاک کی ہیرا پھیری کے ذریعہ سیاستداں ا پنی دولت میں روز بہ روز ا ضافہ کرتے جا رہے ہیں ان کی بدعنوانی پر کبھی کو ئی مقدمہ بھی دائر ہو تا ہے تویہ عدالتوں سے اپنی بے گناہی کا سرٹیفیکٹ لینے میں کا میاب ہو جا تے ہیں۔صحافی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اپنی دلفریب داستانوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ڈاکٹرس کا حال بھی ان افراد سے کچھ مختلف نہیں ہے یہ اپنی خطیر فیس کے ذریعہ عوامی زندگیوں کے لئے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ججس کی رشوت خوری کی خبریں بھی اب اخبارات کی زینت بننے لگی ہیں۔وکلا برادری سچ کی وکالت میں پس و پیش کا شکار ہے۔
مذکورہ افراد کا جا ئزہ لیا جا ئے تو ان میں ایک با ت مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ سب کے سب اعلی تعلیم یا فتہ ہیں۔ان تمام خرافات کے پیچھے اگر کو ئی عنصر کار فر ما ہے تو وہ ان کی اپنی تعلیم کی خرا بیاں ہیں۔ مختصرا کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمارے تعلیمی نظام کا نقص ہی ہے جو ایسے رشوت خور،مفاد پرست ،خود غرض ،بے ایمان اور غیر اخلاق افرادکو وجود میں لا رہا ہے۔ان لوگوں نے تعلیم تو حا صل کی لیکن حقیقی تعلیم او ر روح تعلیم سے یہ نا آشنار ہے ۔دانشوررابرٹ ہیچن سن کے قول کے مطابق تعلیم خطر ناک ہو تی ہے اور اس کو غیر خطر ناک (بے ضرر)بناناایک مشکل کام ہے۔ کثرت سے ماہرین تعلیم اس با ت کی تائید کر تے ہیں کہ مادیت پرست نظام تعلیم و تدریس کے بجائے طلباء کو تعلیم کی حقیقی روح اور اس کی غرض و غایت سے روشنا کر وایاجائے تاکہ دنیا کو امن و امان نصیب ہو۔حقیقی تعلیم یافتہ اور نیم تعلیم یافتہ افراد میں واضح فرق ہوتا ہے۔نیم تعلیم یافتہ افراد سے مراد وہ لو گ ہیں جو بظاہر تو تعلیم یافتہ نظر آنے ہیں لیکن در حقیقت یہ روح تعلیم سے بالکل نا واقف ہو تے ہیں۔ یہ تعلیمی میدان میں کسی ایک زمرے میں مہارت حا صل کرلیتے ہیں اور اسی میدان یا زمر ے کو تعلیم سے تعبیر کرنے لگتے ہیں جو ان کی زندگی کو آسودہ بنادے اور ان کی زندگی میں دولت کی ریل پیل ہو جائے۔در اصل یہ ایک مادہ پرست تعلیم کا حقیقی چہرہ ہے جس کو آج غلطی سے زمانہ حقیقی تعلیم سمجھ بیٹھا ہے۔ اور یہ نظریہ بیشتر ماہرین تعلیم کے نظریات کے منافی ہے۔ سر سید کے مطابق ” کسی شخص کو تعلیم دینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی فطری صلاحیتوں کا تجزیہ کر کے اس کو صحیح راستہ پر ڈالا جائے۔تعلیم دینا در حقیقت کسی چیز کا باہر سے ڈالنا نہیں بلکہ بچے میں کا ئنات و فطرت کی سمجھ کے ساتھ ساتھ بصارت بھی پیدا کر نا ہے اور اسے اس قابل بنانا ہے کہ وہ زندگی میں اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکے۔” حقیقی تعلیم ایک مکمل انسان کی تعمیر و تشکیل کا نام ہے جبکہ مروجہ تعلیم( جسے اطلاعاتی تدریس کہنا ہی درست ہے) طلباء کی شخصیت سازی جیسے اہم پہلو کو پس پشت ڈالتے ہوئے کسی ایک فن یا مضمون میں مہارت حا صل کر نے کا نام ہے۔اچھی تدریسی کے نتیجے میں ایک اچھا فوجی،بڑھئی،پینٹر ،وکیل،میکانک،پتھالوجسٹ،ڈاکٹر ،انجینیر،چارٹیڈ اکاؤ نٹس تو پیدا کرنے میں ہم یقیناًکامیاب ہو جائیں گے لیکن اگرروح تعلیم سے ان کو نا بلد رکھا گیا تو یقیناًیہ مفاد پرست ،خود غرض اور مادہ پرست انسان ہی بنیں گے۔ نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ پیشہ ور حضرات روح تعلیم سے نا آشنا ہو سکتے ہیں بلکہ ایک اچھا شاعر ایک اچھا آرٹسٹ جو ایک حسا س دل و دماغ کا مالک ہو تا ہے اس کے باوجود وہ روح تعلیم سے عدم آگہی کی بدولت اپنے خاندان ،پڑوسیوں اور معا شرے کے تئیں اپنے فرائض کو جان بوجھ کر نظر انداز کر تاہے۔ہمارا معاشرہ گواہ ہے کہ کس طرح سے دانشوری کا چغہ پہننے والوں نے انسانیت کو داغدار کیا۔اس کی اہم وجہ بھی ہمارا تعلیمی نظام ہی ہے جو جنسی تعلیم کو تو رواج دینا چاہتاہے لیکن ماد ہ پر ستی کی عفریت سے گلو خلاصی میں عاجز نظر آتا ہے۔اچھے تعلیمی نظام کا کام کامیاب پیشہ وار افراد کو تیار کرنا ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ اچھے ذمہ دار انسان شہری تیار کرنا بھی تعلیم کا اہم مقصد ہے۔چند تعلیمی زمروں (مضامین )میں بہترین استعدادوں کے حامل لوگوں کو ان کی سماجی بے حسی کے سبب حقیقی طور پر تعلیم یافتہ نہیں کہا جا سکتا ۔ بلکہ یہی وہ نیم تعلیم یافتہ طبقہ ہے جسے خو د کے تعلیم یافت پر ناز ہے۔ ا س کے بر خلاف ایک شخص جو تعلیمی زمرے میں ید طولی تو نہیں رکھتا ہو پھر بھی اپنے خاندان ،پڑوسیوں اور معاشرے کے تئیں اپنے فرا ئض اور ذمہ داریوں کو ٹھیک طریقے سے نبھانے کے علاوہ جائز طریقے سے حلال روزی کماکر ایک پر سکون زندگی گزار تاہے۔فی الحقیقت یہی انسان تعلیم یافتہ کہلانے کے لائق ہے کیو نکہ اس کی کسی تعلیمی زمرے میں مہارت نہ ہو نے کی وجہ سے سماج کو کو ئی گزند نہیں پہنچی اور نہ اس نے اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو پا مال ہونے دیا۔
آج کے تعلیمی نظام کی بنیادی کمزوری مادی نظریات پر توجہ اوراخلاقی و روحانی اقدار سے دوری ہے۔اس غفلت و لاپرواہی کا لازمی نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بچے خود غرض ،نا فرمان ،بد اخلاق ،بے ایمان اور رشوت خور نکل رہے ہیں۔یہ اچھائی اور برائی میں امتیاز کرنے والی میزان تھامنے کے بجائے ہر چیز کو نفع و نقصان کی ترازو میں تو ل رہے ہیں ۔حصول دنیا میں جائز طریقوں کے بجائے حرام راستوں کو اختیار کررہے ہیں۔آج کا تعلیمی نظام انسانی استحصال کو فروغ دے رہاہے۔یہ انسانی محبت ،مروت ،اخوت اور سماجی انصاف کے اصولوں سے یکسرنابلدہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کا نام نہاد تعلیم یافتہ شخص علم کے نام پر ایک بد نما داغ بن چکاہے۔ فرائض سے لاپرواہی بر تنے والے ٹیچر،ڈاکٹر،انجینئر، بیورو کریٹس، منصف،وکیل اور دیگر پیشوں سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد سماجی انصاف اور انسانیت کی بقاء کے لئے ایک مستقل خطرہ بن گئے ہیں۔بقول جگر مرادآبادی
اہل خرد نے وہ دن دکھائے گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے
اگر ہم انسانی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ تعلیمی نصاب کو خوف خدا کی بنیادوں پر استوار کریں۔طلباء میں اس یقین کو جا گزیں کیا جائے کہ اللہ ہمارے ظاہر و باطن پر نظر رکھے ہوئے ہے۔نظام تعلیم کو اسلامی اصولوں پر تر تیب دیا جائے اگر حکومت یہ کا م انجام نہیں دے سکتی ہے تو اقلیتوں کو دستوری حقوق حاصل ہیں کہ وہ اپنا نصاب خود ترتیب دیں اور نام نہاد نیم تعلیم یافتہ گروہ سے سماج کو نجات دلایں۔اگر ہم اس مقصد کو حا صل کر لیتے ہیں تو یقیناًعدالتوں ،بازاروں اورزندگی سے وابستہ دیگر زمروں میں انصاف و عدل کے نقیب کہلانے کے ساتھ ساتھ اپنے دینی فریضہ ” انی جاعلن فی الارض خلیفہ ” کے مصداق بن جائیں گے۔
اہم بلاگز
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
فیملی ولاگنگ کے معاشرے پر اثرات
معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائیوں میں سے ایک برائی فیملی ولاگنگ جس کو آپ عرف عام اپنی نجی زندگی کو پوری دنیا کے سامنے ظاہر کرنا ہے جس میں آج کل ولاگر شرم و حیا کا پاس رکھے بغیر خوشی خوشی اپنے گھر والوں کو جس میں خاص طور پر خواتین کو شامل کیا جانے لگا ہے شو کرتے ہیں اور پھر ایسی ویڈیوز بنا کر عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا کا کردار جہاں ہماری زندگیوں میں مثبت اثرات پیدا کر رہا ہے وہیں پر منفی اثرات بھی جنم لے رہے ہیں۔
تفریح کے نام پر سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی و فحاشی پھیلائی جارہی ہے جس کا ایک ذریعہ ولاگنگ ہے۔
پہلے پہل ولاگنگ کا آغاز صرف اور صرف اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ رجحان تبدیل ہوا اور پھر ذاتی زندگی کو عوام کے سامنے لانا اور اپنے خاندان کے ساتھ پوری زندگی کا یہاں تک کے میاں بیوی کے نجی معاملت بھی منظر عام پر لائے جانے لگے۔
اپنے پورے دن کی روٹین کو، اپنے ذاتی معاملات کو اپنے ازداوجی زندگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور دھیرے دھیرے حیا کا لبادہ اترتے اترتے نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگ اپنے بند کمروں کے پیچھے ہونے والی روٹین کو بھی شوق کے ساتھ شیئر کرنے لگے جس کا مقصد صرف اور صرف چند لائیکس اور پیسہ کمانا ہے۔۔
اس فیملی ولاگنگ نے جہاں سوشل میڈیا کے مثبت کردار کو دھندلا دیا ہے وہیں معاشرے پر اور خاص طور پر نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس میں سب سے زیادہ ان کے اندر سے شرم و حیا کی تمیز ختم ہونا ہے۔
اپنے گھر کی عورتوں کو دنیا کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرنا اور پھر ان کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرکے تفریح کے نام پر نواجونوں کی منفی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
نوجوانوں کے اندر دنیا پرستی کے ساتھ ساتھ دنیاوی آسائیشوں کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا اور اپنے کیئریر بنانے کے بجائے منفی عادتوں کو اپنانا اور پھر دھیرے دھیرے مادہ پرستی میں مبتلا ہوکر ذہنی مریض بن جانا اور معاشرے کے لیے کارآمد بننے کے بجائے ناسور بن جانا اس فیملی ولاگنگ کا سب سے بڑا برا اثر ہے۔۔
حکومت اور ملحقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تفریحات کے نام پر ہونے والی بےحیائی پر فی الفور پابندی عائد کرے اور سوشل میڈیا کے مثبت استمعال کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے تاکہ نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کو اپنی ذات کی بہتری کے لیے کارآمد بنا سکیں۔
بچوں کی ذہنی نشوونما کیجئے
بچوں کے ذہن میں کثرت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ ان کے معصوم و نامعقول سوالات کے جوابات بہت ہی عقل مندی اور تحمل سے دینے چاہیے۔ہم سے بچے چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھتے ہیں۔یہ ان کے سوالات ہمیں بے معنیٰ و بے مقصد نظر آتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہمیں ان کے سوالوں کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آتا، اسی لیے ہم انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہیں اس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’ تمہیں توکچھ نہیں آتا‘‘ ،’’تم تو کچھ نہیں جانتے ‘‘،’’تم کواتنی سے بات بھی نہیں معلوم‘‘،ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے سوالات کو ایک رخ اور سمت دینا چاہیے۔اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے توہمیں خود اس سے سوال پوچھنے چاہیے۔ اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یاتو بچہ بات سمجھ گیا ہے یا پھر بچہ کا ذہن تشکیک کا شکار ہے۔ بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نہ صرف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دینے ہوں گے۔
ایک بچہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے کہ’’ اسے امتحان میں کم نمبر کیوں ملے ؟
باپ نے کہا ’’تم نے پڑھائی کم کی ہے اسی لیے نمبر بھی کم ملے ہیں۔ آئندہ زیادہ محنت سے پڑھوگے تو ان شاء اللہ نمبر بھی اچھے ملیں گے‘‘۔ بچے نے اگلی بار زیادہ محنت کی اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ پھراگلی بار اس نے اور زیادہ محنت سے پڑھائی کی لیکن کم نمبر حاصل ہوئے۔ بچے نے والد سے پوچھا کہ میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھائی کی، پھر بھی مجھے مطلوبہ نمبر نہیں ملے، ایسا کیوں ہوا؟ باپ نے جھنجھلاکر کہا،’’یہ تمہاری قسمت ہے، اور کیا؟‘‘
بچے سے تمہاری قسمت کہنا یہ اس کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔اس کا درست جواب ہونا چاہیے کہ ’’بیٹے یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ آئو ہم دونوں مل کر اس کی وجہ تلاش کر تے ہیں‘‘۔جب بچے کو معلوم ہوتاہے کہ اسے جواب تلاش کرنا ہے اسی وقت اس کی فکری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس میں فکری عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ذہانت کے فروغ کے لیے ان کے فکر ی سوتوں کو مہمیز کیاجائے! بچوں میں ذہانت کے فروغ سے مراد ان میں سوچنے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔جب ہم بچوں میں تفکر و تدبر کی حوصلہ افزائی کا کام انجام دیتے ہیں اسی لمحے ان میں ذہانت کے فروغ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوران کی ذہانت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔فکر و تدبر اور سوچنے کے عمل کو مہمیز کرنے کے کئی طریقے ہیں جو بچوں کے بائیں دماغ کو اور بعض اوقات دائیں دماغ کو فعال ومتحرک بناتے ہیں۔
دماغ و ذہانت کا فروغ اختیار کردہ فکر و تدبر کے انداز و طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔جن میں سب سے آسان طریقہ بچوں سے سوالات کرنا ہے۔جب بچے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگتے ہیں تو پھر یہ کوشش ان کے ذہن اور ذہانت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔بچوں میں فکر...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔