قانون کی بالادستی

معاشرے میں امن اور ملکی استحکام کیلئے قانون کی بالادستی بہت ضروری ہے جہاں قانون کی بالادستی نہ ہووہاں ظلم پنپنے لگتاہے ،ناانصافی ہوتی ہے ،میرٹ کاقتل عام ہوتانظرآتاہے ،اس لیے جہاں ایک طرف شہریوں کے کچھ حقوق ہیں وہیں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے کچھ فرائض ہیں اور دونوں اپنے اپنے دائروں میں کام کرتے رہیں تو معاشرہ درست سمت کی طرف گامزن ہوتاہے ،اس کے برعکس اگر قانون شکنی کی جارہی ہو،معاشرتی اصولوں کو سبوتاژ کیاجارہاہو تو یقیناًً تباہی و بربادی پھر جلد قوم کامقدر بن جاتی ہے ،ملک میں جب کوئی جرم کاارتکاب کرتاہے یاکوئی کسی الزام کے تحت گرفتار کیا جاتاہے تو اس کامقدمہ درج کیاجاتا ہے پھر عدالت میں پیش کیاجاتاہے وکلادلائل دیتے ہیں اور دیکھاجاتاہے فرد نے کوئی جرم کیابھی ہے یانہیں اور اگر کیاہے تو اس کو سزا سنانے میں تاخیرنہ کی جائے جس نوعیت کااس نے جرم کیاہے ۔
قانون ہی وہ واحد ذریعے ہے کہ جس کی پاسداری کے نتیجے میں عوام اور خواص دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں لہذا قانون سب کے لیے برابر ہوناچاہیے چاہے کوئی چھوٹاہویابڑاسیاستدان ہویا بااثرشخص اس لیے کہ جب فرد کو احساس ہوگاکہ میں قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں اس کی گرفت میں آسکتاہوں تبھی تو وہ جرائم کی جانب بڑھنے سے رک سکتاہے ،سزاؤں پر عملدرآمد بغیر کسی تفریق ہوتو کوئی وجہ نہیں کہ انصاف فراہم نہ ہو ،خوشحالی نہ آئے ،لیکن جب قانون کے محافظ ہی قانون توڑناشروع کردیں ،انصاف سے دور ہوجائیں اور صحیح اور غلط کے بجائے من پسندطریقے اپنانے لگیں تو پھر معاشرہ زوال کی طرف بڑھتاہے ،قانون پر سے لوگوں کااعتماد اٹھتاہے ،رشوت کے دروازے کھلتے ہیں،بے قصور لوگوں کی جانیں لی جانے لگتی ہیں،بغیر کسی جرم لوگوں کواٹھایاجایاجاتاہے ،بے جاشہریوں کو حراست میں رکھاجاتاہے ،حکمران اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے مخالفین کو نشانہ بنانے لگتے ہیں کیونکہ انہیں پھر قانون کاڈر نہیں ہوتا،ان کاسب کچھ ان کی طاقت ہوتی ہے جس کابے دریغ استعمال کرکے وہ معصوموں کے حقوق پامال کرتے ہیں،ماؤں کے جگر گوشوں کو تحفظ دینے کے بجائے تاریک راہوں میں مار ڈالتے ہیں ،گزشتہ دنوں کراچی میں کئی ایسے مقابلوں نے شکوک وشبہات کو جنم دیا جن میں لاپتاافراد کو ماراگیا،جن میں زیبسٹ کے طالبعلم عمار ہاشمی اور امجد احمد بھی شامل ہیں ،کئی عرصے سے لاپتا افراد اچانک مخصوص جگہ پر نمودار ہوتے ہیں اوروہیں مار ے جاتے ہیں،بالفرض اگر وہ مجرم بھی ہیں تو یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ انہیں ماورائے عدالت قتل کردیاجائے ،ہونایہ چاہیے کہ اگر انہوں نے کوئی جرم کیاہے تو عدالتوں میں لایاجائے ،وہاں انہیں سزا دینے یارہاکرنے کافیصلہ کیاجائے کیونکہ قانون پر چلنے میں ہی عافیت ہے اور اجتماعی بہتری ہے ،ورنہ جس کاجوجی چاہے وہ کرنے لگے گا ،قانون اور اصول پامال ہوں گے ،معصوم لوگ ظلم کی بھینٹ چڑھیں گے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ بھی اس چیز کانوٹس لے اور حکومت کو بھی چاہیے وہ قانون کی بالادستی ہر صورت یقینی بنائے اور ہر فرد اور ادارے کو قانون کے دائر ے میں ہی اختیارات دیے جائیں۔

حصہ
mm
محمد سمیع الدین انصاری نے جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے۔انہوں نے سندھ مدرسۃ الاسلام سے نیوز پروڈکشن کورس بھی کیا ہے۔صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں،روزنامہ دنیا کراچی میں بطور اسسٹنٹ سٹی ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔