لگتا ہے یہ بڑے میاں اس عمر میں آکر تھوڑا کھسک گئے ہیں۔‘‘ امین صاحب نے دبی آواز میں سلیم صاحب سے کہا اور ایک پیپر ان کی میز پر رکھ دیا‘‘ ۔
’’کس کی بات کررہے ہو؟‘‘ سلیم صاحب نے پیپر اٹھا کر ایک نظر دیکھا اور فائل میں لگا دیا۔
’’یہی اپنے پیون فاروق بابا کی۔‘‘ امین صاحب نے کھڑے کھڑے کہا۔
’’کیوں خیریت! کیا ہوگیا انہیں؟‘‘ سلیم صاحب نے مسکرا کر امین صاحب کو دیکھا۔
’’آپ نے شاید نوٹ نہیں کیا۔‘‘ امین صاحب سامنے رکھی کرسی پر براجمان ہوگئے اور قدرے آگے ہوکر دبے لہجے میں بولے۔ ’’جب سے نئے ڈائریکٹر صاحب آئے ہیں‘ ان کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں وہ بڑے میاں! شاید نمبر بنانے کے چکر میں ہیں۔‘‘
سلیم صاحب ہنس دیئے۔ ’’ارے چھوڑو بھئی‘ کیا پیون کی باتیں لے کر بیٹھ گئے‘ بنانے دو غریب کو اگر نمبر بنا رہے ہیں تو ہمارا کیا جاتا ہے۔‘‘
’’جاتا تو خیر کسی کا کچھ نہیں لیکن آگے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے سلیم صاحب! آپ شاید سمجھ نہیں رہے۔‘‘ امین صاحب نے ذومعنی انداز میں کہا۔
اس بار سلیم صاحب تھوڑا چونکے۔ ’’کیا مطلب؟ ویسے ایک بات تو ہے میں نے بھی نوٹ کیا ہے کہ فاروق بابا نئے ڈائریکٹر کے کمرے کے چکر کچھ زیادہ ہی لگارہا ہے۔‘‘
’’اور ہم اتنے برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ فاروق بابا بڑا اصول پسند ہے۔ کام سے کام رکھتا ہے اور کبھی کسی کی خوشامد یا چاپلوسی نہیں کی۔‘‘ امین صاحب نے کہا۔ ’’ہے نا یہ بات۔۔۔؟‘‘
’’یہ بات تو ہے۔‘‘ سلیم صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’آپ کو معلوم ہوگا کہ فاروق بابا کا ایک جوان لڑکا بھی ہے‘ جس کا کبھی کبھی ذکر کرتا رہتا ہے وہ۔‘‘
’’ہاں پتا ہے‘ تو۔۔۔؟‘‘
’’کچھ عرصے پہلے فاروق بابا نے بتایا تھاکہ وہ اس کی نوکری کے لیے پریشان ہیں۔‘‘
’ہاں‘ بتایا تھا مجھے بھی۔‘‘ سلیم صاحب کچھ کچھ سمجھ رہے تھے۔ ’’بلکہ مجھ سے بھی کہا تھا کہ اسے کہیں نوکری دلوادیں۔‘‘
’’بس تو وہ اسی چکر میں نئے ڈائریکٹر کی خوشامد میں لگا ہوگا۔‘‘ امین صاحب نے اصل بات بیان کردی۔
’’ہاں ہوسکتا ہے خیر ہمیں کیا اور اچھا ہے غریب کا بھلا ہوجائے‘ ویسے بھی اب اس کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آرہے ہیں۔‘‘
’’وہ کچھ بھی کرے‘ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔‘‘ امین صاحب بڑے محتاط اور نپے تلے الفاظ کا استعمال کررہے تھے۔ ’’فکر صرف اس بات کی ہے کہ بڑے میاں خوشامد کے چکر میں ہماری اچھی بُری باتیں نئے ڈائریکٹر کو نہ بتانا شروع کردیں۔‘‘
’’یعنی مخبری۔۔۔!‘‘ سلیم صاحب کے ماتھے پر تشویش کی لکیریں نمودار ہوگئیں۔
’’جی جناب!‘‘ امین صاحب نے بھویں اچکائیں۔ ’’اب آپ کو تو پتا ہی ہے کہ یہاں سب کا ایک جیسا حال ہے‘ اوپر کی کمائی کے بغیر گزارہ مشکل ہوجاتا ہے‘ ہماری تو ویسے بھی پبلک ڈیلنگ ہے کچھ لے دے کر ہی کام کیے جاتے ہیں یہاں اگر مخبری کے نتیجے میں ہماری کمائی کا یہ ذریعہ بند ہوگیا تو پھر ہم سوکھی تنخواہ پر کیسے اپنے اخراجات پورے کریں گے؟‘‘
سلیم صاحب نے کرسی کی پشت گاہ سے کمر لگالی اور دونوں ہاتھ سر پر باندھ کر بولے۔ ’’یار! یہ تو آپ نے پریشان کردیا مجھے۔‘‘
’’پریشان نہیں‘ خبردار کیا ہے۔ ذرا بڑے میاں سے بچ بچا کر کام کرنا۔‘‘ امین صاحب یہ کہہ کر اٹھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اب کیا ہوگا؟‘‘ امینہ بیگم نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا اور پانی کا گلاس ٹرے پر رکھ دیا۔ ’’کہاں سے ہوگا تین ہزار کا بندوبست‘ ابھی پچھلے مہینے ہی کتابوں اور یونیفارم پر اتنا خرچہ ہوگیا تھا۔‘‘
’’اللہ مالک ہے‘ کچھ نہ کچھ بندوبست ہوجائے گا۔‘‘ فاروق صاحب نے پانی کا گلاس اٹھایا اور پھر اسے خالی کرکے کہا۔ ’’اس سے پہلے بھی تو اللہ نے ہمارا کوئی کام نہیں روکا‘ بے فکر رہو۔‘‘
’’آپ اپنے آفس میں بات کرکے دیکھیں کچھ رقم ادھار لینے کی بعد میں تھوڑے تھوڑے تنخواہ میں سے کٹواتے رہیں۔‘‘
’’ادھار صرف بڑے آفیسروں کو ملتے ہیں‘ ایک پیون کو بھلا کیوں ادھار ملے گا‘ ان شاء اللہ کل میں کہیں نہ کہیں سے پیسے کرلوں گا۔‘‘
’’پرسوں عمران کی فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے۔‘‘ امینہ بیگم نے یاد دلایا۔
’’ابھی کل کا دن ہے ہمارے پاس۔۔۔‘‘
’’تو اب کس کے پاس جائیں گے؟‘‘
’’کسی کے پاس نہیں۔‘‘ فاروق صاحب نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی اتار کر ہاتھ میں لے لی اور کہا ۔ ’’یہ دیکھو‘ ہوگیا نا بندوبست۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ تو کیا اسے بیچ دیں گے؟‘‘ امینہ بیگم کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں ہوگئے
’’ہاں‘ تو کیا ہوا؟ بیٹے کی پڑھائی سے بڑھ کر تو نہیں ہے نا یہ۔‘‘
’’لیکن۔۔۔ یہ تو آپ کے والد کی نشانی۔۔۔‘‘ امینہ بیگم کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
’’شاید یہ اسی دن کے لیے اب تک میرے پاس تھی کہ میرے بیٹے کے کام آجائے‘ قیمتی گھڑی ہے میرا خیال ہے اس کے دو ہزار تو مل ہی جائیں گے باقی ہزار تو ہم ملا سکتے ہیں۔‘‘ فاروق صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’چلو اب یہ برتن سمیٹ لو‘ وقت زیادہ ہورہا ہے۔‘‘
امینہ بیگم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر پھر خاموش رہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ انہیں یہ گھڑی کس قدر عزیز تھی۔ مشکل سے مشکل معاشی حالات میں بھی انہوں نے اسے فروخت نہیں کیا تھا لیکن اب وہ کتنی آسانی سے اسے فروخت کرنے کا کہہ رہے تھے۔ اس کے باوجود امینہ بیگم جانتی تھیں کہ انہیں گھڑی بیچنے کا دکھ تو ہوگا‘ دوسری طرف ان کے اکلوتے بیٹے عمران کی تعلیم کا معاملہ تھا۔ کالج کی فیس دینی تھی۔
دونوں میاں بیوی کی خواہش تھی کہ عمران بڑا آفیسر بنے‘ خاص طور پر فاروق صاحب اکثر یہ کہتے تھے کہ میں تو زندگی بھر چپراسی رہا لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا آفیسر بنے۔ ان کے بیٹے عمران کو بھی اپنے والدین کی خواہش کا احترام تھا‘ اس لیے وہ دل لگا کر تعلیم حاصل کررہا تھا۔ اپنے چھوٹے موٹے اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ ٹیوشنز بھی پڑھاتا تھا۔ اس نے تو کئی بار نوکری کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ باپ کا سہارا بن جائے مگر فاروق صاحب نے اسے سختی سے منع کردیا تھا۔
’’ہر گز نہیں۔۔۔ پہلے تعلیم مکمل کرلو پھر شوق سے نوکری کرتے رہنا‘ ابھی درمیان سے پڑھائی ادھوری چھوڑ کر نوکری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن ابو۔۔۔‘‘ عمران نے کہنا چاہا۔
’’لیکن ویکن کچھ نہیں‘ جو کہہ دیا سو کہہ دیا اگر نوکری ہی کروانی ہوتی تو اتنا پڑھانے کی ضرورت کیا تھی تمہیں‘ ابھی اگر نوکری کرنے نکلو گے تو زیادہ سے زیادہ کلرک بھرتی ہوگے‘ میں تمہیں بڑا آفیسر بنانا چاہتا ہوں بیٹا۔‘‘
باپ کی ضد کے آگے عمران نے ہمیشہ ہتھیار ڈالے تھے‘ وہ بہت دل لگا کر محنت سے تعلیم حاصل کررہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اسے پڑھارہے ہیں‘ وہ انہیں مایوس نہیں کرنا چاہتاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جناب! میرا کام ہوا یا نہیں؟‘‘ آنے والے جوان آدمی نے سلیم صاحب سے پوچھا۔
’’کون سا کام؟‘‘ سلیم صاحب نے اسے ایک نظر دیکھا اور دوبارہ کاغذات کی الٹ پلٹ میں مصروف ہوگئے۔
’’سر! وہ جو میری فائل آپ کے پاس ہے شمشاد اینڈسنز والی۔۔۔‘‘ اس آدمی نے قدرے لجاجت سے کہا۔ ’’پندرہ دن سے چکر کاٹ رہا ہوں سر جی‘ کچھ تو کریں۔‘‘
سلیم صاحب پوری طرح ا س کی جانب متوجہ ہوگئے۔ ’’اچھا اچھا ہاں۔۔۔ یاد آگیا۔۔۔وہ والی فائل‘ آپ کو تو نوٹس بھی بھجوایا گیا تھا ٹیکس بھروانے کا۔۔۔‘‘
’’جی سر! سر اتنی تو ہماری انکم نہیں ہے جتنا ٹیکس لگا کر بھیجا گیا ہے‘ آپ کے تو ہاتھ کا کام ہے۔‘‘ وہ قدرے آگے ہوکر دبے لہجے میں بولا۔ ’’سر آپ اسے کم کرسکتے ہیں۔‘‘
’’میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ مشکل کام ہے۔ اتنی آسانی سے کم نہیں ہوسکتا‘ تمام پروسس دوبارہ کرنا ہوگا‘ نئی فائل بنے گی۔ آپ نے تو بس کہہ دیا کہ کم کردیں۔‘‘ سلیم صاحب کا لہجہ روکھا اور بے زار کن ہوگیا تھا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے سر! میں سمجھتا ہوں۔۔۔‘‘
’’سمجھتے ہیں تو پھر ضد نہ کریں بھائی! جتنا ٹیکس لکھ کر بھیجا گیا ہے وہ بھردیں۔‘‘
’’کوئی تو رستہ نکالیں سر!‘‘
سلیم صاحب نے اس بار اسے غور سے دیکھا پھر اپنے دائیں بائیں نظر ڈال کر کہا۔ ’’بیٹھیں۔۔۔!‘‘ وہ جلدی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’شکریہ سر۔۔۔!‘‘
سلیم صاحب نے گلا کھنکار کر ہلکی آواز میں کہنا شروع کیا۔ ’’ہاں اب بتائیں‘ چلیں آپ ہی کوئی راستہ نکالیں۔‘‘ ان کا لہجہ معنی خیز تھا۔ آدمی بے وقوف نہیں تھا‘ سمجھ گیا۔ وہ راستے کی قیمت دریافت کرنے لگا۔ اپنی نشست پر بیٹھے امین صاحب ان دونوں کو دیکھ کر مسکرارہے تھے۔ اسی لمحے ڈائریکٹر کے روم سے فاروق بابا باہر آئے۔
’’سلیم صاحب یہ بڑے صاحب نے دی ہے۔‘‘ فاروق بابا نے بتایا اور ساتھ ہی ایک نظر وہاں بیٹھے شخص پر ڈالی۔
’’اچھا اچھا‘ ٹھیک ہے‘ میں دیکھ لوں گا۔‘‘ سلیم صاحب تھوڑا گھبرا گئے۔فاروق بابا چلے گئے۔
’’ہاں تو سر جی! پھرپچیس طے ہیں نا۔۔۔؟‘‘ سامنے بیٹھے آدمی نے استفہامیہ لہجے میں پوچھا۔
’’کام مشکل ہے بھئی‘ بڑا رسک بھی ہے۔ میں صرف چالیس کی ڈیمانڈ کررہا ہوں۔‘‘ سلیم صاحب نے اس کی فائل کی ورق گردانی کرنا شروع کردی۔
’’آپ کو فائل مل گئی؟‘‘ اچانک ایک آواز ابھری۔
سلیم صاحب نے چونک کر سر اٹھایا اور بوکھلا کر کھڑے ہوگئے۔ سامنے نیا نوجوان ڈائریکٹر کھڑا تھا۔
’’کک۔۔۔ کون سی۔۔۔ کون سی فائل؟‘‘ وہ ہکلانے لگے۔ ان کے چہرے پر ایک دم ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔
’’ابھی فاروق بابا نے جو دی ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ تو مل گئی۔‘‘
’’تو اس میں اتنا گھبرانے والی کون سی بات ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے انہیں غور سے دیکھا پھر ایک نگاہ کرسی پر بیٹھتے شخص پر ڈالی۔ ’’کوئی کام ہے آپ کو؟‘‘
’’ہاں جی! وہ میری فائل ہے ان کے پاس۔‘‘ آدمی کے منہ سے بوکھلاہٹ میں نکلا۔ ’’یہ جو سامنے رکھی ہے۔‘‘
ڈائریکٹر نے اس کی فائل سلیم صاحب کے سامنے سے اٹھائی اور ایک نظر کاغذات پر ڈال کر کہا۔
’’اس میں نوٹس کی کاپی بھی منسلک ہے‘ اب کیا پرابلم ہے؟‘‘
’’سر! میں کہہ رہا تھا کہ شاید ٹیکس زیادہ لگایا گیا ہے‘ اسے ذرا دیکھ لیں۔‘‘
’’اس کے اندراج تو بتارہے ہیں کہ تمام فیگرز درست ہیں۔‘‘ڈائریکٹر نے فائل کا دوبارہ جائزہ لیا۔ ’’آپ کو اس میں درج ٹیکس کی ادائیگی کرنی ہوگی۔‘‘ پھر وہ سلیم صاحب کی طرف مڑا۔ ’’یہ فائل آپ نے مجھے تو نہیں دکھائی؟ کب سے ہے یہ آپ کے پاس؟‘‘
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔‘‘ سلیم صاحب کے تو چھکے چھوٹ گئے۔‘‘
’’اسے ایک ہفتہ ہوا ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے آدمی سے پوچھا۔
’’جی نہیں سر! پندرہ دن سے زیادہ ہوگئے ہیں۔‘‘ بے اختیار آدمی نے سچ بول دیا۔
ڈائریکٹر نے خاموش نظروں سے سلیم صاحب کو گھورا اور فائل لے کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں نے کہا تھا ناکہ ہوشیار رہنا۔‘‘ امین صاحب دبے لہجے میں بول رہے تھے۔ ’’لگتا ہے کہ یہ مخبری فاروق بابا نے کی ہے۔‘‘
’’بڑا بے عزت کیا تھا ڈائریکٹر نے اپنے روم میں بلا کر۔‘‘ سلیم صاحب مری مری آواز میں بتانے لگے۔
’’ظاہر ہے‘ وہ تو کرنا تھا۔ ایک اہم بات بتاؤں میں آپ کو؟‘‘ امین صاحب نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا۔ ’’کل اتفاق سے میں چھٹی کے بعد بھی دیر تک آفس میں موجود تھا پھر میں نکل کر بس اسٹاپ پر کھڑا بس کا انتظار کررہا تھا تو میں نے ڈائریکٹر کو کار میں جاتے دیکھا‘ پتا ہے اس کے ساتھ کون بیٹھا تھا۔‘‘
’’کون۔۔۔؟‘‘ سلیم صاحب نے نظریں اٹھائیں
’’یہی آپ کے فاروق بابا۔۔۔‘‘ امین صاحب نے مسکرا کر بتایا۔
’’اچھا تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے۔‘‘ سلیم صاحب نے آنکھیں پھاڑیں۔ ’’اتنا شیشے میں اتار لیاہے اس پیون نے ڈائریکٹر کو۔‘‘
’’دیکھ لیں‘ آخر کام بھی تو نکلوانا ہے نا۔‘‘
اتنے میں انہوں نے فاروق بابا کو ڈائریکٹر کے روم سے ٹرے لے کر نکلتے دیکھا‘ جس پر چائے کا کپ رکھا تھا۔ امین صاحب نے فاروق بابا کو آواز دی‘ وہ ان کے پاس آگئے۔
’’جی جناب؟‘‘ فاروق بابا نے مؤدبانہ لہجے میں پوچھا۔
’’بابا! چائے تو پلادیں ہمیں‘ ہم بھی اس آفس میں کام کرتے ہیں۔ جب سے نیا ڈائریکٹر آیا ہے‘ آپ نے تو ہمیں منہ لگانا ہی چھوڑ دیا ہے۔‘‘ امین صاحب کے لہجے میں طنز نمایاں تھا۔ فاروق بابا نے چونک کر انہیں دیکھا پھر آہستگی سے کہا۔
’’میں ابھی لاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑے۔
’’ایک منٹ بابا!‘‘ امین صاحب نے انہیں روکا۔ فاروق بابا مڑ کر انہیں دیکھنے لگے۔ ’’ایک بات پوچھنی تھی آپ سے؟‘‘
’’کون سی بات؟‘‘
’’آپ نئے ڈائریکٹر کے ساتھ آفس آتے جاتے ہیں اس کی گاڑی میں؟‘‘ امین صاحب نے گال کھجاتے ہوئے پوچھا اور جواب کا انتظار کیے بغیر مزید کہا۔ ’’میں نے دیکھا تھا آپ کو اس کے ساتھ گاڑی میں۔‘‘
فاروق بابا کے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گئے۔
’’وہ۔۔۔ کل انہوں نے زبردستی بٹھالیا تھا‘ ورنہ میں تو بس میں آتا جاتا ہوں۔‘‘
’’اوکے! بس یہی معلوم کرنا تھا۔‘‘ امین صاحب مسکرادیئے۔ فاروق بابا چلے گئے۔
’’دیکھا‘ صحیح کہا تھا نا میں نے؟‘‘
’’یار امین صاحب! مجھے تو لگتا ہے یہ بڈھا مخبریاں کرتا رہے گا اور ڈائریکٹر ہمیں کھانے کمانے نہیں دے گا۔‘‘ سلیم صاحب مری مری آواز میں بول رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’امی۔۔۔‘‘ عمران اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آیا جہاں امینہ بیگم کولر میں پانی بھررہی تھیں۔ ’’یہ آج کل ابو اتنی دیر میں کیوں آرہے ہیں؟ ان کی چھٹی تو شام میں ہوجاتی ہے۔‘‘
’’کام زیادہ ہے نا آفس میں۔‘‘ امینہ بیگم نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ’’اس لیے رکنا پڑتا ہے۔‘‘
عمران ان کے نزدیک آیا اور کولر اٹھا کر باورچی خانے میں رکھ دیا پھر باہر آکر بولا۔
’’امی! آپ کچھ چھپا رہی ہیں‘ سچ سچ بتائیں؟‘‘
’’میں کیوں چھپانے لگی‘ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں۔‘‘ وہ پلنگ پر بیٹھ گئیں۔ ’’ایک تو گرمی میں کمروں کے اندر بیٹھا نہیں جاتا۔‘‘ وہ دوپٹے سے ہوا جھلنے لگیں۔ عمران نے اپنے کمرے میں سے پیدسٹل فین لاکر صحن میں رکھ دیا اور خود بھی پلنگ پر آبیٹھا۔
’’ اب بتائیں امی! کیا بات ہے؟ دیکھیں جب تک آپ صحیح بات نہیں بتائیں گی‘ میرا پڑھائی میں دل نہیں لگے گا۔‘‘
امینہ بیگم نے سوچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور آہستگی سے بولی۔
’’بیٹا! بولنا نہیں اپنے ابو سے انہوں نے منع کیا تھا مجھے کہ تمہیں نہ بتاؤں۔‘‘
’’وعدہ! میں انہیں نہیں بتاؤں گا۔‘‘
’’اصل میں۔۔۔‘‘ امینہ بیگم نے اٹک اٹک کر بتانا شروع کیا۔ ’’وہ تمہاری یونیورسٹی کے اخراجات بڑھ گئے ہیں نا انہیں۔۔۔ انہیں پورا کرنے کے لیے وہ ایک جگہ اور جاتے ہیں نوکری کرنے۔۔۔ چار گھنٹے دیتے ہیں ‘ تھوڑے پیسوں کا آسرا ہوجاتا ہے مگربیٹا! تمہیں میری قسم‘ انہیں کچھ نہ بولنا ورنہ۔۔۔ ورنہ وہ مجھ سے سخت ناراض ہوجائیں گے۔‘‘
عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔وہ چند لمحے اپنی ماں کو دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’فاروق بابا۔۔۔‘‘ سلیم صاحب نے زور سے آواز دی۔ ان کی آواز پر آفس کے لوگ چونک کر انہیں دیکھنے لگے۔ فاروق بابا تیزی سے ان کی جانب آئے۔
’’جی سر۔۔۔ جی؟‘‘ فاروق بابا نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
’’یہاں کی صفائی کس کی ذمہ داری ہے میری یا آپ کی؟‘‘ سلیم صاحب کاٹ کھانے کو دوڑے۔
’’میری ہے سر!‘‘
’’تو پھر یہ ٹیبل دیکھیں میری۔۔۔ اس کی صفائی کیا میں آکر کیا کروں روزانہ؟‘‘ انہوں نے ٹیبل کی ٹاپ پر انگلی پھیر کر بتایا۔
’’سر میں روز آکر سب سے پہلے تمام ٹیبل صاف کرتا ہوں۔‘‘ فاروق بابا کا رنگ ہلکا پڑگیا تھا۔
’’پتا نہیں کیسی صفائی کرتے ہیں‘ بس ایک ہلکا سا کپڑا مارنے کو صفائی نہیں کہتے۔ ذرا ہاتھ جما کر صاف کیا کریں۔‘‘ سلیم صاحب اپنے اندر کا دبا غصہ ان پر اتار رہے تھے۔
’’کیا ہوگیا سلیم صاحب! آرام سے۔۔۔ آرام سے۔۔۔ اس میں اتنا غصہ کرنے والی بات کون سی ہے۔‘‘ امین صاحب اور دیگر افسر وہیں ان کے پاس آگئے تھے۔ ’’اب ان بے چارے فاروق صاحب کے جسم میں جتنی طاقت ہوگی اتنا ہی کریں گے نا۔‘‘
’’جب نہیں ہوتا کام تو گھر بیٹھ جائیں‘ کسی نے زبردستی تو نہیں کہا نا کام کا۔‘‘
’’ارے صاحب! اب تو یہ بے چارے ویسے ہی ریٹائر ہونے والے ہیں‘ کچھ دنوں کی بات ہے۔‘‘ امین صاحب بڑی چالاکی اور غیر محسوس طریقے سے فاروق بابا کی حمایت کررہے تھے۔ ’’چلیں چھوڑیں‘ صبح صبح غصہ نہ کریں‘ جائیں بابا! آپ چائے پلادیں ہمیں۔‘‘
اس لمحے ڈائریکٹر وہاں داخل ہوا تھا۔ اس نے لوگوں کو سلیم صاحب کی ٹیبل کے پاس دیکھا تو وہاں چلا آیا۔
’’خیریت تو ہے نا؟‘‘ اس نے فاروق بابا اور پھر امین صاحب کو دیکھا‘ وہ ان کے نزدیک تھے۔
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔‘‘ کسی کے بولنے سے قبل فاروق بابا بول پڑے۔
’’کچھ نہیں سر! وہ بس سلیم صاحب کو فاروق بابا سے تھوڑی شکایت ہوگئی تھی کہ ان کی ٹیبل ٹھیک سے صاف نہیں کی۔‘‘ امین صاحب نے عام سے انداز میں کہا۔ سلیم صاحب نے انہیں گھور کر دیکھا۔
’’جی سلیم صاحب! یہ ٹھیک بات ہے؟‘‘ ڈائریکٹر نے سلیم صاحب سے استفسار کیا۔
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ بس مجھے ایسا لگا تھا ورنہ کوئی ایسی بات نہیں ہے۔‘‘ سلیم صاحب گڑبڑا گئے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ صفائی تو روز کی طرح ٹھیک ہوئی تھی‘ بس انہیں تو غصہ نکالنا تھا۔
’’سر میں آئندہ خیال رکھوں گا۔ ‘‘ فاروق بابا آہستہ سے بولے۔ ’’مجھ سے کوتاہی ہوئی ہوگی۔‘‘
’’اوکے ! سلیم صاحب کی ٹیبل ٹھیک طرح سے صاف کردیا کریں۔‘‘ یہ کہہ کر ڈائریکٹر اپنے روم میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ آفس میں آج یہ چھوٹی سی پارٹی کس لیے رکھی گئی ہے؟‘‘ ڈائریکٹر بول رہا تھا۔ بڑے ہال میں آفس کے تمام افراد جمع تھے۔ بڑی ٹیبل پر کھانے پینے کی بہت سی اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔ ’’آج اس آفس کے پرانے خدمت گار فاروق بابا کا آخری دن ہے۔ اب وہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ مجھ سے زیادہ بہتر آپ لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے کتنی محنت اور لگن سے اپنی ذمہ داری نبھائی اور برسوں تک اس آفس کے لوگوں کی خدمت کی۔ آج میں آپ کو فاروق بابا کے بارے میں وہ بات بتانے جارہا ہوں جو آپ میں سے کوئی نہیں جانتا۔‘‘
تمام افراد خاموشی سے ڈائریکٹر کو دیکھ رہے تھے۔ فاروق بابا کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ انہوں نے کچھ کہنا چاہا تو ڈائریکٹر نے ہاتھ اٹھا کر انہیں بولنے سے روک دیا لیکن سلیم صاحب درمیان میں بول اٹھے۔
’’میں جانتا ہوں کہ آپ ان کے بارے میں کیا بتانے والے ہیں۔‘‘ ڈائریکٹر نے ایک نظر انہیں دیکھا او رمسکرا کر بولے۔
’’لیکن سلیم صاحب! دوسرے افراد نہیں جانتے۔ میں انہیں بتادوں کہ فاروق بابا کا تعلق ایک غریب طبقے سے ہے۔ان کا ایک بیٹا ہے‘ فاروق بابا کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آفیسر بنے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر اچھی تعلیم دی‘ اچھے اسکول اور کالج میں پڑھایا۔ اس کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے‘ بہت سی قربانیاں دیں‘ خواہش یہی تھی کہ وہ ان کی طرح پیون نہ بنے۔‘‘ اتنا کہہ کر ڈائریکٹرچند لمحوں کے لیے رکا۔ اس وقت سلیم صاحب دوبارہ بول پڑے۔
’’مجھ سے بھی فاروق بابا نے کچھ عرصہ پہلے اپنے بیٹے کے لیے نوکری کا کہاتھا۔‘‘
’’جانتا ہوں۔‘‘ ڈائریکٹر نے سر ہلایا۔ ’’انہوں نے آپ سے ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں سے کہہ رکھاتھا لیکن قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔‘‘
’’سر جی! رہنے دیں۔۔۔ جانے دیں اس بات کو۔‘‘ اچانک فاروق بابا کی آواز ابھری۔ ڈائریکٹر ان کی طرف مڑا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اب آپ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں‘ اب میں آپ کا سر جی نہیں۔۔۔ بیٹا ہوں ابو! آپ کی قسم کو میں نے پورا کیا ہے۔‘‘
کیا۔۔۔؟‘‘ ہال میں تحیر خیز آوازیں گونجیں۔ لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے۔
’’جی ہاں۔۔۔ فاروق بابا میرے والد ہیں اور میں ہی ان کا وہ بیٹا ہوں‘ جس کے بارے میں میں نے ابھی بتایا تھا۔‘‘ ڈائریکٹر نے بات آگے بڑھائی۔ ’’انسان چاہے کچھ بھی کرلے‘ ہوتا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہوتی ہے۔ میرٹ پر میری سلیکشن ہوگئی‘ جب کہ اس نوکری کو حاصل کرنے کے لیے لوگ لاکھوں روپے دینے کو تیار تھے۔ میں نے ڈیوٹی جوائن کرتے ہی اپنے والد سے کہا کہ اب وہ نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے سختی سے انکار کردیا اورکہا کہ جس نوکری کی وجہ سے پیسے کما کرمیں نے تمہیں تعلیم دلوائی اور اس مقام تک پہنچایا میں اس سے بے وفائی نہیں کرسکتا۔ یہ میرے لیے نوکری نہیں عبادت ہے‘ ساتھ ہی یہ بھی قسم دی کہ میں آفس میں کسی کو نہ بتاؤں کہ ہمارا رشتہ کیا ہے۔ آفس میں تم میرے آفیسر رہوگے‘ میں ان کی قسم کے آگے مجبور ہوگیا تھا۔ یہ مجبوری آج ختم ہوچکی ہے۔ میرے ابو کو یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ وہ میرے ساتھ گاڑی میں آیا کریں یا واپس گھر جائیں‘ کبھی کبھی میں زبردستی انہیں گاڑی میں یہ کہہ کر بٹھالیتا تھا کہ اب تو ڈیوٹی ٹائم ختم ہوچکا ہے‘ آپ مجھے گناہ گار نہ کریں۔ آخری بات یہ کہ انہوں نے مجھ سے کبھی کسی کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی۔‘‘
سلیم صاحب‘ امین صاحب اور دیگر افراد منہ کھولے یہ سب سن رہے تھے۔ یہ سب ان کے لیے حیرت انگیز واقعہ تھا۔ سلیم صاحب شرمندگی کے مارے زمین میں گڑھے جارہے تھے۔ اب ان میں اتنی اخلاقی جرأت بھی باقی نہ رہی تھی کہ وہ فاروق بابا جیسی عظیم ہستی سے معافی مانگ لیں۔
اہم بلاگز
قاضی بابا
قاضی حسین احمد بہت بہادر اور ذہین انسان تھے عام لوگوں میں رہ کر کام کرتے تھے ان کا نام عام لوگ بھی عزت سے لیتے تھے چاہے وہ ان کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ قاضی حسین احمد سے میری کچھ ملاقاتیں ہوئیں جن میں میں نے ان میں محبت اور شفقت دیکھی 1993 میں جب میں نے الیکشن میں حصہ لیا تو دیکھا کہ اس وقت قاضی صاحب جماعت اسلامی میں نئی جان لے آئے تھے انہوں نے جماعت کو عام اور پاپولر بنایا ایک شادی میں جب میری ملاقات قاضی حسین احمد سے ہوئی تو وہ میرے متعلق بہت کچھ جانتے تھے حالانکہ میں بہت زیادہ مشہور نہیں تھا قاضی حسین احمد سیاست کرتے تھے تو بہادر کی طرح کھڑے ہو جاتے تھے جس کی مثال لال مسجد واقعہ ہے جس کی انہوں نے مخالفت کی اور سینٹ سے بھی استعفی دیا سینٹ میں صرف حاضری لگوانے نہیں جاتے تھے بلکہ کام کرتے اور اپنے علاقے کے لوگوں کا بھی بہت کام کیا مطالعہ بہت کرتے تھے اور مسلسل کرتے تھے مولانا مودودی کی وفات کے بعد جو خلا جماعت اسلامی میں پیدا ہوا تھا اس کو قاضی حسین احمد نے پُر کر دیا۔۔،
یہ الفاظ ہیں مسلم لیگ نون کے ایک رہنما کے جن کا تعلق سندھ سے ہے ۔۔۔۔
میں اس ہستی کے بارے کچھ لکھنے بیٹھی تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ان کی شخصیت کے کون سے پہلو پہ لکھوں کیونکہ ہمہ جہت شخصیت کو احاطہء تحریر میں لانا خاصا دشوار ہوتا ہے پھر یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ایک غیر جانبدار کی طرح لکھوں، مخالف کی طرح لکھوں یا ایک عقیدت مند کی طرح ۔حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں حیثیتوں کے ساتھ بھی لکھوں تو مواد ایک ہی ہوگا وہ اس لیے کہ ان کے مخالف بھی ان کے عقیدت مند پائے گئے اور عقیدت مند اعتدال کی راہ میں رہ کے ان سے شجاعت صداقت اور جرأت کے اسباق سیکھتے نظر آئے۔۔
یہ بات ہے جون1996 کی ۔ مجھے کچن میں ابو کی آواز سنائی دی، امی کو بتا رہے تھے
او زبردستی چلا گیا اے،
۔کس طرح۔۔،
منتظمین نے بڑا کہیا کہ بیٹا کوسٹر وچ جگہ نہیں تو نہیں جاسکدا پنڈی۔۔ او انہاں نوں دسے بغیر کوسٹر دی چھت تے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔،
یہ تو معلوم تھا کہ راولپنڈی لیاقت باغ میں احتجاجی جلسہ ہے آج جماعت اسلامی کے تحت۔اب ابو کی گفتگو سے پتہ چلا کہ میری دوست کا چھوٹا بھائ چودہ پندرہ سالہ نوجوان بصد شوق روانہ ہو گیا ہے قاضی کی پکار پر۔۔
بے نظیر حکومت کی ،روٹی کپڑا مکان ، کی ،عطا و بخشش، کی پالیسیاں ، افلاس زدہ عوام کی سسکتی بِلکتی زندگی کی محرومیوں کی قیمت پہ حکمرانوں کی عیاشیوں پہ یہ احتجاجی جلسہ ہورہا تھا۔۔۔۔
عصر کے قریب ابو خاصے دکھی لہجے میں کہنے لگے چلو سب ۔۔۔۔
کہاں۔۔۔۔؟ پی ٹی وی کی مختصر سی خبر کے الفاظ میری سماعت میں محفوظ تھے۔۔۔۔۔ یااللہ خیر ہو۔۔۔
۔۔وہ ۔۔۔ شہید ۔۔۔ہوگیاہے۔۔۔۔پولیس نے سیدھے فائر کھول دیے ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔اس کے آگے ابو کچھ کہہ نہ سکے ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد میں اپنی انتہائی قریبی دوست کے...
جماعت اسلامی اور فرض کفایہ
یہ کرب و اذیت اب برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ وجود چھلنی ہے۔۔۔۔زخم زخم ہے۔۔۔اتنے ٹکڑے ہوئے ہیں وجود کے ان کو سمیٹتے سمیٹتے صدیاں لگ جائیں۔۔۔۔ صرف سوا سال کی مختصر مدت میں اتنے بڑے انسانی المیے نے کرہ ارض کے ایک چھوٹے سے حصے پہ جنم لیا ہے کہ اس سے پہلے شائد دنیا کی تاریخ میں ایسی نسل کشی نہیں دیکھی گئی۔ ظلم کی ایسی بدترین مثال نہیں ملتی۔
آج کی تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ کہلانے والی قومیں !!! سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ہلاکت خیز ایجادات ،کائنات کی بلندیوں کو چھونے اور مریخ پہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے شوقین انسانوں کی درندگی نے درندوں کو شرمادیا ہے۔ اس درندگی کی سب سے بدترین مثال اسرائیل نے اور اس کے دہشت گرد یار امریکہ اور اس کے حواریوں نے پیش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مسلم ممالک کے سربراہان اور سیاستدانوں نے خاموش حمایت کے ذریعے اس درندگی میں اپنا حصہ بھی ڈال دیا ہے ۔ ظالم کے ظلم پہ خاموشی اختیار کرنا دراصل اس ظالم کا ساتھ دینا ہی ہے ۔ اس کے ظلم کی تصدیق کرنا اور اخلاقی جواز مہیا کرنا ہے۔
فلسطین کے ایک حصے غزہ میں جس انسانی المیہ نے آج سے چودہ ماہ پہلے جنم لیا گو کہ یہ ظلم تو کئی عشروں سےجاری ہے اور غزہ درحقیقت ایک بہت بڑی جیل ہے جس میں بقول حافظ نعیم الرحمن اکیس لاکھ انسان بطور قیدی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اب تو یہ مذبح خانہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک 45،484 افراد کی شہادت( ایک اندازہ کے مطابق تو یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جوکہ ملبے تلے دبے ہیں ) ، لاکھوں افراد زخمی ہیں، بیماری ،سردی اور بھوک سے ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔۔۔ رپورٹ کے مطابق 365 اسکوائر کلومیٹر پہ مشتمل غزہ کا علاقہ 85000 ٹن سے زیادہ بارودی بمباری کے نتیجے میں ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے ۔ شہر کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ مکانات،کاروبار،مساجد،اسکول،یونیورسٹیاں، ہسپتال ( اسرائیل کی تازہ کارروائی کے نتیجے میں آخری ہسپتال کمال عدوان ) و دیگر انفراسٹرکچر اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 40 ملین ٹن کے ملبے میں تبدیل ہوچکا ہے جس کو صاف کرنے کیلئے 15 سال کی مدت اور 500 ملین ڈالر کا سرمایہ درکار ہے ۔
اس وقت غزہ کے مظلوم مسلمان سردی، بارش میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں اور ان کے خیموں پہ اسرائیلی بمباری بھی جاری ہے،خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث بھی شہادتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس موقع پہ امت مسلمہ کہاں ہیں ؟؟؟ نبی مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی کہاں ہیں؟؟؟ نبی مہربان نے تو امت کو جسد واحد سے تشبیہ دی ہے کہ جیسے جسم کے ایک حصے میں درد ہوتو پورا جسم متاثر ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مسلمان کسی تکلیف میں ہو تو پوری امت اس کرب کو محسوس کرتی ہے اور بے چین ہو جاتی ہے ۔۔۔ لیکن وائے افسوس!!! آج امت بے...
رنگت کا شور
خوب صورتی محض سفیدی میں نہیں اورحسن کا معیار گوری رنگت نہیں ۔ اس زندگی میں کچھ کردار ایسے ہیں جو چلتے پھرتے کہانی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہر انسان کی زندگی میں قدرت نے ایک مثبت پہلو رکھا ہوتا ہے ۔ سارہ بھی ایسا ہی ایک کردار ہے جسے پانچ برس کی عمر میں اس کے والدین آنکھوں میں مثبت خواب سجائے اسے مکتب میں بھیجتے ہیں کہ ایک روز سارہ پڑھ لکھ کر اس قوم کی خدمت کرے گی ۔ سارہ کو بدقسمتی سے بچپن ہی سے معاشرے سے وہ پیار نہ ملا جس کی وہ حق دار تھی ۔ پڑوس کے بچے اور بزرگ سب ایسے کالی کالی کہہ کر مخاطب کرتے مگر سارہ نے کبھی ماتھے پر شکن تک نہ لائی۔ سارہ کے والدین ان باتوں سے اکثر افسردہ ہوتے تھے آخر وہ کس کس کو اور کیا کیا کہہ کر سمجھاتے ۔
وقت گزرتا گیا سارہ کا مکتب میں پہلا دن اتنا بھی شان دار نہ رہا جتنی اس کو مسرت تھی ۔ مکتب کے بچے بھی اس کو کالی کلوٹی کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ۔ سارہ سب کو بھائی اور بہن کہہ کر مخاطب کرتی لیکن کوئی اس کے ساتھ بیٹھنا تک گوارا نہ کرتا ۔ وقت گزرتا گیا سارہ نے کتابوں کو اپنا دوست بنایا ۔ ہر سال جماعت میں اول آتی رہی ۔ جماعت ہشتم میں اب زیر تعلیم تھی لیکن اس کے چہرے کی رنگت اب بھی ایک مسئلہ تھا لیکن ہر جماعت میں ایک کردار ایسا بھی تھا جس نے سارہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا اور وہ کردار اس کی معلمات کا تھا ۔ استاد کبھی بھی بچوں کو اس کی رنگت کی وجہ سے اس سے نفرت یا محبت نہیں کرتے ۔ ایک حقیقی استاد وہی ہوتا ہے جو بچوں میں محبت کو پروان چڑھاتا اور انھیں بلند حوصلہ فراہم کرتا ہے ۔
میڈم شمیم اپنے ادارے میں ایک قابل معلمہ کے طور پر پہچانی جاتی تھی ۔ ایک روز انہیں کلاس میں پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو دیکھا سب بچے قہقہ لگا رہے ہیں اور وہیں ایک بچی ایسی بھی بھی ہے جو اداس بیٹھی ہے ۔ میم شمیم نے بچوں کو مخاطب کیا اور پوچھا : ” بچو ! کیا تم جانتے ہو اچھے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ “ جماعت سے یکے بعد دیگرے مختلف آوازیں آنے لگی : صاف ستھرے ، اچھا بولنے والے ، اچھا پڑھنے والے ، بڑوں کی بات ماننے والے ۔۔۔۔ میم شمیم نے سوال تبدیل کیا کہ برے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ تو جماعت کے کچھ بچے سارہ کی جانب دیکھ کر ہنسنے لگے اور کہیں سے آواز بلند ہوئی سارہ کی طرح کالے کلوٹے ۔۔۔کلاس میں بلند قہقہ لگا ۔ میم شمیم نے سب کو غصے سے مخاطب کرتے ہوئے کہا ! بچو ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ پاک کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ ہم اس کے تخلیق کردہ انسان کی تذلیل کریں ؟ اس کو برا بھلا کہیں، کیا ہم سب ایک جسم کی مانند نہیں...
محمد علی جناح قائد اعظم کیسے بنے؟
1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کا ہندوستان میں اقتدار مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا اس لیے انہوں نے بغاوت کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی اور انہیں ہر طرح سے دبانے اور کمزور کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے انڈیا میں اپنی تجارت اور مصنوعات کو فروخت دینے کے لیے مسلمان ہنر مندوں کو گھر بٹھا دیا انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا مسلمانوں کی زبان کو متروک کرکے انگریزی زبان کو فروغ دیا گیا فارسی زبان پڑھنے والوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے یہاں تک کہ مثل مشہور ہو گئی کہ "پڑھو فارسی بیچو تیل" ۔ مسلمان پسماندہ سے پسماندہ ہوتے چلے گئے۔
ہندوؤں نےان حالات کا فائدہ اٹھایا انہوں نے انگریزی زبان سیکھ کر انگریزوں کا قرب حاصل کیا اور اپنی اس حکمت عملی کے ذریعے حکومت میں اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔
ہندو تعداد میں مسلمانوں سے زیادہ تھے اس بنا پر وہ جان گئے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اقتدار ان کے ہاتھ آسکتا ہے انہوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا۔
مسلمان بھی انگریزوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر "ہندوستان چھوڑ دو" تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہندو مسلم اتحاد میں جو مسلمان رہنما شامل تھے ان میں ایک نمایاں نام محمد علی جناح کا تھا جو پیشے کے اعتبار سے قانون دان تھے۔ ان کا شمار ہندوستان کے بڑے وکیلوں میں ہوتا تھا وہ ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے اور ہندوستان کے عوام کے سیاسی حقوق کے علمبردار تھے مگر جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ہندو رہنماؤں کا مقصد صرف ہندو اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں چنانچہ انہوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جو مسلمانوں کی سیاسی جماعت تھی اور ان کے سیاسی حقوق کے لیے کوشاں تھی۔
محمد علی جناح اور دیگر مسلمان زعماء یہ جان چکے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کی جائے جہاں وہ دین اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں کیونکہ ہندو اور مسلمان دو بالکل علیحدہ قومیں ہیں جن کے افکار، نظریات، دین، مذہب اور رہن سہن کے طور طریقے اس قدر مختلف ہیں کہ یہ آپس میں مل جل کر نہیں رہ سکتے۔ اس دو قومی نظریے کی بنیاد پر محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کا آغاز کیا آپ نے تحریک پاکستان کے لیے دن رات ایک کر دیے۔
محمد علی جناح ایک با اصول بے باک اور مخلص سیاستدان تھے۔ آپ نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ دوست دشمن بھی مخالفت کے باوجود آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ محمد علی جناح نے اپنی و لولہ انگیز قیادت کی بدولت بکھری ہوئی مسلمان قوم کو اسلام کے...
گواہی
السلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ؟ مارتھا جوش سے ہاتھ ہلاتی ہوئی فریحہ کے گلے لگ گئی ۔
فریحہ نے جواباً اسے وعلیکم کہا اور دعا دی " اللہ سبحان تعالی تم سے راضی ہوں ہدایت عطا فرمائیں دونوں جہانوں کی فلاح عطا فرمائیں آمین "
فریحہ کی دعائیں سن کر مارتھا خوشی سے گویا ہوئی' اوہ آنٹی آپ نے تو میرا دن بنا دیا لو یو آنٹی ، آپ سے دعائیں ملتی ہیں تو لگتا ہے جیسے ممی دعا دے رہی ہوں ۔ فریحہ نے مسکراتے ہوئے محبت سے کہا مائیں تو اپنی اولادوں کے لئے دعا کو ہی سب سے قیمتی تحفہ سمجھتی ہیں بیٹی ۔ اچھا بتاو یہ امایہ کہاں ہے ابھی تک کلاس سے باہر نہیں نکلی ؟ ہی ہی ہی ہی ہی آنٹی آپ جانتی ہیں نا اپنی بیٹی کو مارتھا نے ہنستے ہوئے مزید کہا ' جب تک پیپر کا وقت ختم نہ ہوجائے وہ اسے ری چیک کر کر کے خود کو تھکاتی رہے گی ۔ مارتھا کی بات سن کر فریحہ بھی مسکرا دیں اور بولیں، ہاں یہ اس کی بچپن سے عادت ہے کبھی اپنے پیپرز سے مطمئن نہیں ہوتی ۔
ابھی بات یہاں تک ہی پہنچی تھی کہ امایہ دور سے آتی نظر آئی.
اماں کو اپنی بہترین دوست کے ساتھ گپ شپ کرتے دیکھ مسکرا دی ، وہ جانتی تھی کہ مارتھا اس کی اماں سے بہت محبت کرتی ہے اور بہت عزت بھی کرتی ہے ' وجہ تھی امایہ کی والدہ کا مارتھا کے ساتھ انتہائی مشفقانہ اور مخلصانہ رویہ ۔
وہ مارتھا کے کہے بغیر اس کے لئے امتحانات میں کامیابی کی دعا کرتیں ' اسے پڑھائی میں مدد دیتیں امایہ کو مارتھا کے ساتھ بہت اچھا ' عزت کا سلوک کرنے کا کہتیں نہ مارتھا کو اپنے گھر آنے سے روکتیں بلکہ امایہ کو مارتھا کے گھر خود ملوانے لے کر جاتیں ۔ ان سب باتوں کی وجہ سے مارتھا اور اس کے والدین فریحہ سے بہت عزت سے ملتے ۔
فریحہ کا سلوک مارتھا سے بالکل امایہ کی طرح کا ہوتا زمانے کی اونچ نیچ ' حالات کی خرابی سے ہر دم خبردار کرتی رہتیں 'اکیلے باہر گھومنے، جسم کو شو آف کرتا لباس پہننے سے منع کرتیں اور وہ بھی ایسے دلائل کے ساتھ کہ مارتھا من و عن ان کی بات پر عمل پیرا ہوتی ۔ لیکن اتنی محبت ' عقیدت کے باوجود ایک بات جو مارتھا کو بہت کھٹکتی تھی وہ اس نے اپنی ممی سے بھی شیئر نہ کی تھی ۔ اور وہ یہ تھی کہ فریحہ کبھی بھی عیدین کی دعوت میں مارتھا کو شریک نہ کرتیں کبھی امایہ کو کرسمس ' ایسٹر یا گڈ فرائڈے میں نہ آنے دیا نہ مبارکباد دینے دی بلکہ اگر مارتھا عیدین کی مبارکباد دیتی تو آنٹی اور امایہ مسکرا کر رہ جاتیں شکریہ تک نہ بولتیں جو کہ مارتھا کے لئے حیرت کا باعث تھا ہی ساتھ ہی تکلیف دہ بھی ہوتا ۔
اب پھر کرسمس قریب تھا اور مارتھا نے سوچ رکھا تھا کہ کالج کے اس آخری سال کو یادگار بنانے کے لئے وہ لازمی امایہ کو...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...