مری و ایوبیہ کی سیر

 

 انسان کے اندر کسی چیز کو جاننے کے لۓ پیداہونے والی شدید خواہش کو تجسس کہتے ہیں یہی تجسس ھے جس کی بنا پر  انسان نے غاروں سے باہر قدم نکالا دنیا کو کھوجنا شروع کیا اور چاند تک کو مسخر کرلیا۔

کچھ عرصہ قبل ہماری ہمشیرہ محترمہ نے سردیوں کے موسم میں مری کا دورہ کیا تو دن رات اس کے قصے اس تسلسل سے سناۓ کہ ھمارا دل  بھی اس خوبصورتی کو دیکھنے کے تجسس میں مبتلا کر دیا۔بہرحال ہم نے بھی ابن بطوطہ اور واسکو ڈی گاما کا سا ارادہ باندھا زاد راہ تیار کیا جہاز کی طنابیں کھینچیں اور ہوا کے دوش پر تیرتے ھوۓ کراچی سے  تقریباٰڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور موجود دنیا کے خوبصورت ترین شہرو ں میں سے ایک یعنی اسلام آباد میں قدم رکھا۔یہاں یہ بات بتاتے چلیں کہ یہ دنیا کے ان تین شہروں میں سے ایک ٰہے جنہیں صرف دارالحکومت بنانے کی غرٖض سے تعمیر کیا گیا ہے۔ بہرحال ہم نے ایئرپورٹ سے باہر قدم رکھا تو شاید کسی نے پہلے ہی سے ہمارے آمد کی اطلاع جاری کردی تھی جبھی سارے ٹیکسی والے ھماری طرف لپکنے لگے ہم نے بڑی مشکل سے ایک ٹیکسی والے سے کرایہ طے کیا اور مری کی طرف عازم سفر ہوۓ

مری اسلام آباد کے جنوب مشرق میں تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ھے جسے انگریز حکومت نے اپنے بیمار ہوجانے والے فوجیوں کی صحتیابی کے لۓ 1851 عیسوی میں قائم کیا۔1853 میں یہاں چرچ بنایا گیا جب کہ اس کے کچھ عرصہ بعد پوسٹ آفس اور دیگر اھم عمارتیں تعمیر کیں۔یہ سب عمارتیں ایک مشترکہ روڈ پر موجود ہیں جسے مال روڈ کہا جاتا ہے۔اسلام آباد سے مری تک کے راستے میں بہت سے خوبصورت چشمے آتے ہیں جن کا خوبصورت منظر اور ٹھنڈا ٹھار پانی انسان کی طبیعت خوشگوار بنادیتے ہیں۔مری پہنچنے پر سخت سردی اور باسی برف نے ہمارا استقبال کیا مارچ کا مہینہ تھا اور برف باری کاموسم ختم ہوچکا تھا۔البتہ پرانی برف اب بھی موجود تھی سو ہم نے ڈٹ کر کھانا کھایا ۔پورا دن ہم نے مال روڈ کی سیر کی۔ یہاں ہر طرف ملکی و غیرملکی سیاح نظر آتے ہیں۔اگلے دن ہم نے مری کہ خیرباد کہا اور ایوبیہ کا رخ کیا۔

یوبیہ سطح سمندر سے 8،000 آٹھ ھزار فٹ کی بلندی پر واقع نیشنل پارک ہے جس کا رقبہ آٹھ ھزار ایک سو چودہ ایکڑ ہے ۔اسے 1984 مین تعمیر کیا گیا جب کہ 1991 میں اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔اس کا نام پاکستان کے دوسرے صدر ایوب خان کے نام پر ایوبیہ رکھا گیا۔مری سے ایوبیہ کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے کرکے ھم وہاں پہنچے تو سیاح چیئر لفٹ کا رخ کر رھے تھے۔ھم نے بھی ٹکٹ خریدا اور جا سوار ھوۓ۔پہلے تو بہت ڈر لگا لیکن ہم خوبصورت مناظر دیکھ کر حیرت میں مبتلا ھوگۓ اور دل ہی دل میں اللہ کی تعریف بیان کرنے لگے۔دوسرے کنارے پر پہنچے تو وہاں برف باری شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں مارچ کے مہینہ میں برف باری وہاں پہلے ہی ہر چیز سفید تھی ہم بھی اسی سفیدی میں ضم ھوگۓ۔وہاں پر برف کی سلائیڈیں بنی ھوئی تھیں اس کے علاوہ بہت سے لوگ برف سے مختلف چیزیں بنا رھے تھے ہم نے بھی ایک خوبصورت سا سنو مین بنایا ۔

ہم وہاں کچھ دیر گھومے اور پھر واپسی کا رخ کیا۔ اب گھر بیٹھے یہ بلاگ تحریر کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں سے بس یہی کہیں گے کہ پاکستان میں بہت خوبصورتی بکھری پڑی ہے اگر موقعہ ملے تو لازمی گھومیں پھریں ۔۔۔۔اور ہاں اگر ایوبیہ کا رخ کرنے کا ارادہ ہو تو لازمی ھمارے سنومین سے ملاقات کریں

 

حصہ

جواب چھوڑ دیں