عالمی و مقامی اسٹیبلشمنٹ

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عالمی اسٹیبلشمنٹ نے قومی ریاستوں پر مبنی ممالک بنائے  اور جمہوریت کو جدید دین کے طور پہ متعارف بلکہ لاگو کرایا البتہ یہ بات پیش نظر رہی کہ ان معاملات میں اولین ترجیح عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات ہونگے سو اسکے لئیے جب جہاں جیسی ضرورت کے اصول کے  مطابق خلیج میں بادشاہت افریقہ میں آمریت مصر پاکستان ترکی اور بنگال میں جمہوریت و آمریت کو باری باری قبول کیا گیا ۔

اسکے ساتھ ہی عالمی اسٹیبلشمنٹ نے مستقل بنیادوں پہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئیے کم و بیش ہر اسلامی ملک میں مقامی اسٹیبلشمنٹ کو بنایا اور پیٹھ تھپکی ۔

اسلامی دنیا میں موجود اسٹیبلشمنٹ کا پہلا کام اپنے اپنے خطوں کی اسلامی تحریکوں کو کُچلنا تھا مصر تُرکی اور الجزائر اسکی بہترین مثال ہیں پاکستان جیسے ممالک میں یہ فرق رہا کہ یہاں کی اکثر مذھبی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کھڑی رہیں اسکی بنیادی وجہ کشمیر و افغان جہاد تھا البتہ نائن الیون کے پاکستانی  یو ٹرن کے بعد جہادی ریاست پاکستان اور اسکے اداروں پہ حملہ آور ہوگئے یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ افغان جہاد کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی تو اسلامی ممالک اسکے مفادات کا تحفظ کرتے رہے ، بادشاہ جمہوریت پسند اور آمر تمام ہی اُس جہاد کے پشتی بان تھے ۔

ہاں ، اسامہ بن لادن کی جانب سے عالمی اسٹیبلشمنٹ پر حملے نے بہت سارے منصوبوں کو وقت سے پہلے عیاں کردیا اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے حامی مذھبی گروہوں یا جہادیوں کو بھی سخت ترین مشکل میں ڈال دیا ۔

جمہوریت کے اس کھیل کا فارمولہ بظاہر بہت سادہ مگر حقیقت میں نہایت پیچیدہ ہے ، مثلاً اس نظام کی خُوبی یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنی جماعت بنانے اجتماعات کرنے رسائل چھاپنے اور اپنے نظریات کی  دعوت دینے کی مکمل آزادی ہوتی ہے لیکن جہاں آپ اس نظام یعنی جمہوریت کو چیلنج کریں گے تو وہیں سے جمہوریت لمحہ بھر میں آپکے واسطے آمریت میں تبدیل ہو جائے گی لیکن اسکے باوجود جمہوریت پہ یقین رکھنے والی دینی یا مذھبی جماعتوں کے لئیے یہاں کام کرنے کی بڑی حد تک آزادی ہے اور اکثر اسلامی تحریکیں جمہوریت کو ہی تبدیلی کا حتمی راستہ سمجھ کر اختیار کرچکی ہیں ۔

اُوپر ذکر ہوا پیچیدگی کا ، سب اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت کہیں بھی اور کبھی بھی عام افراد کا کھیل نہیں رہا بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی تقویت کا خوبصورت جال ہے ۔ پاکستان جیسے ممالک میں اکثر کام بھونڈے انداز سے ہوتے ہیں جیسا کہ انتخابی معرکے میں اربوں روپے کا استعمال ، بہت سے احباب مغربی جمہوریت کی مثال دیکر کہتے ہیں کہ وہاں عام آدمی اقتدار میں آسکتا ہے ابامہ جیسا لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ ابامہ ہو یا بش انکی مہم کے لئیے چندے کے نام پہ ملٹی نیشنل ادارے فنڈنگ کرتے ہیں اور پھر متعلقہ شخصیت کی کامیابی کے بعد سمجھداری سے اپنا حصہ وصول کر جاتے ہیں ۔

اسلامی خطوں میں بذریعہ جمہوریت پہلی کامیابی غالباً الجزائر کے اسلامی سالویشن فرنٹ کو ملی تھی جسے مقامی اسٹیبلشمنٹ نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پہ ناکام بنایا نتیجتاً مسلح تحریک شروع ہوئی اور لاکھوں شہری مارے گئے دوسری بڑی کامیابی تُرکی کی  رفاہ پارٹی کے نجم الدین اربکان کی بطور وزیراعظم طاقت کے ایوانوں میں پیشقدمی تھی جسے ہمیشہ کی طرح مقامی اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کی مدد سے روک دیا  اسی طرح کا ایک اور تجربہ غزہ میں ہوا جہاں حماس کی کامیابی کو عالمی اسٹیبلشمنٹ نے بالکل بھی پسند نہیں کیا اور غزہ کو محاصرے کا سامنا رہا اس ضمن میں مصر و سعودی عرب نے مقامی اسٹیبلشمنٹ کا کردار بخوبی نبھایا اور فلسطینیوں کے مسائل میں اب تک اضافہ کئیے ہوئے ہیں ۔

مصر میں مُرسی کیساتھ عالمی و مقامی اسٹیبلشمنٹ اور بادشاہت نے جو کچھ کیا وہ دہرانے کی ضرورت نہیں ۔

ایک منفرد کام اس دوران دوبارہ تُرکی میں رجب طیب اردگان کی فتح کی صورت میں ہوا لیکن یہ ماڈل قدرے دلچسپ اور عام اسلامی تحریکوں سے یکسر مختلف ہے ۔سب جانتے ہیں کہ اردگان اپنے استاد اربکان کی رفاہ یا سعادت پارٹی سے بڑا دھڑا منحرف کرنے میں کامیاب رہے اور سیکیولر ازم کا نعرہ لگا کر کارکردگی کی بنیاد پہ طاقتور مقامی اسٹیبلشمنٹ و عدلیہ کو پچھلے قدموں پہ دھکیل گئے لیکن پیش نظر رہے کہ انکا ظاہر سیکیولر ازم اور کارکردگی ہے جبھی انکے خلاف عالمی و مقامی اسٹیبلشمنٹ کو کسی حد تک ناکامی ہوئی ہے ۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ اردگان ایک اسلام پسند ضرور ہیں لیکن انہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ہاتھ ملانا ہی پڑتا ہے انکی نیت پہ شک نہیں کیونکہ وہ اتنا ہی کرسکتے ہیں ویسے بھی اردگان کی حیثیت اُس اسلام پسند جیسی ہے جو کسی بڑے چینل کا سربراہ بن جائے فطری بات ہے اسے مارکیٹ کے مطابق ہی چلنا پڑے گا بصورت دیگر الجزائر ، مرسی اور اربکان کا حشر ذیادہ پرانی بات نہیں ۔

اسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے تیونس کی اسلامی تحریک نے اپنا سیاسی ونگ الگ کرکے سیکیولر

تشخص کیساتھ سیاست شروع کردی ہے کیونکہ عالمی و مقامی اسٹیبلشمنٹ نے انکے لئیے بھی کچھ نہیں چھوڑا تھا ۔

پاکستان میں جہاں مذھبی جماعتیں مقامی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ رہی ہیں وہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ہر اسلامی خطے کی طرح یہاں بھی مقامی اسٹیبلشمنٹ اور روشن خیال احباب و این جی اوز  اور بہت سی سیاسی جماعتوں پہ مشتمل اپنے مددگار پیدا کر رکھے ہیں جو بوقت ضرورت اپنے مالکان یعنی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں جہاں مقامی اسٹیبلشمنٹ بےبس ہوتی ہے وہاں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے یہ انصار کمک لئیے پہنچتے ہیں اور انکا ہدف اسلام سے جُڑی ہر ایسی چیز ہوتی ہے جس سے عالمی اسٹیبلشمنٹ کو تکلیف ہو، حالیہ قادیانی مسئلہ بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے پیروکار روایتی عقیدت اور غلامانہ جذبات کیساتھ اُٹھا رہے ہیں ۔

عالمی اسٹیبلشمنٹ و مقامی اسٹیبلشمنٹ کو ذرائع ابلاغ میں وافر تعداد و مقدار میں دانشور میسر ہیں جو انکا بیانیہ لیکر چل رہے ہیں ۔

یہی وجہ ہے عاصمہ جہانگیر صاحبہ جیسے لوگ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کی وجہ سے بہادری سے اپنے لاپتہ افراد کے حق اور اسلامی نظام کے خلاف نعرہ بلند کرتے ہیں اور مقامی اسٹیبلشمنٹ سوائے دانت پیسنے کے کچھ نہیں کرپاتی ۔۔

 

حصہ
mm
فیض اللہ خان معروف صحافی ہیں۔۔صحافیانہ تجسس انہیں افغانستان تک لے گیاجہاں انہوں نے پانچ ماہ تک جرم بے گناہی کی سزا کاٹی۔۔بہت تتیکھا مگر دل کی آواز بن کر لکھتے ہیں۔کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل س وابستہ ہیں

جواب چھوڑ دیں