عورتیں گھروں میں بیٹھیں 

ہم نے گزشتہ کالم میں لکھاتھاکہ انسان اپنے عہدکااسیرہوتاہے وہ سوچتابھی ایک جبرکے تابع ہوکرہے ۔آج کاانسان جس عہدمیں سانس لے رہاہے اس سے آزادہوکرسوچنااس کے لیے مشکل بلکہ ناممکن کے قریب ترہوگیاہے ۔کیاکراچی میں کوئی انسان یہ تصورکرسکتاہے کہ اس کی صبح بغیر صابن کے ہو؟اگر نہیں تو کیوں؟کیا آدم علیہ السلام اپنے ساتھ لکس لائے تھے جو آج کا انسان صفائی کے لیے صابن کا محتاج بن کر رہ گیا ہے؟اور کیا صابن صرف خریدنے کی چیزہے یاصابن گھرمیں بھی تیارکیاجاسکتاہے ۔؟اسی کراچی میں 1970ء تک عورتیں گھروں میں اپناصابن خودتیارکرتی تھیں مگراس صابن سے جھاگ نہیں بنتاتھااوروہ صابن مفت میں تیارہوجاتاتھا۔اسی شہرمیں ملاواحدکامنجن دانت صاف کرنے کے لیے بکتاتھاملاواحدی دہلی کے ادیب صوفی اوربزرگ تھے حضرت والاخواجہ حسن نظامی کے شاگردتھے ۔جولوگ ملاواحدی کامنجن نہیں خریدسکتے تھے وہ اپنامنجن خودگھروں میں بنایاکرتے تھے ہمارے استادصاحب بتاتے ہیں کہ ان کے نانا،6مہینے تک بکرے کی ہڈیاں ایک ٹین میں جمع کرتے پھراس کوجلاکرکوئلہ بنایاجاتااس کوئلے کوپیساجاتاپھراس میں پھٹکری ملائی جاتی پھرنانابچوں سے کہتے کہ اس کوخوب پیسوں اس میں مزیدچنداجزاء ملاکرمنجن تیارکرلیاجاتااستادصاحب بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے گھرایک مہمان لڑکاآیاجس کے دانت انتہائی پیلے ہورہے تھے نانامرحوم نے اس کوڈانٹاکہ پہلے دانت صاف کرواس نے گھرمیں تیارکردہ منجن 2مرتبہ دانتوں پرلگایااوراس کے دانت چمکنے لگے ظاہرہے کہ بکرے کی ہڈیاں دانت کیوں نہ چمکائیں گی ؟ان میں کیلشیم جوہوتاہے ۔مگراس منجن سے جھاگ نہیں بنتاتھا۔آج صفائی کامطلب ہوگیاہے ایسی چیزجس سے جھاگ بنے ،آج کاانسان سمجھتاہے کہ جھاگ بنانے والی چیزہی صفائی کرتی ہے ۔ کیونکہ ٹوٹھ پیسٹ سے جھاگ بنتاہے ،صابن سے جھاگ بنتاہے ، جب روزمرہ ضرورت کی بنیادی اشیاء بھی گھرمیں تیارنہیں ہونگی ۔تویہ بازارسے آئینگی ۔اوربازارسے یہ سب چیزیں مفت تونہیں آتیں ؟ان کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہماری والدہ صاحب زخم پرلگانے کے لیے ایک ملھم بناتی ہیں جوپیازکومکھن میں جلاکربنائی جاتی ہے ۔مکھن میں پیازجلانے سے کالے رنگ کی ایک ملھم تیارہوجاتی ہے جوکئی میڈیکل ٹیوبزکے مقابلے جلدی زخم ٹھیک کردیتی ہے ۔ایسی کئی چیزیں ہمارے معاشرے کاحصہ تھیں۔جواب رفتہ رفتہ ختم ہوچکی ہیں۔اب گھرمیں بزرگ خواتین تو ہیں جنہیں کوماضی کے گھریلوں ٹوٹکے آتے ہیں مگر وہ بے چاریاں کیاکریں؟کیونکہ پوتیاں اوربہوتوگھرمیں ہوتی نہیں ہیں۔پوتیاں اسکول جاتی ہیں وہاں سے آکرکوچنگ اورپھرشام میں تھکی ہاری پوتی دادی سے کیاٹوٹکہ سیکھے گی ؟جب گھرمیں پاپڑ،روٹی،سالن ،منجن سے لے کربڑی سے بڑی چیزیں بازارسے خریدکرلائی جائے گی توپھراس خریداری کے لیے جس دولت کی ضرورت پیش آئے گی اس کوکمانے کے لیے لازمی عورت گھرسے باہرنکلے گی ۔اورباہرنکل کرصرف وہ ان تمام اشیاء کی خریداری کے لیے روپوں کوجمع کرے گی جواگروہ بچپن سے کسی بزرگ عورت کے پاس بیٹھتی توگھرمیں تیارکرلیتی۔جن گھروں میں مائیکرواوون ہیں کیاان گھروں میں ڈبل روٹی اورکیک گھرمیں تیارکیاجاتاہے ؟نہیں ان گھروں میں صرف باسی سالن اس اوون میں گرم کیاجاتاہے ۔مگراوون لایااس لیے گیاتھاکہ اس میں ڈبل روٹی بنے گی ۔جب عورت سارادن دفترمیں رہے گی توڈبل روٹی کہاں سے بنائے گی۔میرے ایک دوست کے گھرکادلچسپ واقع کچھ عرصہ قبل مجھے معلوم ہوا یہ 6بھائی ہیں ان کی تین بہنیں ہیں اب 4بھائیوں کی شادی ہوگئی اس طرح گھرمیں کل ملاکر8خواتین ہوگئیں۔آہستہ آہستہ بہوؤں نے مہنگائی کاذکرکرناشروع کیااورہرمرتبہ درزن کے حوالے سے شکایات بڑھنے لگیں کہ درزن کپڑے مہنگے سیتی ہے اورصحیح بھی نہیں سیتی ۔گھرکی بزرگ عورت نے فیصلہ کہ ایک بہوکوکپڑے سینے سیکھایاجائے اوراس تجویزکوسب نے پسندکیا۔شکرہے بہوؤں نے اس مسئلے کاحل یہ نہیں نکالاکہ ہم نوکری کرلیتی ہیں پھرپیسے ہونگے توکپڑے اچھی درزن سے سلوالیاکرینگی ۔آج کی صدی میں مارکیٹ ایک بدمعاشی سے اپنی مصنوعات آپ کے گھروں تک پہنچاتاہے ۔ہرچیزمارکیٹ سے آتی اوراس مارکیٹ سے آنے والی چیزوں کے حصول کے لیے لوگ اپنی روایت اورتاریخ سے ناواقف ہوچکے ہیں۔2016میں امریکہ کے محکمہ FDA , Food and drug administrationنے ایسے صابن پرپابندی لگادی ہے جوجراثیم کش ہیںیعنی جن سے جراثیم مرتے ہیں۔اس کی وجہ حال ہی میں سامنے آنے والی سائنسدانوں کی ریسرچ ہے جس میں بتایاگیاہے کہ انسان کے چہرے کواگرخردبین میں دیکھاجائے تواس کے چہرے پرکروڑوں چھوٹے چھوٹے کیڑے ہیںآج کل سائنسدانوں کے درمیان بحث یہ چل رہی ہے کہ ان کیڑوں کی خوراک کیاہے ۔کچھ کاخیال ہے کہ انسانی چہرے پرجوتیل ہے ۔یہ ان کیڑوں کی خوراک ہے کچھ کاخیال ہے کہ جلدکے ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں جوٹکڑے گرتے ہیں وہ ان کیڑوں کی خوراک ہے FDA کاکہناہے کہ جراثیم مارنے والے صابن ان کیڑوں کوبھی ماردیتے ہیں جوکہ انسانی جلدکے لیے بے حدضروری ہوتے ہیں اس لیے 2016ء میں پابندی لگادی گئی مگرہمارے ہاں پاک پاک پاکستان صاف صاف پاکستان،ماں صرف فلاں صابن کادھلامانگے ۔وہ صابن جراثیم سے 24گھنٹے کی حفاظت دیتاہے ۔ جیسے اشتہارات والے صابن آج بھی ہماری صحت کے دشمن بنے بیٹھے ہیں اب اگرکوئی کہے کہ دیکھیں ناسائنس نے کتنی مددکی انسانوں کی، انہوں نے تحقیق کی ۔ اس عقل کے اندھے سے کوئی پوچھے کہ صابن بنایاکس بدمعاش نے تھا؟لوگوں کوکون ڈراتاہے کہ جراثیم بروقت ہرجگہ ہوتے ہیں؟یہ پہلے بدمعاشی کرتے ہیں پھرسرمایہ دار اس کے نتیجے میں پیداہونے والے مسئلے کاحل دیتے ہیں اوربیوقوف لوگ اس کوسائنس اورسرمایہ داروں کی طرف سے فخریہ پیشکش سمجھتے ہیں۔سائنس کاسب سے بڑانقص یہ ہے کہ سائنس تجربے کے بعدبتاتی ہے کہ مرغی نے انڈادیناہے یابچہ سائنسی تجربے کانتیجہ کیانکلے گا؟یہ نتیجہ آنے سے پہلے کوئی نہیں جانتا ۔ سائنس خودمانتی ہے کہ ایک تجربہ ایک ہزارباربھی کیاجائے توبھی اس کے امکانات موجودہیں کہ ہزاربارکے بعدبھی نتیجہ مختلف آجائے ۔ مثال کے طورپربرگیڈیئرT.Mشہیدکاپیراشوٹ نہ کھلنے کاواقعہ یادکریں اس آدمی نے کئی سو فری فال جمپ کررکھے تھے ۔فری فال جمپ سے مراد ایسے جمپ ہیں جن میں پیراشوٹرزمین سے ایک خاص فاصلے کے بعداپناپیراشوٹ کھولتاہے۔ جنگ میں ایسے جمپ سے دشمن کودرست اندازہ نہیں ہوتا کہ فوجی کہاں اتررہاہے ۔ برگیڈیئر T.M سینکڑوں لوگوں کے سامنے سائنسی ایجاد کے فیل ہونے کی مثال بن گئے ۔ سرمایہ داروں کی بدمعاشی اتنی سادہ نہیں ہوتی کہ ہرکسی کی سمجھ میں آجائے ۔سوال یہ ہے کہ جس نسل کوآپ جراثیم سے ڈراکرجوان کرتے رہے ہیں خدانہ کرے خدانہ کرے اللہ پاک سب کے بزرگوں کوصحت تندرستی دے (آمین )لیکن اگرکسی کے والدین ضعیف ہوگئے اوروہ اپنی پاکی نہ پاکی کاخیال نہ رکھ سکیں تویہ جراثیم سے ڈری نسل کیسے ان کے پیشاب کوصاف کرے گی ؟کیسے ان کے خراب کپڑے دھوئے گی؟ کیسے باباجی کے تھوک والاڈبہ صاف کرے گی ؟آدم علیہ السلام کے عہدسے لے کر 19وی صدی تک لوگ اپنے والدین اوربزرگوں کی خدمت کرتے آئے ہیں کوئی جراثیم سے نہیں مرا۔جراثیم صرف ایک ڈرامہ ہے ایک خوف ہے ۔اس خوف کوسامنے رکھ کرصرف سرمایہ داروں نے اپنی مصنوعات بیچنی ہوتی ہے ۔الغرض ہم وہ تمام چیزیں جوبازارسے پیسے دے کرگھرلائی جاتی ہیں ہم ان کے سدباب کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔اگرخاتون خانہ گھرمیں رہے تویہ چیزیں گھرمیں تیارہوسکتی ہیں۔اوران کی لاگت بھی بازارکے مقابلے میں انتہائی کم ہوگی ۔دوڑتی بھاگتی اندھی لولی لنگڑی زندگی جینے سے بہترہے کچھ دیررک کرجائزہ لیں اورسادہ زندگی کی طرف لوٹ جائیں جسے رسول ﷺ اورصحابہ کرام علیہ الرضوان اللہ اجمعین کی زندگیاتھیں۔ مگراس کے لیے ضروری ہے کہ عورتیں اپنے مردوں کی کمائی پرراضی ہوجائیں معیارزندگی کوبلندکرنے کی دوڑسے نکل آئیں اورعورتیں گھروں میں صبروشکرکے ساتھ بیٹھیں۔

حصہ
احمد اعوان اسلامی تاریخ، فلسفہ، جدیدیت، سیاست، خواتین کے حقوق، انسانی حقوق، ماڈرن اسٹیٹ اور سماجی مسائل جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ موصوف نے جامعہ کراچی سے اسلامی تاریخ میں ایم اے مکمل کرنے کے بعد ایس ایم لاءکالج سے ایل ایل بی مکمل کیا۔ پیشہ ور وکیل ہیں اور ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کے لیگل ایڈوائزر ہیں۔ ahmedawan1947@gmail.com

جواب چھوڑ دیں