انجام سوچ کر ڈر لگتا ہے

میں نے اپنی بیٹیاں اسکول ،کالج نہیں بھیجی مگراب جب الیکشن کاوقت آیاتومیں نے اپنی پردہ داربیٹیوں سے کہااب نکلوبیٹااب حضور ﷺ کی عزت کامسئلہ ہے ۔لوگوں کے گھروں میں جاﺅاورووٹ مانگوحضور ﷺکی عزت کے لیے سب قربان ،مگرایک بات یادرہے خواتین ،خواتین سے بات کرینگی اورمردمردوں سے یہ بیان علامہ خادم حسین رضوی صاحب کاہے جوانہوں نے لاہورکے ضمنی انتخاب کے موقع پر ایک جلسے کے دوران دیا۔علامہ صاحب بڑے رتبے والے عالم ہیں۔فارسی ،عربی پرعبورکے علاوہ اقبال کے کلام اورپنجاب کاصوفیانہ کلام ان کوحفظ ہیں۔حضرت اس وقت تحریک لبیک یارسول اللہ کی قیادت کررہے ہیں۔ یہ تحریک غازی ملک ممتازقادری کی شہادت کے بعداٹھنے والی لہرکے نتیجے میں پیداہوئی ہے ۔ این اے 120 ان کی جماعت کاپہلاالیکشن تھاجس میں ان کے نمائندے کو7ہزارسے زیادہ ووٹ ملے اوران کانمائندہ بیگم کلثوم نوازاوریاسمین راشدکے بعدتیسرے نمبرپرآیا۔ جوکہ بلاشبہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ مگرکیونکہ علامہ صاحب میڈیاکوہمیشہ سخت الفاظ میں یاد کرتے ہیں ا س لیے میڈیاکی ایک بڑی تعدادنے ان کی جماعت کے ووٹوں کونظراندازکرتے ہوئے ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ نمائندے کو تیسرے نمبرپربتایا جوکہ بددیانتی ہے ۔ آج ہم اس موضوع پربات کریں گے کہ جمہوریت کے میدان میں قدم رکھتے ہی کسی مجاہد اورعالم کی زندگی کس طرح بدل جاتی ہے اس کے اصول قاعدے قوانین ضابطے ،اخلاقی ،روحانی معاملات کس طرح متاثرہوجاتے ہیں۔ابتدامیں آپ نے جوحضرت کابیان پڑھاہے ۔یہ بیان سوچنے کے لیے کئی دروازے کھولنے والاہے ۔حضرت کیونکہ ایک باعمل عالم ہیں۔ اس سے حضورنے ساری زندگی اپنی بیٹیوں کے پردے کوجدیدتعلیم پرترجیح دی جوکہ ایک قابل قدر،قابل تحسین اورلائق تقلیدبات ہے ،علماءاوربزرگان دین آج بھی الحمداللہ اسلام کواس کی روح کے مطابق زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔مگرجیسے ہی کوئی صاحب ایمان آدمی جمہوریت کے میدان میں قدم رکھتاہے اس کے ساتھ یہ جمہوریت کیاکھیل کھیلتی ہے ۔اس کااندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔بش نے افغانستان پرحملے کے وقت کہاتھاکہ ہم افغانستان کے ایک ایک غارتک جمہوریت کی روشنی پہنچاکررہینگے ۔یہ ایسی شمع ہے کہ جب جلتی ہے توپروانے چاہے وہ خانوادے ہوں یا باعمل عالم دین وہ آکر اس شمع پر قربان ہوتے

ہیں۔وہ نیک بچیاں جنہوں نے آج تک محرم کے بغیرباہرقدم نہ نکالاتھاحتی کہ انہوں نے جدیددورمیں سانس لے کراس دورکی تہذیب ،اقتداراورروایت کے مقابلے میں پردے کی حرمت قربان نہ ہونے دی ان بچیوں پریہ وقت آن پڑاکہ ان کوووٹ مانگنے کے لیے گھرگھرجاناپڑا۔یہ لمحہ فکریہ ہے یانہیں ؟اگرامریکہ کی فوجیں آپ کے محلے میں آجائیں اوروہ کہیں کے ہم تمہاری عورتوں کوپردے میں محلے کاچکرلگوائیں گے تومجھے یقین ہے کہ کئی مذہبی لوگ جام شہادت نوش کرلیں گے مگراس عمل کواپنی زندگی میں ہونے نہیں دینگے ۔لیکن امریکہ کوئی احمقوں کاملک نہیں ہے اس نے آپ کوبدلنے کے لیے جمہوریت دی اور اسکول ،کالج کھول دیئے جہاں آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی اقتدارکاقتل کیا،اگرکوئی کہے کہ ہماری بچی توپردے میں کالج بلکہ یونیورسٹی تک گئی مگرالحمداللہ کبھی کوئی مسئلہ نہیں پیش آیا،یہ اپنے اندرہوتاہے کہ انسان کیساراستہ چنے ،توایسے اشخاص کوسوچناچاہے کہ اگرفرض کرلیں کوئی لڑکی پردہ میں یونیورسٹی سے باعزت باہرنکل آئی ہے تویہ دلیل تونہیں ہوسکتی کہ ہرلڑکی جوپردہ کرتی ہے یاپردہ قربان کرتی ہے وہ یونیورسٹی کالج میں اسلام کے اصول پرعمل کرتی ہوگی ؟فرض کریں کہ کسی لڑکی کوکالج یونیورسٹی میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔توکم ازکم اس پردہ دارلڑکی کایہ ایمان توبن گیاناکہ کالج یونیورسٹی میں پردے کے ساتھ پڑھاجاسکتاہے ؟اب اگلی نسل میں اس گھرکی لڑکیاں اسکول ،کالج، یونیورسٹی جائیں گی اورتب ان کے ساتھ کچھ ہوگیاتو؟اس کاذمہ داراس پردہ داربی بی کایہ نظریہ ہوگاکہ پردہ میں اسکول کالج پڑھاجاسکتاہے ؟۔تبدیلی رفتہ رفتہ آتی ہے ۔یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی لڑکیاں اورلڑکے اخلاقی لحاظ سے کہاں تک کاسفرطے کرلیتے ہیں اس کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔یہ گفتگواسی صورت میں سمجھ آسکتی ہے جب آپ کودین کاعلم ہوحضور ﷺکی حدیث کے مطابق عورت اپنے محرم کے بغیرگھرسے باہرنہیں نکل سکتی ۔ اب ساری دنیاکی عورتیں باہرنکل آئیں کراچی سے انگلینڈکاسفرباحفاظت کرلیں پھربھی حدیث کی حرمت اوراس کے نتیجے میں پیداہونے والاحکم اٹل اورالحق رہے گا۔دنیابدل چکی ہے تودنیاتباہی کی طرف جارہی ہے دنیاجنت نہیں بن گئی ہے ۔جدیدیت کے تباہ کن اثرات ان ماں باپ سے پوچھیں جن کی جوان بیٹیاں ان کے سامنے آکرکہتی ہیں کہ یہاں شادی کردو ،ورنہ میں خود کرلوںگی ؟اوررشتہ دارمشورہ دیتے ہیں کہ آپ کی بیٹی شریف ہے ورنہ نہ بتاتی توآپ کیاکرلیتے ؟کسی اگلے مضمون میں اس حوالے سچے واقعات آپ سے شیئر کروں گا۔آج ہم اس موضوع پرتھے کہ علامہ خادم رضوی صاحب جیسے جیدعالم نے جمہوریت کی پٹری پراپنی گاڑی ڈال کرظلم کیاہے ۔یہ بازارہے یہاں اقتدارکاقتل ہوتاہے ۔حضرت کوتویہ بھی علم نہ تھاکہ ان کی پارٹی کانام الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺنہیں تحریک لبیک پاکستان رجسٹرڈکیاگیاہے ۔لبیک یارسول اللہ ﷺ نام اندراج کروانے کی اجازت نہیں ملی ۔ تصورکریں لبیک یارسول اللہ ﷺ اورلبیک پاکستان میں کتنافرق ہے ؟ اسلامی پاکستان میں لبیک یارسول اللہ ﷺ نام کااندراج جائز نہیں ہے ۔ مگراس کے باوجودعلامہ صاحب کے رفقاءنے ان سے پوچھے بغیراور علامہ صاحب کے علم میں لائے بغیر اس نام تحریک لبیک پاکستان سے پارٹی کااندراج کروالیا۔ یہ سمجھوتے کے دورکاآغازہے جولڑکیاں آج الیکشن مہم میں کسی نامحرم سے بات نہیں کریں گی وہ اس نظام میں رہتے ہوئے ان شاءاللہ ضرور نامحرم سے بات کریں گی بلکہ ہوسکتا ہے مزیدپچاس سال بعد وہ مرکزی شوری میں نامحرموں کے ساتھ بیٹھی ہوں ۔آگے آگے کیاہوگا اگراس کا تصور کرناہے حضرت والا کو ، تووہ حسین احمدمدنی کے وارث مفتی محمودکی پارٹی جمعیت علماءاسلام کاآج حال دیکھ لیں۔ یہ بات کوئی رازنہیں ہے ۔جولوگ الیکشن کے ذریعے نظام بدلنے نکلے تھے سترسالوں میں اس نظام نے ان سے ان کے اکابرین کے اصول ،وراثت اورروایات تک چھین لی ہیں۔اگلے سترسالوں بعد یہ جماعتیں کہاں ہونگی ،انجام سوچ کرڈرلگتاہے ۔

حصہ
احمد اعوان اسلامی تاریخ، فلسفہ، جدیدیت، سیاست، خواتین کے حقوق، انسانی حقوق، ماڈرن اسٹیٹ اور سماجی مسائل جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ موصوف نے جامعہ کراچی سے اسلامی تاریخ میں ایم اے مکمل کرنے کے بعد ایس ایم لاءکالج سے ایل ایل بی مکمل کیا۔ پیشہ ور وکیل ہیں اور ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کے لیگل ایڈوائزر ہیں۔ ahmedawan1947@gmail.com

جواب چھوڑ دیں