دنیا کی ٢٣ روایتی، الہامی دینی تہذیبوں میں انسان عبد تھا۔ وہ جو اس نیلی کائنات میں خدا کے آگے سر بسجود ایک ہستی تھا جو اپنی آخرت کی اصلاح کے لیے فکر مند اور مستقبل کی حقیقی زندگی کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں جدیدیت کی آمد کے بعد یہ عبد جو بندگی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا یکایک آزاد ہوگیا (Mankind( بندے سے آزاد فرد (Human being( ہوگیا یہ اصطلاح بھی صرف اس کے حیاتیاتی وجود کی علامت تھی لہٰذا اس کے سیاسی وجود کی وضاحت کے لیے Citizen کی اصطلاح استعمال کی گئی جو خود مختار مطلق Soveriegn ہوتا ہے۔ اسی آزاد خود مختار وجود کے لیے ایک ایسی ریاست قائم کی گئی جو Re-public کہلائی۔ ایسی ریاست جہاں عوام کا حکم ارادہ عامہ (General will( کے تحت چلتا ہے۔ اس کے سوا کسی کا حکم چل نہیں سکتا۔ اگر کسی ریاست میں کسی اور کا حکم بہ ظاہر چل رہا ہے تو اس حکم کے چلنے کی اجازت بھی عوام کی اجازت سے ملی ہے اور یہ اجازت مطلق نہیں ہے حاکم حقیقی (عوام( اس اجازت کو جب چاہیں منسوخ کرسکتے ہیں مثلاً پاکستان کے دستور آئین میں اللہ کی حاکمیت کو سب سے بالاترحاکمیت کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
اصولاً منشور بنیادی حقوق کے تحت ایسی حاکمیت کو قبول نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستانی معاشرہ ابھی جدید نہیں ہوسکا ابھی روایات اور مذہب کے شکنجوں میں ہے لہٰذا مجبوراً مذہب کو بھی عوام کی اجازت سے دستور میں عارضی طور پر حاکمیت دی گئی ہے مگر یہ حاکمیت حتمی نہیں عوام جب چاہیں کثرت رائے سے حاکمیت الہ کی اس شق کو منسوخ کرسکتے ہیں۔ 2009ء میں یہ حادثہ ہوچکا ہے جب ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں دستور سے خدا کی حاکمیت کی شرط ختم کرنے کے لیے قرار داد پیش کی قرارداد کی مخالفت پاکستان پیپلز پارٹی نے کی۔ رائے شماری ہوئی تو خدا کی حاکمیت دو ووٹوں کی برتری سے برقرار رہی۔ ایک پاکستانی اخبار نے سرخی لگائی “خد ا کی حاکمیت دو ووٹوں کی اکثریت سے بچ گئی” جدید انسان قائم بالذات، فاعل مختار مطلق، ہدایت میں خود کفیل، خارجی ذریعۂ ہدایت سے بے نیاز اور ماوراء اپنے فیصلے خود کرنے کا حقیقی مجاز، ہر خارجی بیرونی ذریعۂ علم کی حاکمیت و رہنمائی سے ماورائ، خیر و شر خلق کرنے کا اختیار رکھنے والی ہستی، ہر ایک کی عبادت سے بے نیاز اپنے معبد میں خوداپنی عبادت میں مصروف لا فانی، نورانی، حیوانی وجود ہے۔ لہٰذا جدیدیت میں صرف انسان ہی اصل حقیقت اصل وجود ہے کیونکہ اس کے وجود میں شک نہیں کیا جاسکتا وہی مرکز کائنات ہے کیونکہ یہ خدا مرکز کائنات نہیں یہ کائنات بھی انسان کے لیے ہے۔ ٹائن بی کے الفاظ میں حقیقت کے ادراک کے دوطریقے ہیں ایک سائنسی (Scientific trust( دوسرا شاعرانہ یا پیغمبرانہ(Poetic truth( پہلے طریقے سے علم مشاہدے تجربے سے ملتا ہے دوسرے طریقے سے ملنے والا علم محض شاعرانہ حقیقت ہے۔ ٹائن بی کے خیال میں لاشعور کی شاعرانہ سطح پر قابل فہم مشاہدہ کا نام ہی پیغمبری ہے۔ جدید انسان صرف وہ ہے جو حسی، تجربی، اختیاری سائنسی ذریعۂ علم پر یقین رکھتا ہے اور غیر حسی، غیر تجربی، غیر طبعی، ما بعد الطبیعیاتی، الہامی مذہبی ذرائع سے ملنے والے علم کو جہل، ظلمت و گمراہی تصور کرتا ہے کیونکہ ان ذرائع سے ملنے والے علم کی تصدیق تجربہ گاہ میں آلات سائنس سے نہیں ہوسکتی لہٰذا یہ تمام علوم جہالت میں شمار ہوتے ہیں جدید انسان وہ ہے جو ان جہالتوں سے ماوراء ہے اور خیر و شر کے پیمانے خود خلق کرتا ہے کسی الہامی روایتی دینی علم سے پیمانے اخذ نہیں کرتا اس لیے جدیدیت تاریخ کا انکار کرتی ہے سترہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو تاریخ کا تاریک ترین زمانہ (Dark ages( قرار دیتی ہے جدیدیت ماضی کا انکار کرنے کے باوجود ماضی سے کلاسیک کے نام پروہ تمام تصورات نظریات عقائد قبول کرتی ہے جو اس کی ابلیسیت سے ہم آہنگ ہیں مثلاً وہ یونان سے ارسطو کا نظریۂ ابدیت دنیا لے کر آخرت کا انکار کرتی ہے۔ سترہویں صدی سے پہلے کے انسان کو انسان تسلیم نہیں کرتی جدیدیت کے خیال میں اصل انسان تو روشن خیالی کے فلسفے کے بعد ظہور پذیر ہوا۔ جدید انسان ہی حقیقی معنوں میں صاحب علم ہستی ہے جو روشنی سے منور ہے کیونکہ اس نے جہالت کی تاریخ کا انکار کرکے مذاہب سے بغاوت کرکے اپنے لیے زندگی کا راستہ اپنی ہی روشنی اپنی ہی رہبری و رہنمائی میں خود طے کرنے کا فیصلہ کیا ۔نشاة ثانیہ، روشن خیالی، جدیدیت انسان کی اسی خود کفالت، فارغ البالی، خود انحصاری، خود مختاری اور آزادی کامل کا نام ہے جدید انسان کو زندگی کا سفر طے کرنے کے لیے اپنے سواکسی اور ذریعہ سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جدیدیت، جدید انسان کا یہ دعویٰ کہ عقلیت آفاقی ہوتی ہے اور عقلیت کی بنیاد پر آفاقی اقدار آفاقی نظام آفاقی اخلاقیات وضع کی جاسکتی ہے پس جدیدیت (پوسٹ ماڈرن ازم( نے رد کردیا اس نے بتایا کہ عقل اپنی تاریخ تہذیب ثقافت میں محصور و مقید مسدود محدود ہوتی ہے مغرب میں اب اس رائے پر عمومی اتفاق ہے اس موقف کی تفصیلات کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کو دیکھیے:
- Towards the understanding of Rationality Habermass.
- Reading in the philosophy of social science.Mclntyre J. Gray.
- Madness and civilization Focault.
- False Dawn J. Gray.
- Enlightement wake. J.Gray
- contegency, Irony and Solidrity Rorty.
- Hideger and Progress Rorty.
- Relativity objectivity philosophical papers vol II Rorty.
جدیدیت مغربیت، جدید انسان، جدید فلسفے، جدید تعقل غالب کو سمجھنے کے لیے افلاطون و ارسطو، ڈیکارٹ، ہیوم، کانٹ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔
ہیوم اور کانٹ نے جدیدیت کے فکری اور عملی تسلط میں مرکزی کردار ادا کیا ہے کانٹ کا کمال یہ ہے کہ اس نے عقلیت اور تجربیت کو ملا کر جدید سائنسی انقلاب کی فکری اساس کو ممکن بنایا اور سائنسی طبعی تجربی علمیت کو ہی اصل العلوم قرار دے کر ان تمام علوم کو دائرے سے خارج کردیا جو عقلیت اور تجربیت کے مادی حسی طبعی معیارات پر پورا نہیں اترتے اس طرح جدیدیت نے تمام ما بعد الطبیعیاتی سوالات کا انکار کردیا اور ایک نئی ما بعد الطبیعیات جنم دی جو علمیت (Epistomology( سے ما بعد الطبیعیات(Metaphysics( نکالتی ہے۔ لہٰذا ڈیکارٹ، ہیوم اور کانٹ کی علمیت سے جو ما بعد الطبیعیات نکلی وہ ہائیڈیگر کے الفاظ میں حاضر و موجود کی مابعد الطبیعیات Metaphysic of Presence تھی۔
جدیدیت کو سمجھنے کے لیے جدید تصور نفس، جدید شخصیت، جدید معاشرت، جدید ریاست، جدید ما بعد الطبیعیات کے نظریات سے واقفیت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدیدیت اور جدید انسان کی پیدائش کا تاریخی پس منظر جاننا بھی ضروری ہے وہ کون سے تاریخی عوامل و اسباب تھے جنہوں نے جدیدیت اور آزادی کے عقائد کو ابھرنے پنپنے کا موقع دیا۔ روایتی معاشرہ کمرشل معاشرے میں کیسے تبدیل ہوا کا مرس اور لبرٹی کے تصورات نے روایتی زندگی پر کیا اثرات ڈالے۔ جمہوریت، سرمایہ داری، بنیادی حقوق کے قافلے کس طرح وجود میں آئے۔ جدیدیت سے پہلے مغرب عیسائیت کی آغوش میں تھا لہٰذا جدیدیت کے ظہور، فروغ اور ارتقاء کو سمجھنے کے لیے، عیسائیت کی تاریخ کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے۔ عیسائیت میں مذہب اور ریاست کی تفریق تھی کیونکہ عیسائیت کے پاس شریعت نہیں تھی لہٰذا عیسائی رومن ایمپائر نے ریاست کے لیے قوانین رومی قوانین سے لیے رومة الکبریٰ دو حصوں میں تقسیم تھی شہر خدا City of God اور شہر انسان City of man ۔ ایک جگہ خدا کا یعنی انجیل کا کلیسا کا اور پوپ کا حکم چلتا تھا دوسری جگہ ریاست جہاں بادشاہ کا رومی قانون چلتا تھا۔ پوپ زمین پر خدا کا نمائندہ تھا لہٰذا اس کی رائے مذہبی معاملات میں قطعی حتمی رائے تھی اس رائے سے کسی کو اختلاف کی اجازت نہ تھی لہٰذا عیسائیت میں کسی مذہبی مکتب فکر کو پنپنے کی اجازت نہیں دی گئی جس مکتب فکر نے پوپ کی رائے سے اختلاف کیا اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ کلیسا نے رومی ریاست کے انتظامی ڈھانچے کی اتباع میں اپنے مذہبی ڈھانچے کو رومی بیوروکریٹک اسٹرکچر میں تبدیل کردیا پادریوں کے مناصب مرتبے قائم کردیے گئے ان مناصب سے گزر کر ہی سب سے اونچے منصب پوپ تک کوئی پہنچ سکتا تھا لہٰذا پادریوں میں دائمی مسابقت پیدا ہوگئی۔ گیارہویں صدی میں پوپ گریگوری VII Pope Gregoryکو جب اپنے اقتدار کی گرفت کمزور محسوس ہوئی اور اسے اندازہ ہوا کہ فرانس، جرمنی، برطانیہ کی بادشاہتیں آزاد ہونے کی کوشش کررہی ہیں تو اس نے ان ریاستوں کی بغاوت کو کچلنے کے بجائے بغاوت کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ کر عالمی صلیبی جنگوں کا آغاز کرادیا اس نے تمام عیسائی بادشاہتوں کے سامنے امت مسلمہ کا نام نہاد خطرہ دکھا کر ان سب کو عظیم مذہبی جنگ پر آمادہ کیا ان جنگوں کے لیے سرمایہ بادشاہوں نے کلیسا سے سود پر حاصل کیا جس نے کلیسا کے تقدس کو نقصان پہنچایا یہ مذہبی جنگ پانچ سوسال تک جاری رہی جس میں تمام یوروپی بادشاہوں کے کئی سو بیٹے بھانجے بھتیجے عیسائی مذہبی ریاست کے غلبہ کی راہ میں مارے گئے اس طرح پوپ نے پانچ سو سال تک عالمگیر جنگ برپا کراکے کلیسا کے خلاف بغاوت کا رخ عالم اسلام کے خلاف موڑ دیا Jonathan Lyons کی کتاب Islam through western Eyes کے باب سوم کا مطالعہ پوپ کے بارے میں صلیبی جنگوں کے حوالے سے چونکانے والے انکشافات کرتا ہے۔
THE WESTERN IDEA OF ISLAM
In a separate appeal dated March 1, 1074, to “all who are willing to defend the Christian faith;’ the pope reports that a visitor from “the lands beyond the seas” had informed him that “a race of pagans has strongly prevailed against the (Eastern( Christian empire and with pitiable cruelty has already almost up to the walls of the city of Constantinople laid waste and with tyrannical violence seized everything; it has slaughtered like cattle many thousand Christians” (2002:55(. This statement was almost surely a belated reference to the decisive defeat of the Byzantines at Manzikert two and a half years earlier at the hands of the Muslim Seljuq Turks. A further sense of the pope’s military ambitions may be seen in a letter to Henry IV of Germany three months later. Gregory here announces that he has already succeeded in rousing “Christians everywhere. . . that they should seek by defending the law to lay down their life for their brothers.” He says that fifty thousand “men from Italy and from beyond the Alps” are ready to march at his command, and he asks Henry to safeguard the church during his planned absence (123(. According to traditional historical accounts, Pope Gregory’s general commitment to the idea of holy war, his zeal in expanding papal prerogatives by force if necessary, his emphasis on indulgence for Christian holy warriors, his desire to extend Rome’s influence eastward, and his denunciations of pagans and Saracens alike cast him in the role of father of the anti-Muslim Crusades launched two decades later by Pope Urban II (r. 1088-1099(, his former aide and protege. The literature on the origins of the Crusades is, of course, extensive. Writing in the eighteenth century, Edward Gibbon (1910:6, 35( sees Gregory as animating the entire enterprise against the Muslims. Steven Runciman’s classic History of the Crusades praises the pope’s “imaginative statesmanship” in laying out the new policy of holy warfare (1951-1954, 1:99(. Recent studies take a somewhat more measured and nuanced view (Riley-Smith 1986; Asbridge 2004; Tyerman 2006(.
Gregory VII, then, becomes a significant link in a logical-and chronological-chain of events culminating in Urban’s call to the anti-Muslim Crusade. in November 1095 in the French town of Clermont. Thus Jonathan Riley Smith opens The First Crusade and the Idea of Crusading with the following summary of Western historical consensus: “There is general agreement that the (First( Crusade was the climacteric of a movement in which the eleventhctentury Church reformers, locked in conflict with ecclesiastical and secular opponents, turned to the knights of the Christian West for assistance. Pope Urban’s message to the faithful at clermont is believed to have been the synthesis of ideas and practices already in existence-holy war, pilgrimage, the indulgence” (1986:1(.
On the level of archaeological analysis, however, things look quite different, especially if, following Michel Foucault, we suspend the overriding search for historical unities. First of all, we can see from his official correspondence that Gregory VII is clearly casting the Saracens as a threat to individual Christians-even “many thousand Christians” -but never as an existential danger to Christendom as whole. Second, he is often confused about the nature of the enemy and assigns the adversary, whether described as “pagan” or “Saracen,” no particular ideological content beyond a general hostility to Christian interests. For example, he accuses the “pagans” who now rule most of Spain of “ignorance of God” (1990:6-7(, clearly not recognizing their direct religious and ethnic affinities with the Muslim Arabs and Berbers of North Africa, home to his interlocutor Anazir.
More confusion arises when we see how Gregory elsewhere distinguishes Saracens and pagans as he bemoans the levels to which the church has sunk of late: “Its ancient colors are changed, and it has become the laughingstock, not only of the Devil, but of Jews, Saracens, and pagans” (1990:195(. He is also more than prepared to paint rivals closer to home-the Normans, the Lombards, or even the troublesome citizens of his adopted Rome-as far greater concerns than any pagan or Saracen and to blame Europe’s secular rulers for fostering a culture of violence, instability, and war for profit: But now everyone, as if smitten with some horrible pestilence, is committing every kind of abominable crimes without any impelling cause. They regard neither divine nor human law; they make nothing of perjury, sacrilege, incest or mutual betrayal. Fellow citizens, relatives, even . brothers, capture one another for the sake of plunder, extort all the property of their victims and leave them to end their lives in misery, a thing unknown anywhere else on earth. Pilgrims going to or returning from the shrines of the Apostles are captured, thrust into prison, tortured worse than by any pagan and often held for a ransom greater than all they have. (39-40(
( Jonathan Lyons, Islam Through Western Eyes: From the Crusades to the war on Terrorism, Chapter 3, page 46 and 47, 2012, Columbia Press, USA. New York(
عیسائی دنیا پر پوپ کے ظلم و تشدد inquisition، جادو گری کے الزام میں ہزاروں عورتوں کے قتل عام وغیرہ کے نتیجے میں جرمنی میں پروٹسٹنٹ ازم کا ظہور ہوا کیلون ازم اور پیورٹن ازم برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ میں کیتھولک کلیسا کی حاکمیت کے خلاف بغاوت کے مظاہر تھے اس کے نتیجے میں پورے یورپ میں عیسائی مذہبی فرقوں کے درمیان سالہا سال تک خوفناک مذہبی جنگیں ہوئیں اسی عہد میں قوم پرست ریاستوں کا ظہور ہوا اور قومی چرچ بھی وجود میں آنے لگے کلیسا کی عالمی حیثیت مجروح ہوئی مذہبی بنیاد پر ریاستوں کے خاتمے کا معاہدہ آگیا مذہبی جنگیں بند ہوگئیں۔
سولہویں صدی میں یوروپی عیسائی حکومتوں نے پوری دنیا پر یلغار کی اور دنیا کے بہت بڑے حصہ کو غلام بنالیا۔ کولونیل ازم کے ذریعے یوروپ میں سونے کے دریا بہنے لگے، مال و دولت کا سیلاب آگیا اسی سیلاب نے جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے وسائل کا انبار مہیا کردیا اور ایجادات کے فکری و نظری انقلاب کو عملی انقلاب میں تبدیل کردیا۔ عیسائی یوروپی جب دنیا بھر کو تاخت و تاراج کررہے تھے تو کلیسا نے انہیں کوئی سرزنش نہیں کی کلیسا کی جانب سے لوٹ مار کی اس حرام دولت پر کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا یوروپ کے تقریباً ہر گھر نے لوٹ مارکی اس دولت سے استفادہ کیا۔ سرمایہ دارانہ شخصیت، معاشرت، حکومت، ریاست کی تعمیر میں لوٹ مار کی اس دولت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جب وہ شخصیت، انفرادیت، معاشرت، ریاست، حکومت وجود میں آگئی جس کا اصل سبب پوپ اور چرچ کی غفلت تھا تو لبرل انقلاب نے عیسائی مذہبی حاکمیت کے خلاف زبردست بغاوت کردی دنیا دار دین کی پابندیاں کیسے برداشت کرسکتا ہے جب کلیسا نے لوگوں کے دنیا دار بننے پر کسی رد عمل، افسوس، دکھ کا اظہار نہیں کیا تو اس نے لوگوں کی گناہ گار زندگی کو عملاً سند جواز مہیا کردی……. انہیں لبرل آزاد خیال…… اخلاقیات سے بے پروا بنانے میں کلیسا نے مجرمانہ کردار ادا کیا اگر ہیبر ماس کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو گرجا کی خاموشی مجرمانہ خاموشی (Criminal Silence( تھی۔ امریکہ و یوروپ کے لوگ روحانی طور پر دیوالیہ ہوچکے تھے کالونیل ازم کے ذریعے ان کے ضمیر سیاہ، غیرت، مذہب اخلاق سے محروم ہوگئے تھے جبر و تشدد اور دوسری قوموں پر بہیمانہ مظالم نے ان کی عیسوی مذہبی شناخت انفرادیت، مذہبیت، کو پارہ پارہ کردیا تھا مگر تاریخی روایتی طور پر وہ عیسائی ہی تھے لیکن ان کا طرزِ فکر، طرزِ حیات بدل چکا تھا اور کیتھولک عیسائی اخلاقیات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھا لہٰذا اس خلاء کو جدید فلسفے نے پُر کردیا اور گناہ گار، خبیث زندگی کا، اخلاقی، علمی، منطقی، فلسفیانہ، عقلی جواز “آزادی” کے فلسفے کے ذریعے دیا گیا اس بدلے ہوئے انسان کی نفس پرستی کا مذہبی جواز پروٹسٹنٹ ازم نے دیا اور اس جدید مادہ پرست مذہب کی روشنی سے استفادہ کرتے ہوئے اسکاٹش انلائٹنمنٹ نے ارتکاز سرمایہ اور سرمایہ میں مسلسل اضافے کا فلسفیانہ جواز مہیا کیا تاکہ آزادی و لذت میں اضافہ کیا جاسکے۔ حالات ساز گار تھے موسم اچھا تھا لہٰذا آزادی، بے راہ روی، عقلیت پرستی، لذت پرستی، شہوت اندوزی نے مغرب کے تمام علاقوں میں جڑ پکڑ لی یہی جدیدیت کا تاریخی ارتقاء ہے جدیدیت کے وجود اس کے ارتقاء اور اس کے اظہار کے پس منظر کو جانے بغیر ہم جدیدیت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوسکتے۔
جدیدیت کے دو بڑے اور اہم ترین مظاہر کانٹ اور اسکاٹش انلائٹنمنٹ ہیں جدیدیت کے فکر کو کانٹ کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا ان دونوں مظاہر پر اصل غلبہ پروٹسٹنٹ ازم کا ہے کانٹ پروٹسٹنٹ عیسائی تھی اور اسکاٹش انلائٹنمنٹ بھی پروٹسٹنٹ ازم کے زیر اثر تھی جس کے ذریعے جدید معاشیات (ماڈرن اکنامکس( کا ظہور ہوا۔ اسکاٹش انلائٹنمنٹ کے ذریعے سادگی، فقر، درویشی، دنیا سے گریز اور کم سے کم تمتع کی تاریخی روحانی صفات کو قابل ملامت بنادیا گیا بہترین آدمی وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ دولت رکھتا ہے لہٰذا جینٹل مین (Gentle man( اسکاٹش انلائٹنمنٹ میں اس شخص کو قرار دیا گیا جو دولت مند ہو یہ سبق پروٹسٹنٹ ازم نے دیا تھا کہ جو دنیا میں کامیاب ہے وہی آخرت میں بھی کامیاب ہوگا جو یہاں ناکام ہے اس کا آخرت میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے لہٰذا جدید معیشت نے انسان کا جو تصور پیش کیا وہ خالص مادہ پرستانہ ہے جس کا مقصد اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ ہے تا کہ اس سے وہ زیادہ سے زیادہ خواہشات پوری کرکے اپنی آزادی میں اضافہ کرسکے زندگی کے ہر شجر سے خوشی کے خوشے چن سکے اس کا مقصد لذت، معیار زندگی، میں مسلسل اور مستقل اضافہ ہے۔ اسی لیے جدیدیت میں سرمایہ اور آزادی لازم و ملزوم ہیں سرمایہ آزادی کے براہ راست متناسب ہے سرمایہ جتنا بڑھتا ہے آزادی کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہوتا ہے آزادی کے دائرے کی وسعت لامحدود ہے کیتھولک ازم فقر وفاقہ، درویشی، رہبانیت، سادگی اور سیدھی سادی زندگی کو حضرت عیسیٰ اور دیگر انبیاء کی اتباع میں قابل فخر طرز زندگی کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن کالونیل ازم کے بعد جب یوروپی لوگوں کا طرز زندگی، معاشرت، انفرادیت تبدیل ہوئی تو ان کی گناہگار زندگی کیتھولک ازم کے بجائے پروٹسٹنٹ ازم سے ہم آہنگ ہوگئی لہٰذا لوگ یا تو دہریے، ملحد مذاہب سے آزاد ہوگئے یا کیتھولک ازم سے نکل کر لوتھر کی عیسائیت میں داخل ہوگے جہاں ہر شخص کو انجیل کی تشریح کا اختیار تھا کیتھولک کلیسا کی غفلت، لا پرواہی اور کالونائزیشن کے خلاف دانستہ خاموشی نے آزادی، ترقی اور معیار زندگی میں مسلسل و مستقل اضافے کی اقدار کو یورپ کے عیسائیوں کے لیے ایک فطری طرز زندگی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
جدیدیت کے اہم مفکرین ڈیکارٹ، اسپینوزا، لائبنز، لاک، برکلے، ہیوم، ہیگل مارکس، فخٹے، روسو، والٹیر، ٹاکو ویلی ہابس، کانٹ وغیرہ ہیںکانٹ نے ہیوم سے اثر پذیر ہو کر تجربیت و عقلیت کے آمیزے سے وہ فلسفہ علم پیش کیا جس کے نتیجے میں سائنٹفک میتھڈ کے معیار پر نہ اترنے والے علوم علم کی اقلیم سے خارج کردیے گئے اس نے ما بعد الطبیعیات کا انکار نہیں کیا صرف یہ کہا کہ ہمارے پاس وہ ذرائع اسباب وسائل ہی نہیں ہیں جن سے ہم ماوراء طبیعیاتی امور تک رسائی حاصل کرسکیں۔ جدیدیت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔
1) The dilecties of Enlightement Adarno
2) One dimensional man. Marcuse
3) what is enlightement. Kant (Article(
4) What is enlightenment? Focault (Article(
5) Cultural Contradictions of Capitalism Danial bell
6) The betrayal of Tradition Hana Arent.
اٹھارہویں صدی سے پہلے دنیا قدیم تھی جو اٹھارہویں صدی کے بعد ایک دم جدید ہوگئی اس جدید دنیا کے بنیادی اعتقادات، نظریات، ایمانیات کیا تھے مختصراً دیکھ لیتے ہیں۔
جدید انسان اٹھارہویں صدی سے قبل/جدید انسان اٹھارہویں صدی کے بعد
1۔ ہر تہذیب کا انسان کسی نہ کسی بالاتر و برتر اعلیٰ ہستی کی پرستش کرتا تھا۔ / اب انسان خود اپنی پرستش کرنے لگا۔
2۔ علم باہر سے، خارجی ذریعے سے، روایت سے، وحی سے یا آسمان سے آتا تھا۔ / علم خود انسان سے عقل سے میسرآنے لگا۔
3۔ انسان علم کے لیے خارج کا محتاج تھا۔ / انسان علم کے لیے کسی خارج کا نہیں صرف داخل کا، عقلیت کا محتاج ہے۔
4۔ کائنات خدا کا مرکز تھی۔ / کائنات انسان کا مرکز ہوگئی۔
5۔ اصل علم حقیقت الحقائق کا علم تھا۔ / اصل علم سرمایے میں اضافے کا علم قرار پایا۔
6۔ ما بعد الطبیعیات پہلے تھی علمیت مابعد الطبیعیات سے نکلتی تھی۔ / علمیت پہلے آگئی کہ ہمارے ذرائع علم کیا ہیں اور ہم ان سے کیا جان سکتے ہیں کیا نہیں جان سکتے اس علمیت سے ما بعد الطبیعیات نکالی گئی لہٰذا ما بعد الطبیعیات کا علم علمیت کے دائرے سے باہر ہوگیا اور جہالت شمار کیا گیا۔
7۔ انسان روشنی رہنمائی کے لیے خارج، آسمان، وحی، نبی، بڑے آدمی کی طرف دیکھتا تھاکیونکہ ہر آدمی علم میں خود کفیل نہ تھا۔ / انسان اپنی رہنمائی کے لیے صرف اپنی طرف دیکھنے کا پابند ہوا تمام خارجی ذرائع علم لا یعنی ٹھہرے انسان پیغمبر باطن کے ذریعے ذاتی علم میں خود کفیل ہوگیا۔ ریاست کا علم فلاسفہ سے لینے لگا۔
8۔ ما بعد الطبعیات کا علم اہم ترین تھا۔ / اب طبیعیات کا علم اہم ترین ہوگیا۔ لہٰذا Metaphysics of Presence وجود میں آئی۔
9۔ دنیا غیر اہم آخرت سب سے اہم تھی۔ دنیا کو انسان آخرت کی کھڑکی سے دیکھتا تھا۔ / صرف دنیا اہم تر ہوگئی آخرت خارج ہوگئی خدا ختم کردیا گیا مذاہب کو جہالت قرار دیا گیا۔
10۔ علم اور زندگی کا مقصد آخرت میں کامیابی تھا۔ / علم اور زندگی کا مقصد صرف اور صرف دنیا میں کامیابی رہ گیا۔
11۔ انسان خدا کی عبادت کرتا تھا۔ اس کے لیے عبادت گاہ جاتا تھا۔ / اب انسان خود اپنی عبادت کرنے لگااور کسی عبادت گاہ میں جانے کی ضرورت نہ رہی۔
12۔ انسان علوم نقلیہ کو اہم علوم عقلیہ کوغیر اہم سمجھتا تھا علوم عقلیہ یعنی مال کمانے کے علم کو علوم کی تلچھٹ سمجھا جاتا تھا۔ مال جمع کرنا زیادہ سے زیادہ تمتع فی الارض کرنا غیر اخلاقی کام تھے ہر تہذیب کے بڑے لوگ انبیائ، فلاسفہ ،علماء سادہ فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے فقر پر فخر کرتے تھے۔ / صرف علوم عقلیہ اہم قرار پائے سب سے اہم علم وہ جس سے سب سے زیادہ مال کمایا جاسکے مذہب، علوم نقلیہ علوم کی تلچھٹ میں بھی شمار نہیں کیے گئے انھیں علم کے دائرے سے باہر نکال دیا گیا۔ اعلیٰ معیاری عالیشان زندگی گزارنا اصل مقصد ہوگیا۔
13۔ علم کی بنیاد یقین تھی۔ / علم کی بنیاد ڈیکارٹ کے بعد شک پر رکھی گئی ایسا طریقہ علم جو شک سے یقین تک پہنچائے لہٰذا ڈیکارٹ کے بعد تمام فلسفی ریب و شک میں ہی گرفتار رہے۔
14۔ ما بعد الطبیعیات پانچ بنیادی سوالات سے بحث کرتی تھی۔ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کہاں جاؤں گا، مجھے کس نے پیدا کیا، میرا انجام کیا ہے؟ / ما بعد الطبیعیاتی سوالات کی جگہ حاضر و موجود دنیا کی ما بعد الطبیعیات Metaphysic of Presence آگئی۔
15۔ حفظ مراتب کی تہذیب تھی مراتب وجود متعین تھے مغربی مساوات نہ تھی۔ / فرد آزاد ہوگیا سب افراد مساوی ہوگئے۔ کسی کے لیے تکریم باقی نہ رہی۔
16۔ ترقی معیار زندگی میں اضافہ قابل قدر کام نہیں تھے۔ / ترقی اور معیار زندگی میں اضافہ ہی اصل قابل قدر کام قرار پائے۔
17۔ نفس انسانی روحانی Soul تھا۔ / نفس انسانی میں Soul کی جگہ اسپرٹ، مائنڈ، شعور، ذہن، سائیکی نے لے لی۔
18۔ علمی تناظر بتاتا تھا کہ حقیقت کا ڈھانچہ موجود ہے ہمارا ذہن اگر اسے اسی طرح پہچان لے جیسا کہ حقیقت ہے تو ہم حقیقت کو پہچان لیں گے حقیقت موجود ہے انسان خالق حقیقت نہیں نہ حقیقت خلق ہوسکتی ہے۔ / کانٹ نے بتایا کہ حقیقت کا کوئی ڈھانچہ کائنات میں موجود نہیں اصل حقیقت تو میرا ذہن ہے جو حقیقت کو ڈھانچے مہیا کرتا ہے۔ انسان حقیقت کا حامل ہی نہیں حقیقت کا خالق و عالم بھی ہے میں جو خلق کرتا ہوں وہی حقیقت ہے میں دنیا کو ویسا بنادوں گا جیسا بنانا چاہوں گا۔
19۔ دنیا عارضی تھی۔ / دنیا ابدی (Eternal( ہوگئی۔
20۔ لوگ خدا کی پرستش اور آخرت کی جستجو کرتے تھے۔ / لوگ اپنی پرستش اور سرمایہ و دنیا کی جستجو کرنے لگے۔
21۔ انسان تسخیر قلوب کرتا تھا۔ / انسان تسخیر کائنات میں مصروف ہوگیا۔
22۔ خیر و شر کے پیمانے متعین تھے۔ / خیر و شر ذہن انسانی عقلیت سے دریافت کرسکتا ہے ہر زمانے کے خیر و شر مختلف ہوسکتے ہیں۔
23۔ خدا کو تسلیم کرنے کے باعث لوگ ثواب اور عذاب کے قائل تھے گناہ کا وجود تھا اور ہر گناہ Guilt خلش ہوسکتا تھا۔ / خدا کو خارج کردیا گیا تو گناہ و ثواب بھی بے معنی ہوگئے گناہ Sin کی جگہ Guilt خلش نے لے لی۔ واضح رہے کہ ہر خلش گناہ نہیں ہوتی۔
24۔ گناہ گار لوگ نیک لوگوں سے رجوع کرتے تھے اور اعتراف گناہ کرتے تھے عبادت گاہ مثلاً کلیسا جاتے تھے وہاں عالم موجود ہوتا تھا۔ / خلش میں مبتلا لوگ کلیسا کے بجائے نفسیاتی ماہرین اور ان کے کلینک سے رجوع کرنے لگے دین کے عالم کی جگہ یہاں سائیکو تھراپسٹ آگیا۔
25۔ عورت حیا دار تھی عفت و عصمت اس کا زیور تھا۔ / حیاء کی جگہ شرم (Shame( اور خلش (Guilt( نے لے لی۔ حیاء (Modesty( تہذیب سے خارج ہوگئی۔
26۔ آزادی معیار، منہاج اور قدر نہیں صرف صلاحیت تھی۔ / آزادی معیار، منہاج، قدر، اصول، عقیدہ اورایمان بن گیا۔
27۔ انسان اقدار و روایات، اساطیر، الہام، وحی، مذہب، اتھارٹی کا پابند تھا۔ / انسان پبلک لائف میں صرف ارادہ عامہ General will کا تابع ہوگیا اور ذاتی زندگی کے دائرے میں مطلق آزاد خود مختار ہوگیا۔
28۔ بندگی قدر تھی لوگ عبد تھے کسی کو جواب دہ تھے۔ / آزادی قدر ہوگئی لوگ خود خدا ہوگئے اور کسی کو جواب دہ نہیں رہے۔
29۔ علوم نقلیہ کو عروج ملا عالم وہ کہلاتا تھا جو حقیقت الحقائق اور ما بعد الطبیعیات کا عالم ہو۔ / علوم عقلیہ کو رواج ملا عالم وہ کہلایا جو زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکے سب سے زیادہ پیسہ سٹے باز، بینکر، اور تفریحات فلم کی صنعت کے لوگ کماتے ہیں۔
30۔ لوگ خدا کی معرفت، قربت، خوشنودی کو سب سے اہم کام سمجھتے تھے۔ / لوگ دولت سرمایہ کے حصول اور خواہش نفس کی تکمیل کو سب سے اہم کام سمجھنے لگے۔
31۔ لوگ کسی خیر کسی الحق اور نجات کے لیے جیتے تھے۔ / لوگ اب صرف خود کے لیے جیتے ہیں۔
32۔ لوگ ایثار قربانی، خدمت، محبت میں لذت محسوس کرتے تھے۔ / لوگ ان اقدار کو احمقانہ سمجھنے لگے۔
33۔ فرد خاندان، قبیلے، گروہ میں رہ کر اجتماعیت کے ذریعے اپنا اظہار کرتا تھا اس کی شناخت وہ خود نہیں تھا۔ / ہر فرد آزاد ہوگیا ہے انفرادیت پرستی نے سب کو جدا جدا کردیا اب لوگوں کی شناخت پیشے سے ہوتی ہے انجینئر، ڈاکٹر، سائنس داں، پروفیسر، ٹیچر، وغیرہ اسی لیے لوگ وزیٹنگ کارڈ مانگتے ہیں۔
34۔ عالم اسے کہا جاتا تھا جس کی صحبت میں بیٹھ کر خدا یاد آئے۔ دنیا، دنیا کی لذتیں، نعمتیں حقیر نظر آنے لگیں اور خدا کی محبت تمام محبتوں پر غالب آجائے۔ / عالم اسے کہا جاتا ہے جو دنیا کا علم سکھاسکے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے اس کے سوا تمام علوم جن سے پیسہ نہ ملے وہ جہالت قرار پائے۔
35۔ آزادی، ترقی، مال سے مال بنانا مقصد تھا نہ اصول نہ ضرورت ہر عمل کی بنیاد صرف آخرت میں نجات تھا، آزادی آخرت کی نفی ہے ترقی کا اصول نفس غیر مطمئنہ کے حصول کا سبب ہے مال سے مال بنانا نجات کے منافی تھا۔ / آزادی ترقی اور سرمایہ سے سرمایہ کمانا ہی مقصد اصول ہدف ہے ہر عمل کی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس سے آزادی میں لذت میں اضافہ ہوا یا نہیں۔
جدیدیت میں انسان پرستی کی مختلف شکلیں
انفرادی انسان پرستی Individual human worship۔ لبرل ازم، لیبریٹرین۔ اس مکتب فکر میں فرد کی آزادی کے دائرے کو وسیع کرنا سب سے اہم قدر ہے اس مکتب فکر کے یہاں آزادی کا انفرادی دائرہ اجتماعی دائرے کے مقابلے میں اہم ہے لہٰذا یہ مکتب فری مارکیٹ پر یقین رکھتا ہے۔ آزادانہ مقابلہ کا قائل ہے ہر فرد کو اس کی صلاحیت کے مطابق مارکیٹ سے حصہ ملنا چاہیے Each according to his ability اس مکتب کے یہاں منفی آزادی (Negative Freedom( کا تصور ملتا ہے۔
اجتماعی انسان پرستی Collective human worship، نیشنل ازم (قوم (۔ سوشل ازم ( کلاس( ۔ فاشزم (فرد کی پرستش اجتماعیت کے لیے (۔ریس ازم ( نسل ( ، کمیونزم (کمیونٹی ( ۔ Feminism عورت (Gender(
فاشزم اجتماعیت کی وہ شکل ہے جہاں اجتماعیت کسی ایک فرد میں حلول کرجاتی ہے فرد کی پرستش اس اجتماعیت کی راست پرستش ہے اجتماعیت کا اظہار کسی ایک فرد کی پرستش کی صورت میں ہوتا ہے جو نجات دہندہ ہوتا ہے۔ مسولینی، اسٹالن، الطاف حسین اس کی مثال ہیں۔
انسان پرستی کی یہ دونوںشکلیں اصلاً آزادی کے تصور کی دو شکلیں ہیں انفرادی آزادی جسے Negative Freedom کہا جاتا ہے دوسرا اجتماعی آزادی جسے Positive Freedom کہا جاتا ہے لبرل ازم وغیرہ منفی آزادی کے حامل ہیں جہاں فرد کو زیادہ سے زیادہ آزادی دی جاتی ہے مثبت آزادی کے حاملین میں انارکزم، فیمن ازم، نیشنل ازم، فاشزم، سوشلزم وغیرہ ہیں جہاں اجتماعیت کے ذریعے کسی گروہ یا طبقے یا صنف یا نوع یا نسل کی آزادی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
جدیدیت کے علمیاتی اظہارات
1۔ عقلیت، 2۔ تجربیت۔ دونوں کا اختلاط ہوا جس سے سائنٹفک میتھڈ لوجی نکلی جو جدیدیت کی علمی توجیہ ہے۔ 2۔ رومانی تحریک Romanticism۔ 3۔ پس جدیدیت پوسٹ ماڈرن ازم۔
جدیدیت کی ما بعد الطبیعیاتی تشریحات
Materialism – Idealism – Realism وغیرہ وغیرہ ان سب میں مشترک قدر انسان پرستی ہے under the condition of humanism ۔All isms لیکن کوئی مابعدالطبیعات علمی بنیادوں پر یقینی دعویٰ نہیں کر سکتی لہٰذا ما بعدالطبیعات کی علمی بنیاد ہی نہیں رہی۔
Meangful article