کیا پاکستان نئی ادویہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

ڈاکٹرریحان احمد صدیقی

پی ایچ ڈی ، مالیکیولر میڈیسن

        قدرت نے جہاں اس دنیا میں متعدد بیماریاں پیدا کی ہیں، وہیں اس نے اپنے کارخانے میں اس کے سد باب کے ذرائع بھی مخفی رکھے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے انسانوں کو علم کی عظیم دولت سے بھی نوازا ہے اور اسے درست سمت میں استعمال کرنے کی صلاحیت بھی عطا کی ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کے طریقوں کی دریافت کا عمل نسل در نسل پروان چڑھتا آ رہا ہے اور یہ سلسلہ آج کے زمانہ جدید تک جاری و ساری ہے۔ اس کام کا آغاز کب سے ہوا ؟ اس بات کا ذکر کہیں موجود نہیں لیکن بیماریو ں کے علاج میں نباتات بالخصوص جڑی بوٹیوں کا کردار ہمیشہ سے ہی قابل ذکر رہا ہے۔ قدرت نے ان نباتات میں ایسے جوہر پیدا کئے ہیں کہ جن کا مکمل علم ابھی تک انسانی ذہن حاصل کرنے سے قاصر رہا ہے لیکن ان کے بارے میں جاننے کی کوششیں جاری ہیں۔

        جیسے جیسے ادویات کے بارے میں انسانی علم کا ارتقاءہوتا رہا، ویسے ویسے ادویات کی تیاری اور ان کے استعمال میں جدت آتی رہی۔ مثال کے طور پر قدیم ادوار میں بیماریوں کے علاج کیلئے خام جڑی بوٹیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مختلف اجزاءکو علیحدہ کر کے استعمال کیا جانے لگا۔ پھر ان اجزاءمیں موجود مرکبات کو کیمیائی طریقوں سے علیحدہ کر کے مخصوص مرکب کو استعمال کیا جانے لگا۔ مزید ان اجزاءمیں کیمیائی تبدیلیاں کی جانے لگیں اورمختلف مرکبات کو باہم ملا کر استعمال کیا جانے لگا جیسا کہ زمانہ جدید میں کیا جا رہا ہے۔

        پودوں کے کسی مخصوص حصے جیسے پتے، پھل، پھول، بیج وغیرہ کا سائنسی طریقوں سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں سیکڑوں اور ہزاروںاقسام کے کیمیائی مرکبات موجودہوتے ہیں اور ہر مرکب (Compound) ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو کہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد مخصوص طریقے سے ایک خاص حیاتیاتی عمل پر اثر انداز ہو تا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوئی مخصوص مرکب اگر کسی ایک حیاتیاتی عمل کودرست کرتا ہے تو دوسری طرف وہ کسی دوسرے حیاتیاتی عمل پر ضمنی اثرات(Side Effects) بھی مرتب کر رہا ہوتا ہے۔ اس خامی کو دور کرنے کیلئے قدرت نے پودوں کے اس مخصوص حصے میں دوسرے کئی مرکبات پیدا کئے ہیں جوان برے اثرات کو زائل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ہردستیاب ادویات ،جو کہ مخصوص کیمیائی مرکب سے تیار ہوتی ہیں، کے کوئی نہ کوئی سائڈ ایفیکٹس ضرور ہوتے ہیں۔

        اب ایک نظر ہم ادویات کی تیاری کے مراحل پر ڈالتے ہیں جنہیں مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس بات پر تجزیہ کرنے کی کوشش کرینگے کہ کیا پاکستان نئی ادویہ کی تیاری کا حامل ملک ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس ملک میں ادویہ کی تیاری کے مراحل میں کن امور پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

        کسی ایک دواکی ایجاد اور مارکیٹ میں دستیابی تک کے مراحل میں دس سے پندرہ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور تقریباً آٹھ سو مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین، ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کی پیشہ ورانہ مہارت استعمال ہوتی ہے۔ اس پورے عمل میں ایک بلین ڈالر سے زائد رقم صرف ہوتی ہے۔ یہاں دو اصطلاحات کا جاننا ضروری ہے، ایک مرکب یا کمپاﺅنڈ(Compound) اور دوسری ڈرگ(Drug)۔ جب کوئی دوا تیاری کے مراحل میں ہوتی ہے تو اسے کمپاﺅنڈ کہتے ہیں اور جب دوا فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن( FDA)سے منظور ہو کر مارکیٹ میں آتی ہے تو اسے ڈرگ (عام فہم میں میڈیسن) کا درجہ دیا جاتا ہے۔ دوا کی تیاری کاعمل پانچ مختلف مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو ذیل میں درج ہیں:

(۱)    ڈرگ ریسرچ (Drug Research)

(۲)   پری کلیکینل اسٹڈی (Pre-Clinical Study)

(۳)   کلینیکل ٹرائلز (Clinical Trials)

(۴)   ایف ڈی اے ریویو (FDA Review)

(۵)   ایف ڈی اے پوسٹ مارکیٹ سیفٹی مانیٹرنگ(FDA Post-Market Safety Monitoring)

اب ہم تسلسل سے ان مراحل کی تفصیل کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

(۱)    ڈرگ ریسرچ (Drug Research)

        اس ابتدائی مرحلے میں کسی بیماری کے علاج کیلئے دوا ایجاد (Discover)کی جاتی ہے پھر اسے قابل استعمال بنانے کیلئے تیار (Develop)کیا جاتاہے۔ ڈرگ ڈسکوری کے مرحلے میں کسی ایک بیماری کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس بیماری کے علاج کیلئے کون سے موجودہ طریقے رائج ہیں اور انہیں کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے اس بیماری کا گہرائی میں مطالعہ کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ بیماری انسانی جسم کے کن افعال کو متاثر کررہی ہے۔انہیں افعال کو کسی دوا کا ٹارگٹ بنایا جاتا ہے تاکہ اس بیماری کا سدباب کیا جاسکے۔ ابتدائی طور پر ہزاروں کمپاﺅنڈز کی اسکریننگ کی جاتی ہے اور انہیں مختلف سائنسی ٹیسٹ سے گزارا جاتا ہے تاکہ ان کمپاﺅنڈز کا مخصوص بیماری کے خلاف اثر (Effect) معلوم کیا جاسکے۔ اس ابتدائی اسکریننگ سے گزرنے کے بعد کمپاﺅنڈز کی محدود تعداد سامنے آتی ہے جوبیماری کے خلاف مو

¿ثر کردار ادا کرتی ہے۔ پھر ان کمپاﺅنڈز کو مزید مطالعہ کیلئے منتخب کر لیا جاتا ہے۔ اب دوسرے مرحلے کی طرف آتے ہیں جسے ڈرگ ڈیولپمنٹ (Drug Development) کہا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں منتخب کردہ کمپاﺅنڈز کو مزید تجربات سے گزارا جاتا ہے ۔ ان تجربات سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ کمپاﺅنڈز کس طرح جسم میں جذب (Absorb) ہو کر مختلف حصوں میں تقسیم (Distribute) ہونگے اور خلیوں میں کس طرح تحول پذیر (Metabolize) ہوکر جسم کے کن راستوں سے ان کا اخراج (Excretion) عمل میں آئے گا۔مزید برآں یہ بھی معلوم کیا جاتا ہے کہ ان کمپاﺅنڈز کی خوراک (Dose) کیا دی جانی چاہئے اور انہیں کس طرح(مثلاًمنہ،انجیکشن یا کسی اور طریقے سے) دیا جانا چاہئے ۔ ان کے مضر اثرات(Side Effects) کیا ہونگے۔ مختلف جنس اور نسل پر یہ کمپاﺅنڈز کیسے اثر انداز ہونگے۔ دوسری ادویات اور علاج کے ساتھ ان کا باہمی عمل کیا ہوگا اور ملتے جلتے یا ہم جنس ادویات کے مقابلے میں ان کی کیا کارکردگی ہے۔ یہ تمام امور ڈرگ ڈیولپمنٹ کا حصہ ہیں۔ جب ان کمپاﺅنڈز کی ان تمام حوالوں سے جانچ پڑتال کر لی جاتی ہے تو انہیں اگلے مرحلے میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ اس مرحلے کیلئے تقریباً دو سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

(۲)   پری کلینیکل اسٹڈی (Pre-Clinical Study)

        انسانوں میں کسی کمپاﺅنڈ کے اثرات معلوم کرنے سے پہلے انہیں پری کلینیکل ٹیسٹنگ سے گزارا جاتا ہے تاکہ انسانی جانوں کے ضیاں سے بچا جاسکے۔ پری کلینیکل ٹیسٹنگ کا بنیادی مقصد یہ جاننا ہے کہ یہ کمپاﺅنڈز انسانی جسم میں سنگین مضر اثرات (Toxicity) مرتب کرنے کا باعث تو نہیں بنیں گے اور ان کمپاﺅنڈز کی Safe Doseکیا ہوگی۔ بنیادی طور پر یہ اسٹڈی دو طریقوں سے کی جاتی ہے۔ ایک In vitroےعنی جسم سے باہر کے تجربات اور دوسری In vivoیعنی جسم کے اندر کے تجربات۔ In vitro تجربات کے بھی بہت سے طریقے ہیں لیکن ان میں خلیات( Cultured Cells) کا استعمال سر فہرست ہے۔ ان تجربات میں کسی عضوءکے مخصوص خلیوں(جو کہ بیماری سے متاثر ہوتے ہیں) کو لیباریٹری میں علیحدہ کر کے ان کی افزائش کی جاتی ہے اور پھر ان پر کمپاﺅنڈز کے اثرات کا مطالعہ مختلف سائنسی اوزار اور طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر جگر کے کینسر (Liver Cancer) کا مطالعہ کرنا ہو تو جگر کے کینسر زدہ خلیات کو علیحدہ کر کے ان کی افزائش کی جاتی ہے اور پھر ان پر کمپاﺅنڈز کی اسکریننگ کی جاتی ہے۔ جو کمپاﺅنڈز کینسر زدہ خلیات کی موت کا باعث بنتے ہیں انہیں مزید مطالعے کیلئے منتخب کر لیا جاتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ کمپاﺅنڈز خلیات میں کس طرح اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں یعنی ان کا مالیکیولر میکینزم (Molecular Mechanism) کیا ہے۔ پھر ان کمپاﺅنڈز کا In vivoمطالعہ کیاجاتا ہے۔ In vivoمطالعے میں پہلے چھوٹے جانوروں یعنی چوہوں کو استعمال کیا جاتا ہے پھر بڑے جانوروں یعنی بندر، بلی، گھوڑے وغیرہ پر ان کمپاﺅنڈز کے اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ چوہوں میں In vivoمطالعہ کو سمجھنے کیلئے میں اپنے ایک پی ایچ ڈی پروجیکٹ کا حوالہ مختصراً دینا چاہوں گا۔ میں نے اپنے پروجیکٹ میں گردوں کی شدید چوٹ(Acute Kidney Injury) کا مطالعہ چوہوں (Mice) میں کیا ۔ فی الوقت اس بیماری کا کوئی مخصوص علاج دریافت نہیں ہوسکا البتہ ابتدائی تحقیق جاری ہے۔ اس مطالعہ میںایسے کمپاﺅنڈز کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی کہ جن کے استعمال سے اس بیماری سے بچنے کی تدابیر کی جاسکے۔ چوہوں کو کچھ دنوں تک مختلف نئے کمپاﺅنڈز سے علاج کیا گیا پھر ایک خاص کیمیکل کے ذریعے ان میں گردوں کی بیماری پیدا کی گئی۔ ایک خاص وقت کے بعد ان چوہوں کے گردوں کو سرجری کے ذریعے نکالا گیا اور پھر مختلف سائنسی طریقوں سے ان گردوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔ مزید ان چوہوں کے خون کے نمونے (Blood Samples) بھی لئے گئے اور ان کی بائیو کیمیکل ٹیسٹنگ کی گئی۔ اس پورے مطالعے میں تین ایسے کمپاﺅنڈز کی نشاندہی کی گئی جو گردوں کی اس بیماری سے بچاﺅ کا باعث بنتے ہیں۔ مزید برآں ان کمپاﺅنڈز کے مالیکیولر میکینزم (Molecular mechanism) بھی معلوم کئے گئے کہ یہ کیسے گردوں کی اس بیماری سے بچنے کا باعث بنتے ہیں۔ پری کلینیکل ٹیسٹنگ کے بعد جو کمپاﺅنڈز مثبت اثرات ظاہر کرتے ہیں انہیں انسانوں میں مطالعے کیلئے منتخب کر لیا جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں تقریباً چار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار کمپاﺅنڈز جن کی پری کلینیکل ٹیسٹنگ ہوتی ہے، ان میں سے صرف ایک کمپاﺅنڈ FDAسے منظور ہو کر مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے۔

(۳)   کلینیکل ٹرائلز (Clinical Trials)

        کلینیکل ریسرچ یا ٹرائلز اس مطالعے کو کہتے ہیں کہ جو انسانوں پر کئے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پری کلینیکل مطالعے سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ بہت بنیادی ہوتی ہیں اورحتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کمپاﺅنڈز انسانو

©ں میں بھی اسی طرح اثر انداز ہونگے جیسے جانوروں میں ہوئے ہیں۔ یہ ٹرائلزکسی میڈیکل پروڈکٹ کے بارے میں ان مخصوص سوالوںکے جواب معلوم کر نے کیلئے کئے جاتے ہیں۔ ان ٹرائلز کو شروع کرنے سے پہلے ریسرچرزایک پلان (Protocol) مرتب کرتے ہیں۔ اس پلان کو مرتب کرنے میں کچھ ابتدئی معلومات کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ جیسے (۱) کن لوگوں کو اس مطالعہ میں شامل کیا جائے گا؟ (۲)کتنے لوگ اس مطالعے کا حصہ ہونگے؟ (۳) اس مطالعے کا دورانیہ کیا ہوگا؟ (۴) تحقیقی تعصب (Research Bias) سے بچنے کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی؟ (۵)مریضوں کو کتنے عر صے تک اور کس خوراک میں دوا دی جائے گی؟ (۶) کب اور کس طرح مریضوں کا معائنہ کیا جائے گا اور کیا معلومات حاصل کی جائینگی؟ اور (۷) معلومات کا تجزیہ کس طرح کیا جائے گا؟ یہ ٹرائلز دراصل ایک تسلسل سے کئے جاتے ہیں اور اس کے مختلف مراحل (Phases) ہوتے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں درج کی گئی ہے۔

(الف) فیز 1: اس مرحلے میں 20سے 100صحت مند افراد بشمول مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور اس کا دورانیہ کچھ مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس مرحلے کا بنیادی مقصد دوا کی سیفٹی(Safety) دیکھنا اور خوراک (Dose) متعین کرنا ہوتا ہے۔فیز 1میں 70فیصد ڈرگز اگلے مرحلے کیلئے منتخب کی جاتی ہیں۔

(ب) فیز 2: اس مرحلے میں سیکٹروں مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور تقریباً دو سال تک کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس مرحلے کا بنیادی مقصد دوا کی افادیت (Efficacy) اور مضر اثرات(Side Effects) کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ فیز 2میں 33فیصد ڈرگز اگلے مرحلے کیلئے منتخب کی جاتی ہیں۔

(ج) فیز 3: اس مرحلے میں تین سو سے تین ہزار رضاکار مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اوراس کا دورانیہ ایک سے چار سال تک ہوتا ہے۔ اس مرحلے کا بنیادی مقصد دوا کی افادیت(Efficacy) اور منفی اثرات (Adverse Reactions) کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ فیز 3میں 25سے 30فیصد ڈرگز اگلے مرحلے کیلئے منتخب کی جاتی ہیں۔

(د) فیز 4: اس مرحلے میں کئی ہزار رضاکار مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور اس کا دورانیہ کم از کم 2سال پر محیط ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصددوا کی سیفٹی (Safety) اور افادیت (Efficacy) کا مطالعہ بڑے پیمانے پر کرنا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں دوا کے طویل مدتی (Long Term)اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

(۴)   ایف ڈی اے ریویو (FDA Review)

        اگر ابتدائی ٹیسٹ، پری کلینیکل اور کلینیکل ریسرچ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ زیر مطالعہ دوا استعمال کیلئے محفوظ اور مو

¿ثر ہے تو اس دوا پر ریسرچ کرنے والی کمپنی دوا کی مارکیٹنگ کیلئے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA)کو درخواست جمع کرواتی ہے جسے NDA(New Drug Application) کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد FDAکی ریویو ٹیم دوا سے متعلق تمام جمع کی گئی معلومات کا جائزہ چھ سے دس مہینوں میں لینے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ کمپنی کو مذکورہ دواکی مارکیٹنگ کی اجازت دی جائے یا نہیں۔ اجازت ملنے کی صورت میں کمپنی اس دوا کی تیاری کا استحقاق (Patent) اپنے نام سے محفوظ کرواتی ہے جس کی وجہ سے دوسری کمپنیاں Patentکی میعاد ختم ہونے تک اس دوا کو تیار کرنے کی مجاز نہیں ہوتیں۔ دس سے بیس سال کے عرصہ کے بعد Patentکی میعاد ختم ہو جاتی ہے۔ میعاد ختم ہونے کے بعد دوسری کمپنیوں کو اس دوا کی تیاری کی اجازت ہوتی ہے۔ دوسری کمپنیاں جب یہ دوا تیار کرتی ہیں تو اس دوا کو Generic Drugکہا جاتا ہے جو کہ برانڈ کمپنی کے مساوی ہوتی ہیں۔ ان کمپنیوں کومذکورہ دوا کی تیاری کیلئے مزید کلینیکل ٹرائلز کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ان دواﺅں کا ایک خاص مطالعہ کیا جاتا ہے جسے Bio-equivalence Studiesکہتے ہے۔ اس مطالعے میں دو کمپنیوں سے تیار کی گئی ایک ہی دوا کا موازنہ انسانوں میں کیا جاتا ہے۔

(۵)   ایف ڈی اے پوسٹ مارکیٹ سیفٹی مانیٹرنگ(FDA Post-Market Safety Monitoring)

        اگرچہ کلینیکل ٹرائلز سے کسی دوا کی سیفٹی اور افادیت کے بارے میں حاصل کی گئی معلومات بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن ڈرگ اپروول کے وقت اس دوا کے بارے میں مکمل معلومات کا ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ حتی کہ دوا کو سخت مراحل سے گزار کر ہی مارکیٹ میں لایا جاتا ہے لیکن اس کی بھی کچھ حد بندیاںہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی دوا کی سیفٹی کے حوالے سے مارکیٹ میں لائف ٹائم دستیابی کیلئے مہینوں اور سالوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ جب کوئی دوا FDAسے منظور ہوکر مارکیٹ میں دستیاب ہو جاتی ہے تو اس کے بعد FDAکی ٹیم اس دوا کی مانیٹرنگ کرتی ہے۔ اس مانیٹرنگ کے نتائج کی بنیاد پر دوا کی خواراک اوراستعمال سے متعلق تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور دوسرے سنگین مسائل کو حل کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ ماضی کے تجربات سے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سی دوائیں مارکیٹ میں آنے کے بعد انسانی جسم میں سنگین مضر اثرات مرتب کر رہی تھیں، جن پربعد میں FDAنے پابندی لگادی اور اس طرح ان ادویات کو تیار کرنے والی کمپنیوں کوجو نقصان اٹھانا پڑا اس کا اندازہ آپ اب تک کی تحریر پڑھنے کے بعد بخوبی لگا سکتے ہیں۔

        مندرجہ بالا تحریر میں دوا کی تیاری کے مختلف مراحل کو تفصیل سے بحث میں لایا گیا ہے۔ اب ایک نظر ہم ملک میں موجود فارماسیوٹیکل انڈسٹریزپر ڈالتے ہیں۔ اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ پاکستان کا مقام آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 400فارماسیوٹیکل یونٹس کام کر رہے ہیں جن میں سے 25یونٹس ملٹی نیشنل کمپنیاں چلا رہی ہیں۔ لوکل کمپنیاں ملکی ضرورت کی 70فیصد ادویات کی تیاری میں تعاون کرتی ہیں لیکن ان لوکل کمپنیوں میں کسی بھی قسم کی کوئی ریسرچ نہیں کی جارہی۔ پاکستان میں موجود ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے کوئی بھی کمپنی ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ پر کام نہیں کر رہی لیکن ان کے پاس کلینیکل ٹرائلز کیلئے تربیت یافتہ ٹیم موجود ہے اور یہ ٹرائلز صرف دوا کی رجسٹریشن سے پہلے کے مرحلے کیلئے کئے جاتے ہیں۔

        جب میں اس تحریر کیلئے اعدادوشمار اور ضروری مواد کا مطالعہ کر رہا تھا تو میری نظر سے پاکستانی اخبار کی ایک رپورٹ گزری جسے پڑھ کر مجھے دکھ کا سامنا کرنا پڑا۔ جس میں واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ پاکستان میں ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ پر کوئی کام نہیں ہورہا۔ ہمارے میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں موجود ریسرچ سینٹرز کی جانب اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمارے ملک کے ریسرچ سینٹرز کی جانب سے سالانہ سیکٹروں تحقیقی رپورٹس کی عالمی جریدوں میں اشاعت ہوتی ہے۔ جنہیں پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہمارے صحافی حضرات میں شاید موجود نہیں (معذرت کے ساتھ) ۔ چونکہ پاکستان میں سائنسی صحافت کا کوئی خاص رجحان نہیں پایا جاتا جس کے نتیجے میں ملک میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات کو عام فہم الفاظ میں بیان کر کے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔ اس نہایت اہم امر پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

        اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ کی کیا صورت حال ہے؟ یہ ریسرچ کن اداروں میں کی جارہی ہے؟ اور مستقبل میں ملکی سطح پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟

         پاکستان میں یوں تو کئی عالمی معیار کے ریسرچ سینٹرز کام کر رہے ہیں۔ بالخصوص ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ کی بات کی جائے توان میں سرفہرست جامعہ کراچی میں واقع انٹر نیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز(ICCBS) ہے۔ اس ادارے کا قیام ایچ ای جے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری (HEJ RIC)کے نام سے آج سے تقریباً 50سال قبل عمل میں آیا۔ مختصراً بتاتا چلوں کہ اس ادارے میں کئی ذیلی سینٹرز کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک سینٹر کاکیمسٹری کے حوالے سے کام میں اپنا ایک مقام ہے ۔اس سینٹر میں کام کرنے والے طالب علموں اور ریسرچ ٹیم نے اب تک مختلف پودوں سے 14500سے زائد نئے کیمیائی مرکبات کو علیحدہ کیا ہے جو کیمسٹری کی دنیا میںایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ان مرکبات کو اسی سینٹر میں قائم پاکستان کے پہلے مالیکولر بینک میںمحفوظ کیا گیا ہے تاکہ ان مرکبات کی پری کلینیکل ریسرچ کی جاسکے۔ یہ کیمیائی مرکبات (قدرتی و مصنوعی) متعدد بیماریوں کے علاج کیلئے نئی ادویات کی تیاری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جب کہ اس ادارے کا دوسرا سینٹرجو کہ ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ(PCMD) کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں ان کیمیائی مرکبات کومتعددبیماریوں کے علاج کیلئے In vitroاور In vivoیعنی جانوروں کے تجربات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سینٹر میں ایک علیحدہ عالمی معیار کا Animal Houseبھی قائم کیا گیا ہے جس میں بڑی تعداد میں تجربات کیلئے چوہوں(Mice/Rats)، خرگوش اور Guinae Pigs کی افزائش و نشونما کی جاتی ہے۔ اس ادارے میں طب کے حوالے سے نینومیڈیسن (Nano-medicine) پر بھی کام کا آغاز کیا جا چکا ہے جس کا تفصیلی ذکر میں اپنی آئندہ تحریر میں کرونگا۔اس کے علاوہ دوسرے ادارے جن میںپری کلینیکل ریسرچ کی سہولت میسر ہے ان میں قائد اعظم یونیورسٹی (اسلام آباد)، نیشنل انسٹیٹیوٹ فار بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ (فیصل آباد)، ڈاکٹر اے کیو خان انسٹیٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ(جامعہ کراچی)، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( اسلام آباد)، پنجاب یونیورسٹی (لاہور)، آغا خان یونیورسٹی (کراچی)، آرمڈ فورسز پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ (راولپنڈی)، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (لاہور) اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لاہور) شامل ہیں۔

         یہ بات بھی قابل تحسین ہے کہ گزشتہ 15سال میں فارماسیوٹیکل انڈسٹریز کی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پہلے چھوٹے فارماسیوٹیکل یونٹس سے اس بات کی توقع رکھناممکن نظر نہیں آتا تھا کہ وہ کم اخراجات میں معیاری ریسرچ کر سکیں لیکن اب گزشتہ دہائی کے دوران انہوں نے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیا ہے کہ ان سے یہ توقع کی جاسکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر زباہمی تعاون سے کام کا آغاز کریں اور فارماسیوٹیکل انڈسٹریز پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کی خاطر خواہ مالی تعاون کریں جس سے کسی دوا کے بارے میں ابتدائی ریسرچ کی جاسکے۔ فی الوقت لوکل فارماسیوٹیکل انڈسٹریز کی طرف سے اس بات کا مثبت رجحان دیکھنے میں نہیں آرہا جو قابل تشویش ہے۔ یہاں فارماسیوٹیکل کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا بیان بھی غورطلب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”لوکل فارماسیوٹیکل کمپنیوں میں ریسرچ کا نہ ہونا حکومتی عدم توجہی کا نتیجہ ہے۔“ یوں تو موجودہ دور میں حکومت کو بیک وقت کئی چیلنجز درپیش ہیں لیکن ملکی معیشت کے استحکام کےلئے حکومت کو اس طرف بھی متوجہ ہونا چاہےے کیونکہ یہ سیکٹر ملکی ریونیو کے اضافے میں انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ پہلے یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ ایک دوا کی تیاری میں ایک بلین ڈالر سے زائد رقم درکار ہوتی ہے لیکن ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ لوکل کمپنیاں کچھ ملین ڈالر سے ایک نئی دوا ایجاد کر سکتی ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر امریکی اور یورپی کمپنیاں کم اخراجات میں ایک نئی پروڈکٹ بنا سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں بناسکتے؟

        اب ہم پاکستان میں کلینیکل ٹرائلز کی موجودہ صورتحال پر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان امور پر بھی غور کرتے ہیں جن پر توجہ دے کر اس عمل کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک پاکستان میں 80سے زائد کلینیکل ٹرائلز رجسٹر کئے گئے ہیں جن میں سرفہرست کینسر، انفیکشن، ہائپر ٹینشن، خون کی بیماریاں،بانجھ پن کی بیماریاں، معدہ اور جگر کی بیماریاں، سانس اور دل کی بیماریاں، ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں، ذیابیطس یا شوگر اور دوسری بیماریاں شامل ہیں۔ فی الوقت صرف 7فارماسیوٹیکل انڈسٹریز ان ٹرائلز میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

        جب ایک دوا کی Patentکی میعاد ختم ہو جاتی ہے تو دوسری کمپنیاں بھی اس دوا کو تیار کر سکتی ہیں۔ جب ایک ہی دوا دوسری کمپنی پہلی بار تیار کرتی ہے تو اس دوا کی مارکیٹ میں دستیابی سے قبل Bio-equivalence Studiesکا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں تھا جو یہ کام سرانجام دے سکے۔ لیکن فی الوقت پاکستان میں تین ادارے قائم ہوچکے ہیں جن میں ڈاﺅ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، یونیورسٹی آف وٹنری اینڈ اینیمل سائنسز، لاہور اور سینٹر فار بائیو ایکویویلنس اسٹڈیز اینڈ کلینیکل ریسرچ(CBSCR) جو کہ ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (PCMD)کا حصہ ہے۔

        ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر مزید ایسے ادارے قائم کئے جائیں جن میں کلینیکل ریسرچ کی جا سکے تاکہ لوکل فارماسیوٹیکل کمپنیاں آسانی سے اور کم اخراجات میں دوائیں تیار کر کے مارکیٹ میں مہیا کر سکیں ۔ جس کا فائدہ پاکستان اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو بالواسطہ ہو اور پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہو جائے جوبذات خود کلینیکل ٹرائلز کا ڈیٹاپیدا کر تے ہیں۔ کلینیکل ٹرالز کے کلچر کو فروغ دینے میںاس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ حکومت دواﺅں کی مد میں ٹیکس کی خاطر خواہ کمی کرے جو اب تک 17فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اس میں ہمیشہ سے ہی اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔

        مندرجہ بالا تحریر اور تجزےے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں دواﺅں کی ابتدائی ریسرچ سے لے کر مارکیٹ میں دستیابی تک کے مراحل میں کردار ادا کرنے والے ادارے، ماہرین،ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کی با صلاحیت ٹیم موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ملک میں ایک ایسا ’نظام‘ بنایا جائے جس کی بدولت یہ ادارے جو الگ الگ کام کر رہے ہیں، آپس میں باہمی اشتراک و عمل سے اپنی جدوجہد کا آغاز ایک نئے سرے سے کریں۔ یہ نظام نہ صرف ملکی معیشت میں خاطرخواہ اضافے کا باعث بنے گا بلکہ پاکستان میں پائی جانے والی بیماریوں سے متاثرہ افراد بھی ایک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے۔

ڈاکٹر ریحان احمد صدیقی: بلاگر کلینیکل پیتھالوجی میں گولڈ میڈل یافتہ ہیںاورحال ہی میں جامعہ کراچی کے ایک بین الاقوامی تحقیقی ادارے کے شعبہ مالیکیولر میڈسن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔

اس تحریر سے متعلق اپنی قیمتی رائے ضرور اس ای میل ایڈریس پر ارسال کریں:

Email: rehan.mtech@gmail.com | Facebook: www.facebook.com/rehan.mtech

حصہ
ڈاکٹرریحان احمد صدیقی ابھرتے ہوئے قلم کار ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے مالیکیولر میڈیسین میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ریحان صدیقی ان نوجوانوں میں شامل ہیں جو سماج کے بڑھتے ہوئے مسائل کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں اور اپنے قلم سے اس کے تدارک کے لیے کوشاں ہیں۔

جواب چھوڑ دیں