دانشوروں نے ماں کی آغوش کو جہاں بچے کی پہلی درس گاہ اور باپ کو ایک بہترین دوست قرار دیا ہے وہیں استاد کو بچے کی شخصیت کا معماربھی گردانا ہے۔انقلاب میدان جنگ یا سیاسی ایوانوں سے بر پا نہیںہوتے ہیں۔انقلاب اسکولوں اور کمرئہ جماعت میں اساتذہ کے زیر نگرانی پرورش پاتے ہیں۔ استاد کو انقلاب اور تبدیلی کانقیب کہا گیاہے۔استاداگر چاہے تو ایک ذی حیثیت وذی وقار قوم کی تعمیرکرسکتا ہے اور غفلت کا شکار ہوجائے تب ان مردم سازی کے کارخانوں سے غلاموں اور محکموں کی ایک بڑی تعداد نکلنے لگتی ہے جسے فی زمانہ ہم دیکھ رہے ہیں۔شہرئہ آفاق سنگ تراش و مصور مائیکل انجیلو کے مطابق ہر پتھر میں ایک خوب صورت مجسمہ چھپا ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہپتھر سےمجسمہ نکالا جائے۔ سنگ تراش بے جان پتھروں سے ایسے مجسمے نکالتاہے کہ دنیا ورطہ حیرت میں پڑجاتی ہے۔بے شکل و صورت پتھر وں کو صورت عطا کرنا اور اس میں روح پھونکنا سنگ تراش کا عظیم کارنامہ ہوتا ہے۔سنگ تراش اپنے فن کے ذریعہ بے جان ساکت و جامد پتھروں میں اس طرح جان ڈالتا ہے کہ وہ زندگی کا اٹوٹ حصہ بن جاتے ہیں۔پوشیدہ بے جان پتھر وںمیں سے جاندار،خوش نمااور متحرک مجسموں کوباہر نکالنا ہی ایک سنگ تراش کا عظیم کارنامہ ہوتا ہے۔بہ زبان شاعر انقلاب مخدوم محی الدین
کچھ قوس قزح سے رنگت لی، کچھ نور چرایا تاروں سے
بجلی سے تڑپ کو مانگ لیا کچھ کیف اڑایا بہاروں سے
پھولوں سے مہک شاخوں سے لچک اور منڈوﺅں سے ٹھنڈا سایہ
جنگل کی کنواری کلیوں نے دے ڈالا اپنا سرمایہ
بدمست جوانی سے چھینی کچھ بے فکری کچھ الھڑ پن
پھر حسن جنوں پرور نے دی آشفتہ سری دل کی دھڑکن
بکھری ہوئی رنگیںکرنوں کوآنکھوں سے چن کر لاتا ہوں
فطرت کے پریشاں نغموں سے اک اپناگیت بناتا ہوں
فردوس خیالی میں بیٹھا اک بت کو تراشا کرتا ہوں
پھر اپنے دل کی دھڑکن کو پتھر کے دل میں بھرتا ہوں
مخدوم صاحب جو خود ایک استاد بلکہ ایک عظیم استاد تھے ۔آپ کی اس نظم میں ایک استاد کی اپنے شاگر د وںکی شخصیت کو ہمہ جہت اور پسندیدہ بنانے کی تڑپ کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح ایک سنگ تراش غیر ضروری پتھر کو مجسمہ کی تراش خراش کے دوران نکال پھینک دیتا ہے اسی طرح ایک باغبان بھی اپنے باغ سے خود رو پودوں (weeds)کو باغ سے نکالنا ضروری سمجھتاہے جو باغ کی داخت ،پرداخت ،نشوونما اور خوب صورتی میں بگاڑ پیدا کرتے ہےں۔باغ ،باغبان کے جمالیاتی ذوق کا پرتو ہوتا ہے۔باغ کو باغبان کا علم باغبانی معنی ،رنگ روپ ،دلکشی اور خوب صورتی عطا کرتا ہے۔علم باغبانی مالی کو خودرو (جنگلی) پودوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی و بربادی کا علم فراہم کرتا ہے ۔خوب اور ناخوب کی صلاحیت ،بہتر و ابتر کی جانچ اور پرکھ بھی باغبان کو علم باغبانی ہی عطا کرتا ہے۔ مایہ نازماہر نفسیات و ماہر فن تعلیم فروبیل نے بھی ایک استاد کو باغبان سے تعبیر کیا ہے۔جس طرح باغبان باغ کی خوب صورتی اور خوش نمائی کی برقراری اور فروغ کے لئے غیر پسندیدہ پودوں گھانس پونس(weeds)کو باغ سے نکال پھینکتا ہے، ایک استا د بھی طلبہ کی شخصیت کی تعمیر میں مانع عناصر و عوامل کو نکال پھینکتا ہے اور پسندیدہ عادات و خصائل(Traits)کو فروغ دیتا ہے۔بیماروں کے علاج معالجہ اور سرجری کے لئے ایک مستند ڈاکٹر، عمارات ،پل وغیرہ کی تعمیر کے لئے ایک مستند انجینئیر،اور زندگی کے دیگر شعبوں کے لئے اپنے اپنے شعبہ اور فن کے مستند ماہرین کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ قوم کی تعمیر و مثبت تبدیلی کے لئے بھی ایک استادکا اپنے فن میں ماہر ہونا ضروری ہوتا ہے۔استاد تعلیمی عمل کا ایک بنیادی اور لازمی عنصر ہوتا ہے جو تعلیمی مقاصد کے حصول میںنہایت اہم کردارادا کرتا ہے۔ ایک معلم اور مدرس میں نمایا ں فرق ہوتا ہے۔ معاشرے کا ہر وہ انسان جس سے دوسرے کچھ سیکھتے ہیںمعلم کہلاتا ہے جب کہ پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ا فراد کود مدرس کہا جا تا ہے۔ مدرس کو معلم کے درجے تک پہنچنے کے لئے سخت محنت اور جستجو کی ضرورت ہوتی ہے۔طلبہ کی کردارسازی سے قبل معلم کو کو کردار کی کسوٹی پر کھرا اترنا ہوتا ہے۔منکرات سے دوسروں کو روکنے سے پہلے خود کو منکرات سے بچانا لازم ہوتا ہے۔ استاد کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا پیغام دینے سے پہلے خود کوامر بالمعروف و نہی عن المنکر کا عملی پیکر بنناضروری ہوتا ہے۔مدرس جب تک عملی اقدامات کا حامل نہیں ہوجاتا ہے وہ معلم کے درجے تک رسائی ہر گز حاصل نہیں کر سکتا ۔نبی اکرم ﷺ نے پیشہ تدریس کو رفعت، عظمت اور بلند ی عطا کی اور پیشہ معلمی کو معراج بخشی۔ آپ نے دنیا کے آگے اپنی ذات کو بھی ایک معلم بنا کر پیش کیا ۔”بے شک مجھے ایک معلم بنا کر معبوث کیا گیا ہے۔“اساتذہ کے اعزاز کے لئے بنی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہی کافی ہے۔ اس اعزاز کے بعداساتذہ کو دیگر شعبوں ،محکموں اور معاشرے کے کسی ا عزاز کی کوئی ضرورت نہیںرہ جاتی ہے۔ درس و تدریس کے شعبے میں مہارت اور ید طولی کی ضرورت ہوتی ہے۔جہاں بینی کے فرائض کی انجام دہی سے پہلے استاد کو خودشناسی کے مرحلے سے گزرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ تدریسی فرائض بہتر طریقے سے انجام دے سکے۔ تدریس کے مختلف مسائل و مشکلات کا استاد کو نہ صرف علم ہو بلکہ ان سے عہدہ براں ہونے کی صلاحیت بھی اس میں پائی جانی چاہیئے۔ہمارے ملک میں ٹیچر ایجوکیشن پر آج تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے تدریسی معیار میں گراوٹ کا در آنا ایک لازمی امر ہے۔ زمینی حقائق سے مبرا، صرف تصورات پر مبنی ٹیچر ایجوکیشن پالیسی میں بڑی تبدیلیوںکی ضرورت ہے۔پیشہ تدریس سے وابستگی کے لئے ڈی۔ایڈ یا بی ۔ایڈ ، ایم ایڈ کی سند لازمی تصور کی جاتی ہے تاکہ اساتذہ، تعلیمی ذمہ داریوں کو ماہرانہ طریقے سے انجام دے سکےں۔ تدریسی تربیت و قابلیت کے بغیر بھی بعض اساتذہ بہتر خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن ایسی چند روشن مثالوں کو پیش کرتے ہوئے تدریسی تربیت کے بغیر تعلیمی خدمات کی انجام دہی کے لئے کسی کو مامور کر نا قوم و ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑکے مترادف ہے۔تدریس کے لئے استاد کا مضمون پر عبور ہی کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ مضمون کی بامقصد اور موثر تدریس میں معاون امور و عناصر سے اس کا واقف ہونا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔طریقہ ہائے تدریس سے واقفیت تدریس کو سہل اور پرکیف بنا دیتی ہے۔ ایک استادکے لئے تدریسی طریقوں کے حسن و قبیح کا علم ضروری ہے۔اپنے مضمون میں ماہر استاد وقت مقررہپر نصاب کو مکمل تو کرسکتا ہے لیکن یہ بات کہنی ذرا مشکل ہے کہبچوں نے استاد سے کتنا سیکھا ہے۔آج اسکولوں میں نصاب کی تکمیل کو ہی ٹیچنگ کا نام دے دیا گیا ہے ،جو پیشہ تدریس اور مقاصدتدریس کے مغائر ہیں۔نصاب کی تکمیل سے زیادہ بچوں کا سیکھنا اہم ہوتا ہے۔ پہلے صفحے سے آخری صفحے تک درسی کتابپڑھا کر اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل نہیں کر سکتے ۔بچوں کو پڑھانے کا مقصد کتاب کے صفحات الٹنا نہیں بلکہ اسباق کے ذریعے نظریہ سازی ،قوت فکر اور تخلیقی صلاحیتو ں کوفروغ دینا ہوتا ہے۔ تدریس میںخرابیاں و کوتاہیاں در آنے کی سب سے اہم وجہ اساتذہ کا طریقہ ہائے تدریس سے نا واقف ہونا بھی ہے۔اس زمرے میں ایسے ڈی۔ایڈ،بی۔ایڈ،ایم۔ایڈ سند یافتہ اساتذہ بھی شامل ہیں جو کہنے کو تربیت یافتہ اور قابل تو ہیں لیکن جنھیں ابھی تربیتی مراحل سے گزرنا باقی ہے۔اس مضمون میں موثر تدریسی افعال و فرائض کی انجام دہی کے لئے مددگار عناصر و عوامل پر روشنی ڈالی گئی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر مدرس معلم کے اعلی عہدے پر فائزہو سکتا ہے۔
استاد کاکام صرف سبق پڑھانا نہیں ہوتا ہے بلکہ استاد ایک مربی رہنما و رہبر بھی ہوتا ہے۔ ایک مثالی استاد کتاب نہیں بلکہ زندگی پڑھاتا ہے۔ ایک کامیاب استاد نہ صرف موثرتدریس اور کامیاب زندگی کےلئے درکاروسائل کا علم رکھتا ہے بلکہ ان کے برمحل اور برموقع استعمالسے بھی واقف رہتا ہے۔ایک بہتر استاد وسائل کی کمی کا بہانہ کرنے کے بجائے درکار وسائل کو بہتر طریقہ سے استعمال کرنے کا ہنر بخوبی جانتا ہے۔جدید تکنالوجی اور اس کے بروقت استعمال سے بھی کماحقہ واقف ہوتا ہے۔جہاں تکنالوجی میسر نہ ہو (اور یہ بات آج بھی ہمارے ملک کے لئے باعث شرم و رسوائی ہے کہ ہم سوپر پاور طاقت بننے کے باوجود آج تک اپنے اسکولوں کو سوپر اسکولوں میں تبدیل نہیں کر پائے ہیں۔ایسے اسکولوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جہاں جدید تکنالوجی تو درکنا ربلیک بورڈ اور چاک بھی میسر نہیں ہیں)اور وسائل بھی میسر نہ ہو تب و ہ شخصی صلاحیتوںسے کا م لے کر درس و تدریس کو کامیابی سے ہم کنارکرتا ہے۔ایک کامیاب استاد کو علم ہوتا ہے کہ کب ،کہاں اور کیسے تدریسی فرائضکو انجام دے۔وسائل کی قلت کمی یا عدم موجودگی ایک کامیاب استاداور موثر تدریسکی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے ہیں۔ ایک مثالی استادجدید طریقہ ہائے تدریس کا علم رکھتا ہے اور احسن طریقے سے تدریسی و تعلیمی نظریات کی طلبہ میں منتقلی کو یقینی بناتا ہے۔ایک کامیاب استاد بہتر نتائج فراہم کرنے والے تدریسی طریقوں سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔
تدریسی کامیابی کے لئے استاد کا بچوں کی نفسیات سے واقف ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے۔توجہ مرکوز کرنا ، طلبہ میںترغیب و تحریک پیدا کرنا،عدم دلچسپی پیدا کرنے والے عوامل سے اجتناب،بچوں کی دلچسپی کو برقرار رکھنا ،حصول علممیں طلبہ کو سرگرم رکھنا،بری عادتوں سے طلبہ کوباز رکھنا ،پسندیدہ عادات و خصائل کو فروغ دینا ،یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ایک استا د تعلیمی نفسیات سے واقف ہو۔علم نفسیات سے واقف استاد نہ صرف ایک مدرس کے فرائض بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے بلکہ ایک مربی ،رہنما اور رہبر کے فرائض بھی اتم طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔بچوں میں علم سے دلچسپی اور ان کی شخصیت کی تعمیر کا کام علم نفسیات سے واقف استاد ہی بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔اپنے مضمون پر عبور کے علاوہ نفسیات کا علم بچوں میں اعتماد کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔تعلیم میں نفسیات کو جس درجہ اہمیت حاصل ہے اسی قدرتعلیمی فلسفے کی اہمیت و افادیت بھی مسلمہ ہے۔تعلیمی فلسفہ اور نفسیا ت کو ایک سطر میں اگر بیان کرنے کی ضرورت پیش آئے تب احقر کے نزدیک ، فلسفہ کی تعریف ہوگی کہ کیا پڑھایا جائے اور نفسیات کا مطلب ہوگا کہ کس طرح پڑھا یا جائے یعنی مقصد علم اور طریقہ تدریس ۔تعلیمی فلسفہ سے ایک استاد کی وابستگی اس لئے بھی ضروری تصور کی جاتی ہے کہ اسے دنیا میں رائج تدریس کے معروف و مقبول طریقوں کی جانکاری ہو۔تعلیمی فلسفہ استاد کو تعلیمی تاریخ کی آگہی فراہم کرنے میں نہایت معاون ہوتاہے۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک مختلف تعلیمی نظریات کی معلومات بھی تعلیمی فلسفہ فراہم کرتا ہے۔تعلیمی فلسفے کی روشنی میں حصول علم کے مقاصد کا تعین ہوتا ہے۔تعلیمی فلسفہ کا مطالعہ تعلیمی مفاسد کی معلومات اور اس کے سدباب کا ایک اہم و نایاب وسیلہ ہے۔تعلیمی فلسفہ کی وجہ سے استادنہ صرف دنیا کے مختلف تعلیمی نظریات سے آگہی حاصلکرتا ہے بلکہ پسندیدہ نظریات کو اپناکر، ان میں حسب ضرورت تبدیلی وتغیر کے تعلیمی نظام کو معاشرے کے لئے مفید و مو ثر بناتاہے۔
ایک استاد کو نصاب کی تدریس کے علاوہ مختلف کام بھی انجام دینے ہوتے ہیں اور جس کا علم اسے بہت ضروری ہے۔تدریس کی کامیابی اور طلبہ کے اکتساب کی شرح کو امتحان کے ذریعہ پرکھا جاتا ہے۔ایک استاد کو نہ صرف امتحان کے پرچے تیار کرنے میں مہارت حاصل ہونا چاہیئے بلکہ سوالات پوچھنے کے ڈھنگ سے بھی اسے واقف ہونا ضروریہے۔اگر استاد کو خودمعلوم نہ ہو کہ ا متحان کے ذریعہ طلبہ کی کن صلاحیتوں مہارتوں اور لیاقت کو جانچنا مقصود ہے تب پرچے سوالات کا یقینی طور پر بے سمت و غیر کارکرد ہوناطئے ہے ۔ پرچے سوالات کو بے سمتی سے محفوظ رکھنے کے لئے استاد کو پرچہ سوالات ترتیب دینے کے فن سے واقف ہونا ضروری ہے۔ بے شک حکومتی سطح پر سوالات کا پرچہ ترتیب دینے کے لئے علیحدہ شعبہ موجود ہے لیکن بچوں کی مسلسل اکتسابی ترقی کی جانچ کے لئے روزانہ ، ہفتہ واری، ماہانہ امتحانات کا انعقاد ضروری ہےکیونکہ ان کا اہتمام و انعقاد اور پرچوں کی ترتیب کا کام بھی استاد کو ہی انجام دینا ہوتا ہے۔ سوالات کے پرچے ترتیب دینے کے فن سے ایک استاد کی آگہی تدریسی فرائض کا ایک لازمی جز ہے۔ جس طرح ایک تربیت یافتہ استاد اس کام کو احسن طریقہ سے انجام دے سکتا ہے وہیں ایک غیر تربیت یافتہ ٹیچر اس کام کو موثر طریقے سے انجام نہیں دے سکتا ۔استا دمیں اتنی اہلیت ضروری تصور کی جاتی ہے کہ وہ اپنے امتحان اور جانچ کے ذریعے طلبہ کے اکتساب کی شرح ، مختلف شعبوں میں طلبہ کی خوبیوں ، کمزوریوں اور کمزور شعبوں میں بہتر ی کے لئے درکار محنت و رہبری کا سراغ لگائے۔استاد پرچہ سوالات ترتیب دیتے وقت طلبہ کیقابلیت اور ذہنی صلاحیتوںکو مد نظر رکھے۔مذکورہ امور کا خیال رکھنا عام طور پر ایک غیر تربیت یافتہ استاد کے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہی ہوتا ہے۔ایک کامیاب استادموثروکامیاب تدریس کے علاوہ پرچہ سولات کی ترتیب اور نشانات دینے کے طریقہ کار (مارکنگ سسٹم) سے بھی واقف ہوتا ہے ۔استادکا یہ وصفطلبہ کی کارکردگی اور پیمائش میں کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ کامیاب تدریس کے لئے ایک استاد کوتعلیمی نفسیات ،فلسفہ اور پرچہ سوالات کی ترتیب کے علاوہ کلاس روم مینجمنٹ سے واقف ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔کلاس روم مینجمنٹ کےذریعے استاد تدریس کو پرکیف اور سہل بنانے کےعلاوہ کلاس روم کے نظم و ضبط (ڈسپلن) پرقابو رکھتا ہے۔ کامیاب ،منظم اور مبنی بر اصول تدریس کے لئے استاد کا کلاس روم مینجمنٹ کے اصول و تکنیک سے واقفہونا ضروری ہے۔ایک منظم کلاس روممیںتنظیم و ترتیب سے دیا جانے درس ہمیشہ کامیابی سے ہمکنا ر ہوتا ہے۔ کامیاب تدریس کے لئے ایک استاد کواپنے مضمون کے علاوہ مذکورہ بالا شعبوں میں مہارت حاصل کرنابے حد ضروری ہے ورنہ تدریسی عمل بے فیض اور بے سمت ہونے کے علاوہ اکتساب کی شرح میں گراوٹ آئے گی اورطلبہ سیکھنے سے فراری بھی ا ختیار کریں گے۔
تدریس چند گھنٹوں اور منٹوں تک نوکری بجا لانے کا نام نہیں ہے یہ ایک کار نبوت ہے۔یہ ایک مشن ہے۔پیشہ تدریس سے وابستہ ہونے والے اور وابستہ افراد کا اخلاص سے معمور ہونا ضروری ہے۔اتفاقی طور پر یا کسی مجبوری کے تحت پیشہ تدریس کو اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔مجبوری سے پیشہ تدریس سے وابستہ ہونے کے بجائے شوق و انتخاب سے اس پیشہ کو اختیار کریں۔Teacher by choiceبنے نا کہTeacher by chance۔نظم و ضبط ،باقاعدگی اور سلیقے سے اور وقت پر تدریسی فرائض انجام دیں۔استاد کی نظافت و نفاست کا طلبہ کے ذہنوں پر گہرا اثر پڑتا ہے ۔اساتذہ موثر تدریس کے لئے شخصی نظافت و نفاست کا اہتمام کریں۔استاد کی شخصیت طلبہ کے لئے ایک مثالی حیثیت کی حامل ہوتی ہے ۔طلبہ استاد کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر رہتے ہیں۔ اسی لئے استاد اپنی شخصیت و ذات کو متوازن بنائے۔ بین السطور ایک مثالی استاد میں لازمی طور پر پائے جانے والے اوصاف حمیدہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایک مثالی استاد کوذہنی ،جذباتی،روحانی،اور اخلاقی اقدار کاپیکر ہونا چاہیئے۔استادصادق، امین اور صابرہو۔دیانت دار،صبر و تحمل سے کام لینے کا عادی ہو۔ استادمحنت ، استقامت اور اولوالعزمی کا پیکرہو۔ استاد مشکل حالات میں بھی اپنے مشن کو جاری رکھنا کا حوصلہ رکھتاہو۔ استاد کوطلبہ کی خداداد صلاحیتوں کی پہچان اور ان کی کمزوریوں کو خوبیوں میں تبدیل کرنے کا ہنرآنا چاہیئے۔طلبہ کوسوال کرنے ،جواب دینے،اختلاف رائے کرنے ،تنقید و تبصرہ کرنے،مسائل کو حل کرنے اور قائدانہ کردار ادا کرنے کی قابل بنانا بھی ایک استاد کا فرض منصبی ہے۔ایک کامیاب استاد طلبہ میں قوت فیصلہ کی صلاحیت کو فروغ دیتا ہے۔ طلبہ کو جمہوری اقدار ،اصابت رائے اور مشاروت کا عادی بنا تا ہے۔ایک بہتر استاد کے علم و عمل میں مطابقت پائی جاتی ہے۔قول و فعل کا تضاد ایک مثالی استاد میں آج تک نہیں دیکھا گیا ہے۔تعلیم کے عمومی و خصوصی مقاصد اور نفس مضمون سے ایک استاد کا واقف ہونا بے حد ضروری ہے تاکہ وہ مطلوبہ مقاصد کے تحت طلبہ میں معلومات،مہارتوں اور رویوں کی منتقلی کوممکن بنا سکے۔تدریس میں توازن برقرار رکھنا بھی ایک اچھے استاد کا وصف خاص ہوتا ہے۔ اسے دوران تدریس معلومات،مہارتوں اور رویوں کا خاص خیا ل رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ تعلیمی وسائل کے بروقت استعمال سے تدریسی عمل کو موثر ،سہل اور پر کیف بناسکے۔درس و تدریس میں جائزہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ایک اچھا استاد اشیاءکا نہ صرف خو د مشاہد ہ کرتا ہے بلکہ طلبہ میں بھی غور وفکر کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرتے ہوئے انھیں پروان چڑھاتا ہے۔تعلیمی اہداف کو پیش نظر رکھتے ہوئے طریقہ تدریس کا وقتا فوقتا جائزہ لیتا رہتا ہے۔اپنے مشاہدات کی روشنی میں تدریسی لائحہ عمل کا تعین کرتا ہے۔ایک اچھے استاد کے اوصاف میں روزانہ کی تدریسی تیاری بھی شامل ہوتی ہے۔ایک مثالی استاد بغیر تیاری کے کبھی کلاس روم کا رخ نہیں کرتا ہے۔بچوں کی نفسیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے درس و تدریس کے فرائض کو انجام دیتا ہے۔بچوں میں علم سے محبت کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے ۔بچوں کو روشن لکیر کا پابند نہیں بنا تا ہے ۔ایک بہتر استاد اپنے طلبہ کو عام اور مروجہ نظریات پر آنکھیں بند کرتے ہوئے یقین و تقلید سے باز رکھتا ہے۔اپنے طلبہ کو آزادی فکر،دلیل و تاویل ،اور تجزیہ کا عادی بناتا ہے۔ایک بہتر استاد خو د فرض شناس ہوتا ہے اور طلبہ میں بھی فرض شناسی کے جذبے کو فروغ دیتا ہے۔بہت ہمدرد ہونے کے باوجود ہر وقت عدل و انصاف سے کام لیتاہے۔طلبہ کی بہتر کارکردگی پر ستائش اور خراب مظاہر ے اور غلطیوں پر شائستہ طریقے سے اصلاح و رہبری کے فرائض انجام دیتا ہے۔تما م طلبہ سے یکساں برتاﺅ روا رکھتا ہے۔ایک باوقار استاد اپنے وقار و عزت نفس کے علاوہ طلبہ کے وقار اور عز ت نفس کا بھی خیال رکھتا ہے بلکہ پاسبانی کرتا ہے۔انصاف کی فضا ءکو پروان چڑھاتا ہے ´۔نظم و ضبط پر عمل درآمد کے وقت کسی بھی طالب علم سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھتا ہے۔طلبہ کا ہمددر،مونس و غم خوار ہوتا ہے ۔رہبری اور رہنمائی سے کبھی پہلو تہی نہیں کرتا۔ایک اچھا استاد ایک اچھا منتظم بھی ہوتا ہے۔کمرئہ جماعت میں ہمہ جہت اور موثر تعلیم کے نظم کو ممکن بنا تا ہے۔مثالی استاد کے اوصاف میں عصری آگہی بھی شامل ہوتی ہے۔ ہر وقت طلبہ کو عصری تقاضوں سے واقف کرتا رہتا ہے ۔گفتگو اور درس و تدریس میں ہمیشہ سادہ ،آسان اور سلیس زبان و بیان کو اختیار کرتا ہے۔حاصل شدہ معلومات کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کی تربیت و تلقین کرتا ہے۔بچوں کو کرم کتابی(کتابی کیڑے) بنانے کے بجائے ان کی ہمہ جہت ترقی کو راہ دیتاہے۔ نصاب کی تدریس کے علاوہ طلبہ کوہم نصابی سرگرمیوں اور کھیل کود کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ایک بہتر استاد اپنے تعلیمی و تدریسی تجربات کی روشنی میں طلبہ کی عملی تربیت کو یقینی بنا تا ہے۔ استادطلبہ کی شخصیت کا معمار ہوتا ہے۔ نہ صرف اپنے مضمون پر دسترس رکھنے والے بلکہ مردم شناس،جہاندیدہ،نبض شناس،موضوع سے آگاہ،تعلیمی اہداف سے واقف،تدریسی اسلوب سے آراستہشخص کو ہم استاد کہتے ہیں ۔مضمون کے آخری پیراگراف میں جو امور اور اوصاف بیان کیئے گئے ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے ایک استاد مدرس سے معلم ہوجاتاہے۔