سیلانی نہیں دیکھ پار ہا تھا، دھندلی آنکھوں سے آپ بھی نہیں دیکھ سکتے، اس نے انگلیوں کی پوروں سے آنکھوں کی نمی صاف کی اور مٹیالے پانی میں تیرتی گڑیا کی تصویر دیکھنے لگا۔ وہ ایسے لگ رہی تھی جیسے جھولے میں یا ماں کی آغوش میں سو رہی ہو،دریا بھی اس کی نیند میں مخل ہونا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی لہریں اسے ہلکے ہلکے ہلکورے دیتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ دوسری تصویر قریب سی لی گئی تھی جس میں وہ گڑیا آنکھیں موندے ہمیشہ ہمیشہ کی نیندسو رہی تھی۔ اس کے ادھ کھلے ہونٹوں سے لگ رہا تھا کہ جب اسے دریا میں اچھالا گیا ہوگاتو اس نے چلّا کر ماں کو پکارا ہوگا۔ اس کی یہ پکارسنولائے ہوئے ہونٹوں پر نقش ہو کر رہ گئی تھی، جسے دیکھ کر سیلانی کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا، اس کی بیٹی ابرش اسی عمر کی ہے۔
ابرش سے پہلے سیلانی بیٹی کی محبت سے ناآشنا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ بیٹیوں کے لیے باپ کے دل میں محبت کے کیسے سوتے پھوٹتے ہیں۔ سیلانی جو باتھ روم کی ذرا سی گندگی پر ناک سکوڑ کر الٹے قدموں پلٹ آتا ہے، اسے اب ابرش کے پیمپر بھی تبدیل کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ابرش جب اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ بابا کی طرف اٹھا کر تتلا کر کہتی ہے “بابا! بوم بوم چلنا ہے” تو سیلانی کے کاندھوں پر کتنی ہی تھکن کیوں نہ رکھی ہو، وہ بوم بوم اسٹارٹ کرکے ابرش کو لیے نکل پڑتا ہے اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ہر باپ اپنی اولاد سے اسی طرح پیار کرتا ہے، وہ خالق کی جانب سے اس تخلیق کا نگران ہوتا ہے۔
اس روہنگیائی گڑیا کا نگراں بھی اس سے اتنا ہی پیار کرتا ہوگا۔ خدا جانے جب انسان کے قالب میں بدترین درندوں نے اسے ماں کی گود سے چھین کر گور کی آغوش میں ڈالنے کے لیے دریا میں اچھالا ہوگا تو اس کے ماں باپ پر کیا بیتی ہوگی؟ شاید اس گڑیا کے آس پاس ہی اس کے باپ کی کٹی پھٹی لاش ہو۔ سیلانی کا قلم اس ننھی منی لاش کے لبوں پر نقش پکار کو لفظوں میں ڈھالتے ہوئے کانپ رہا ہے۔ وہ روہنگیائی گڑیا کی پکار پر سینے پر ہاتھ رکھے بیٹھا تھا کہ ایک اور بچے کی تصویر نے تو اسے لرزا کر رکھ دیا۔ بمشکل تین سے چار برسکا وہ بچہ ننگے پاؤں زمین پر بیٹھا ہوا رو رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں خون بہہ رہا تھا ۔ آنسوؤں کے لیے آنکھوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے ظالموں نے تو اس بچے کی آنکھیں ہی نکال لی تھیں۔
سیلانی تہی دست ہے، اس کا قلم عاجز ہے، اس بچے کے کرب اور اس پر اپنی بے بسی اور امت مسلمہ کی بے غیرتی کو لفظوں میں ڈھالنے سے قاصر ہے۔ یہ دو تصویریں وہ تھیں جو سیلانی نے “واٹس اپ” کے پیغامات چیک کرتے ہوئے دیکھ لیں۔ اس کے بعد اور تصاویر دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس نے سیل فون ایک طرف رکھ دیا، دل بوجھل اورآنکھوں میں نمی تھی۔ وہ یہ سوچ سوچ کر حیران تھا کہ بچوں کے ساتھ کوئی انسان ایسا غیر انسانی سلوک کیسے کرسکتا ہے؟ لیکن میانمار میں یہ سب ممکن ہے، وہاں کے بدھ بھکشوؤں کے لیے اراکانی مسلمان دو ٹانگوں پراپنا وزن اٹھانے والی وہ مخلوق ہے جسے جتنا جلد ہو سکے زمین سے زمین کے نیچے پہنچا دیا جائے۔ روہنگیائی مسلمانوں کے لیے ان کی لغت میں رحم نام کا کوئی لفظ نہیں۔ نارنجی چادروں میں لپٹے ہوئے اور گھٹے ہوئے سر والے ان بدھ بھکشوؤں اوران کے سامنے ہاتھ جوڑ کر مؤدب بیٹھنے والے سفاک برمی سترھویں صدی سے اراکانی مسلمانوں کے درپے ہیں تاریخ بتاتی ہے کہ سیدھے سادے امن پسند نظر آنے والی بدھ مت کے ان “انسان دوستوں” نے1784ء میں اراکان پرقبضہ کرکے مسلمانو ں کے لیے زندگی عذاب بنا دی تھی۔ 1884ء میں برطانیہ نے برما پر قبضہ کیا۔ برما آزاد ہوا لیکن اراکان قبضے ہی میں رہا۔ یہاں برصغیر پاک و ہند کی تاریخ دوہرائی جانے لگی۔جس طرح انگریزوں کو اپنی سلطنت کے لیے مسلمان خطرہ دکھائی دیتے تھے، ویسے ہی رنگون کے بدھ مت اکثریت کو بھی مسلمانوں سے خطرہ تھا انہیں خدشہ تھا کہ مسلمان اراکان کو دوبارہ آزاد نہ کرالیں۔
سیلانی یہ سطور لکھ رہا ہے اور اسے برما ٹاسک فورس کے عبدالملک مجاہد یاد آرہے ہیں۔ کراچی پریس کلب میں ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ اس حوالے سے خوش قسمت تھے کہ خون آشام بدھوں کے انتقام کا نشانہ بننے سے بچ گئے اور اراکان سے ہجرت کرکے بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ یہ آ جکل امریکہ میں ہوتے ہیں اور اراکانی مسلمانوں کی کمزور آواز اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عبدالملک مجاہد دو برس قبل کراچی آئے تھے، ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ بدھسٹوں نے 1942ء میں مسلمانوں کے خلاف تحریک شروع کر دی تھی۔ وہ انہیں برما سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے۔ طاقت ان کے ہاتھ تھی، اکثریت ان کے ساتھ تھی کوئی روکنے والا تھا نہ ٹوکنے والا،انہوں نے تین ماہ میں ڈیڑھ لاکھ مسلمان کاٹ ڈالے۔ اس دوران پانچ لاکھ اراکانی مسلمانوں کو دیس سے نکالا گیا۔ 1950ء ایک بار تحریک نے زور پکڑا اورہزاروں بدمست بدھ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ 1962ء میں فوجی بغاوت ہوئی حکمرانوں کی تبدیلی کے بعد بھی مسلمانوں کے دن نہ پھرے، وقفے وقفے سے مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی بہانے یہ فساد ہوتارہا اورمسلمانوں کے گھر کے گھر بستیوں کی بستیاں جلا ئی جاتی رہیں۔
سیلانی مٹیالے پانی کی گڑیا کو رو رہا تھا کہ اسے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ایک دوست یاد آگئے۔ ندیم اعوان 2012ء میں بنگلہ دیش گئے تھے اورکسی نہ کسی طرح سرحدپر روہنگیائی مسلمانوں کے کیمپ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ سیلانی نے دوبارہ ان سے رابطہ کیا اور روہنگیائی مسلمانوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا
“مجھے یاد پڑتا ہے آپ روہنگیائی مسلمانوں کے کیمپ تک جا پہنچے تھے ؟”
“جی، جی 2012ء میں ہم وہاں گئے تھے اور اب بھی وہ مناظر یاد آتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سیلانی بھائی !یہ دنیا کی واحد قوم ہے جس کی کوئی دستاویزی شناخت نہیں”
“کیا ؟میں سمجھا نہیں” سیلانی چونک پڑا
“سیلانی بھائی !انہیں میانمار حکومت پاسپورٹ نہیں دیتی۔ انہیں وہاں پکّے گھر بنانے کی اجازت نہیں۔ یہ وہاں زمین نہیں خرید سکتے یہاں تک کے انہیں وہاں شادی کرنے کے لیے سرکاری اجازت درکار ہوتی ہے۔ پھر ان کے بچوں کو اسکولوں میں داخلہ نہیں دیا جاتااور بہت عجیب بات بتاؤں یہ پھر بھی اردو جانتے ہیں پاکستان کو اپنا گھر جیسا مانتے ہیں۔ انہیں جب پتہ چلا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں تو ان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ ان کے کچھ بڑے ہمارے پاس آئے اور ہم سے اردو میں بات کرکے ہمیں حیران کر نے لگے۔ ہمارے پوچھنے پر بتایا کہ ہم نے اپنے بچوں کے لیے مدرسے بنارکھے ہیں، جہاں قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو بھی سکھائی جاتی رہی ہے اور یہ اس لیے کہ یہ پاکستان کی زبان ہے۔ اس پاکستان کی جس میں روہنگیائی مسلمان شامل ہونا چاہتے تھے کہ یہ اسلام کے لیے الگ سے ملک بن رہا ہے لیکن یہ پاکستان کا حصہ نہ بن سکے۔ اس کے باوجود انہوں نے 1971ء میں پاک فوج کی مدد کی، انہیں اپنے جنگلوں میں پناہ دی اور یہی وجہ ہے کہ حسینہ واجد کو یہ زہر لگتے ہیں ۔”
سیلانی کے ایک اور دوست سے روہنگیا ئی مہاجرین کی تازہ ترین صورتحال بتاتے ہوئے فرانس کی خبر رساں ادارے ا ے ایف پی کا لنک بھیج دیا،سیلانی اسے کھول کر پڑھنے لگا۔ ایسوسی ایٹڈ فرانس پریس معتبر خبر رساں ادارہ ہے، 4 ستمبر صبح 10:51 منٹ پر کئے گئے ٹوئٹ کے مطابق دس روز میں بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد 87ہزار ہو چکی ہے۔ اسی خبر کے نیچے کچھ لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کر رکھا تھا ایک نے ان “دہشت گردوں” کو سعودی عرب بھیجنے کا مشورہ دے رکھا تھا، دوسرے نے اس کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا تھا “بالکل ٹھیک!” اس سنگ دلی کا جواب ایک صاحب نے اس فوٹو سے دیا کہ جسے دیکھ کر سیلانی کانپ کر رہ گیا۔ زندگی اور موت کے مفہوم سے ناواقف بھوک سے بلکتا بچہ زمین پر پڑی مردہ ماں کی چھاتیاں منہ میں لیے ہوئے تھا۔
سیلانی اقوام متحدہ کی بات نہیں کرے گا کہ واشنگٹن کا اشارہ ملے بنا اس کی آنکھ بھی نم نہیں ہوتی۔ اسے اسی قبیل کے دیگر اداروں سے بھی کوئی گلہ نہیں کہ وہ مسلمانوں کا خون دیکھنے کی صلاحیت سے ہی عاری ہیں۔ اسے گلہ تو اپنوں سے ہے، کا ش وہ یہ تصویرخانہ خدا پر لاکھوں ریال کا معطر غلاف چڑھانے والے سعودی حکمرانوں کو بھیج سکتا، انہیں جھنجھوڑ سکتا۔ کاش وہ او آئی سی کے بے حمیت اور غیرت سے عاری ذمہ داروں سے پوچھ سکتا، ان کے گریبانوں پر ہاتھ ڈال سکتا۔ کاش وہ سعودی تخت وتاج کو بچانے کے لیے بنائی جانے والی مسلم ممالک کی فوج کے منصوبہ سازوں کے سامنے کھڑا ہوسکتا، ان سے کہتا کہ کتنا جی لوگے ؟ ملنا تو خاک ہی میں ہے نا! سن رکھو اسی خاک سے تمہیں اٹھایا جائے گا اور تب مردہ ماں کی چھاتی سے لپٹے بچے سے رب العالمین کہے گا کہ بتاتوماں کی ٹھنڈی چھاتیوں سے کیوں لپٹا ہوا تھا تو اس کے جواب میں کیے جانے والے سوال پر ان محلّات میں رہنے والے خادمین حرمین شریفین،پٹرول کے کنوؤں میں ڈول ڈالے شیوخ اور عجم کے طاقت و حشمت والے حکمران کوئی جواب دے سکیں گے؟ قسم خدا کی سوال ہو گا اور بے حمیت بے غیرت شاہ بن کر اکڑنے والوں کو جواب دینا ہوگا۔ مٹیالے پانی کی گڑیا کے ادھ کھلے لب ہوں یا ماں کی چھاتیوں سے لپٹا بلبلاتا شیر خوار، جواب دینا ہوگا، حساب دینا ہوگا۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا نمناک آنکھوں سے مٹیالے پانی پر تیرتی معصوم بچی کی لاش دیکھنے لگا اور لب بھینچ کر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔