برما،آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

یہ آپ ہی تھے نا جو ہمیں وقت بے وقت طعنے دیکر کہتے کہ کہاں ہے امت ؟ کون ہے امت ؟ کیسی ہے امت ؟
نیا دور ہے نئے تقاضے ہیں ، جس قومی ریاست کے ڈبے میں قید ہو اسی طرح سوچو اسی کے لئیے سوچو اپنی جان دیکھو دوسروں کے غم میں گھلتا دیکھ کر آپ ہنسا کرتے اور ہمیں سمجھاتے کہ کن دقیانوسی خیالات کے پر چارک ہو ” سب سے پہلے پاکستان ” کی بات کرو ۔۔۔۔
پھر آپ نے کل کچھ دیکھا ؟ شیشان ( چیچنیا) تا انڈونیشیاء ؟ آپ نے ملاحظہ کی ناٹے قد کی وہ انڈونیشن خاتون کہ جسکی پلکوں پہ برمی عورتوں بچوں کے لئیے آنسوؤں کا تحفہ تھا ۔۔
آپ نے عظیم ترکوں کی بے قراری دیکھی جو بنگلہ سرکار کو پیشکش کرتی ہے کہ جتنے مظلوم آتے ہیں آنے دو سرحد بند نہ کرو ، سارا خرچ ہمارے ذمہ ۔۔۔
اور ہاں ، کوہ قاف (قفقاز) کے خوبصورت مرد و زن نظر آئے ؟ جو ہزاروں کی تعداد میں ان روہنگینز کے واسطے دیوانہ وار نکل پڑے ، جنہیں کبھی براہ راست دیکھا نہ سنا، جن سے نسلی تعلق نہ معاشی فائدہ کی امید ۔۔۔۔
یہ وہی شیشانی ہیں جو ہمیشہ سے مزاحمت کا روشن استعارہ ہیں امام شامل سے لیکر جعفر دودائیف اور شامل بسائیف تا زیلم خان اندرابے ، گروزنی کے وہ شیر دل جنہوں نے غاصب روس اور ظالم یلسن و پیوٹن کے خلاف آزادی کی بے مثال جنگ لڑی جانیں دیں اور ہمیشہ کے لئیے امر ہوگئے وہیں کہیں حجاز مقدس کا خطاب بھی برف اوڑھے سوتا ہے جس کی شجاعت افسانوی کردار جیسی تھی ،۔
خیر ، بات کہیں سے کہیں نکل گئی ، لیکن مظلوم برمیوں کے واسطے تو وہ شیشانی بھی نکل آئے جو خود ظالم پیوٹن کے پنجرے میں قید ہیں ۔
آپ کو پتہ ہے نا کہ یہ کیا ہے ؟
یہ امت ہے سر ، امت ۔ وہی امت جو معاشی عسکری اور مذھبی و لسانی تفریق کا شکار ہے جو علم کے میدان میں پسماندہ ہے جو ٹیکنالوجی کے کھیل میں بہت پیچھے رہ گئی جسکی قیادت بدقسمتی سے بالشتیوں کے ہاتھ لگ گئی یہ وہی بونے ہیں جن کا دین ایمان دھرم اور نظریہ پیسہ ہے جو نفس کے پجاری اور درہم کے بندے ہیں یہ آمر ہیں جمہوری ہیں مذھبی ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے حقیر سے مفادات کے اسیر ۔۔۔۔
لیکن بات یہ ہے میرے دوست ۔ یہ جلی کٹی پھٹی لاغر کمزور اور بے بس سی امت آج بھی تڑپ اٹھتی ہے جب کسی خطے میں اپنے بھائیوں کو ذبح ہوتے دیکھتی ہے ، نیشن اسٹیٹ کے چالبازوں کی محنت ایک طرف لیکن امت سے محبت مسلمانوں کا وہ ہتھیار ہے جو اس خاکستر امت میں یوں چنگاری بھڑکاتا ہے کہ شرق و غرب کا پیر و جواں خود میں نئی حرارت و توانائی پیدا ہوتے دیکھتا ہے جو اسکے عزم و یقین کو مضبوط کرتا چلاجاتا ہے ۔
اس امت کو ویژنری قیادت کی ضرورت ہے جو بالشتیوں کے ہاتھوں یرغمال مسلمانوں کو رہائی دلا کر کائنات کی وسعتوں کی طرف گامزن کر سکے اور ہر آن طعنہ زن اقلیت کو بھی اپنے وجود میں سمو سکے ۔۔۔۔
پس تحریر ۔۔۔
کراچی پریس کلب پہ نو ستمبر ہفتہ دو تا پانچ بجے برمی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ ہوگا جسے وقت و موقع میسر ہو لازمی شرکت کرے ۔

حصہ
mm
فیض اللہ خان معروف صحافی ہیں۔۔صحافیانہ تجسس انہیں افغانستان تک لے گیاجہاں انہوں نے پانچ ماہ تک جرم بے گناہی کی سزا کاٹی۔۔بہت تتیکھا مگر دل کی آواز بن کر لکھتے ہیں۔کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل س وابستہ ہیں

جواب چھوڑ دیں