وقت ایک انمول دولت ہے اور اس کی اہمیت سے وہی لوگ واقف ہوتے ہیں جو جانتے ہیں کہ وقت ہمارے ساتھ نہیں بلکہ ہم وقت کے ساتھ چلتے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسان وقت پر قابو نہیں پا سکتا ہے۔جب انسان وقت پر قابو نہیں پا سکتا ہے تب ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو وقت کے تقاضوں کے مطابق گزاریں۔آدمی کے طرز اوقات گزاری سے اس کی زندگی کے مقاصد کا پتا چلتا ہے کہ وہ زندگی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔اﷲ رب العزت نے تما م انسانوں کو سال کے 365دن اور 12 مہینوں کا عظیم تحفہ یکساں عنایت فرمایا ہے۔ہر انسان کو ہفتے کے سات دن اور ہر دن کے 24گھنٹے ،1440منٹ اور86,400سیکنڈ دستیاب ہیں۔یہ گھڑیاں بعض افراد کو زیادہ اور بعض کو کم کیوں محسوس ہوتی ہیں؟اس سوال کا نہایت ہی آسان اور سہل جواب ہے کہ’’ کسی بھی فرد کی تنظیمی صلاحیت اس کے شخصی شوق و ذوق، ضروریات،سکت و توانائی اور قابلیت کا پر تو ہوتی ہے۔‘‘ تنظیم اوقات سے عاری دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو وقت کو برباد کرتے ہیں اور دوسرے درکار جگہ کے درسست استعمال سے نابلد حضرات۔ طلبہ جب اپنے وقت اور جگہ کے درست استعمال ،تنظیم و ترتیب سے آشنا ہوجاتے ہیں تو ان کی زندگی سہل اور آسان ہوجاتی ہے۔ہے۔بہتر زندگی میں ترتیب و تنظیم کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں وقت کے ساتھ جگہ کی ترتیب و تنظیم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اکثر طلبہ وقت کی تنظیم و ترتیب کو تو ملحوظ رکھتے ہیں لیکن جگہ کے درست استعمال اور سلیقہ مندی سے خو د کو عاری رکھ کر ذہنی الجھن اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔جو لوگ بامقصد زندگی گزار نا چاہتے ہیں یقینا ان کی زندگی میں ترتیب و تنظیم پائی جاتی ہے۔تنظیم و ترتیب کوئی عطائی شئے نہیں ہے جس کی ہم صرف آرزو ہی کر سکتے ہیں۔ ترتیب ،تنظیم اور سلیقہ مندی انسان اپنی کوشش ،کاوش اور مسلسل عمل سے حا صل کر سکتا ہے۔امت مسلمہ اپنے عروج کے دور میں جن اچھے اوصاف کی وجہ سے مشہور تھی ان میں زندگی میں تنظیم و ترتیب بھی ایک اہم وصف ہے۔ایک مسلمان طالب علم کے لئے کیا ہر انسان کے لئے نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے ۔بنی اکرم ﷺ کی زندگی میں ہر کام میں ہم کو تنظیم و ترتیب دیکھنے کو ملتی ہے۔ہرکام کا ایسا نظام الاوقات اور ہر چیز کو ایسی جگہ پر رکھا گیا ہے کہ اس میں کسی تبدیلی کی آج بھی کوئی ضرورتمحسوس نہیں ہوتی ۔ہر طالب علم کے لئے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کاادراک ضروری ہے ۔جب طلبہ اپنی صلاحیتوں سے واقف ہوجاتے ہیں تو ان کو نکھارنے اور پروان چڑھانے کے لئے ایک منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو موثر اور بہتر بنا سکیں۔منصوبہ بندی کے ذریعہ ایک مصروف آدمی بھی ہمیشہ فارغ رہ سکتا ہے بقول بل کلنٹن سابق صدر امریکہ ’’ایک مصروف آدمی کو ہمیشہ فرصت حاصل رہتی ہے۔‘‘میر ے پاس وقت نہیں ہے۔رکھی ہوئی چیز مجھے نہیں مل رہے ہے یہ ایک معذور ذہن کے حامل افراد کے بہانے ہوتے ہیں۔فورڈ کار کے موجد و مالک ہنری فورڈ کے مطابق ’’اگر نظام الاوقا ت کی مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو اتنی وقت میں دگنا کام کرتے ہوئے ہم دباؤ اور تناؤ سے خو د کو بچا سکتے ہیں۔‘‘امریکہ کے صدر سے لے کر ہماری ریاست کے چیف منسٹر تک سب کو صرف 24گھنٹے ہی دستیاب ہیں۔پھر وہ کیسے تمام امور میں توازن بر قرار رکھ رہے ہیں اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ان کی زندگی میں تنظیم و ترتیب ہر وقت ہر پل دیکھی جاسکتی ہے۔
افراد کو بنیادی طور پر دو قسموں میں ایک ٹائم کنٹرولر(Time Controllers) اور دوسرا اسپیس کنٹرولر(Space Controllers) میں تقسیم کیا گیا ہے۔جان گیرے(John Grey)کے مطابق ٹائم کنٹرولرس کی مزید پانچ قسمیں پائی جاتی ہیں۔
کلف ہینگرس(Cliff Hangers)تساہل پسند لوگ:
تساہل پسندی کے شکار افراداکثر فیصلہ سازی کے عمل میں تاخیر کے عادی ہوتے ہیں یا پھر لمحہ آخر تک کسی کام کو ٹالنے یا موخر کرتے ہیں۔یہ لوگ جب تک ان پر کوئی بیرونی دباؤ اثر انداز نہیں ہوتا ،کام کی طرف مائل یا راغب نہیں ہوتے ہیں۔تساہل اور ٹال مٹول کرنے والے ایسے اشخاص کو کلف ہینگر س کہا جاتا ہے۔یہ لوگ تخمینہ سازی ،موازنہ اور اوقات کی تنظیم میں بہت ہی کمزور واقع ہوتے ہیں۔ٹال مٹول کی کیفیت کے عادی طلبہ کیلنڈریعنی انجام دینے والی سرگرمیوں کی ایک جامع فہرست کی تیاری (تقویم سازی) اور مصنوعی دباؤ پیدا کرنے کی عادات کو اپنا کر اپنی تساہل پسندی پر قابو پاسکتے ہیں ۔ مصنوعی دباؤ کی پیدائش سے مراد دلچسپ سرگرمی یا کام کو کسی اہم کام کے بعد اہمیت یا ترجیح دینا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ایک طالب علم کو رات میں چند کام انجام دینے ہیں جیسے
اپنے دوست سے گفتگو کرنا
آدھے گھنٹے کے لئے ٹیلی ویژن دیکھنا
رات کا کھانا کھانا
سونے سے قبل ایک گھنٹے تک اپنے اسکول یا کالج کے نوٹس لکھنا۔
اگر آپ تساہل پسندی (کلف ہینگر)کے شکار ہیں تب آپ رات کے کھانے پر نوٹس لکھنے کو ترجیح دیں تاکہ کھانے کے بعد آپ کی تساہل پسندی عود کر آپ کو پڑھنے اور لکھنے سے باز نہ رکھے۔
کمالیت پسندی کا شکار اشخاص(Perfectionists)
کمالیت پسندی کے مرض کا شکار افراد کسی بھی کام کو بہتر سے بہتر کرنے کی دھن میں اس کی جزئیات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے اکثر اپنے کام کو پائے تکمیل تک نہیں پہنچا پاتے ہیں اور ان کا کام ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔اس کیفیت کے حامل افراد کو کمالیت پسندی کے فریب میں گرفتاراشخاص (Perfectionists) کے نام سے معنون کیاگیا ہے۔عمومی طور پر یہ لوگ نہیں سمجھ پاتے کہ ان کی اوسط کارکردگی بھی لوگوں کو بہتر طور پر قبول ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ عدم قبولیت کے وہم میں گرفتا ر رہتے ہیں۔ یہ اکثر کم ہمتی اور پست حوصلے کے حامل ہوتے ہیں۔اگر آپ کمالیت پسندی کے فریب کا شکار ہیں تو لازمی ہے کہ آپ اہم اور ضروری کاموں کی ترجیحات کے مابین تمیز کی صلاحیت پیدا کر یں تاکہ معمولی قسم کے کاموں میں اپنے معیار کو کم کر تے ہوئے کام کوپائے تکمیل تک پہنچا سکیں۔کمالیت پسندی کے مرض کی وجہ سے اکثر کام تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں ایسی بیکار اور فضول قسم کی کمالیت پسندی سے اجتنا ب بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔امتحان کے وقت کمالیت پسندی کے اسی مرض کی بناء طلبہ ایک ہی سوال پر اتنا وقت صرف کردیتے ہیں کہ دیگر سوالات کے جوابات تحریر کرنے کے لئے وقت کی تنگی ہوجاتی ہے۔سوال کی اہمیت اور نشانات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر طلبہ جواب تحریر کریں گے توانھیں وقت کی تنگی کا شکوہ نہیں ہوگا۔کمالیت پسندی کے فریب میں ملوث افراد معیار کو بنیاد بنا کر کوئی بھی کام انجام دینے سے احتراز کرنے لگتے ہیں۔کام کو لگا تار اور مسلسل کرتے رہنے سے اس میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ابتدائی مراحل میں ہی اگر معیار کو بنیاد بنا کر طلبہ کام سے فرار حاصل کرنے لگ جائیں تب ناکامی ان کا مقدر بن جائے گی۔
اچھلو قسم کے طلبہ(Skippers)
اچھلو قسم کے طلبہ اکثر منصوبہ سازی میں پیش پیش اور عمل میں پیچھے رہتے ہیں۔وہ بڑے مقاصدکے تعاقب میں لگے رہتے ہیں اور مجموعی طور پر مسائل کو بہتر طور پر حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن بے صبر ی ان کے مزاج کا ایک اہم عنصر ہوتی ہے۔ایک طالب علم جو اپنے امتحان کے جوابی بیاض کو لوٹانے سے پہلے اس کی جانچ نہیں کر تاوہ بھی اچھلو(Skipper)کہلاتا ہے۔ خوش فہمی کی وجہ سے تفصیلات کو معمولی جان کر طلبہ جب روگردانی کر تے ہیں تب کئی تشویشناک پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔اس تبا ہ کن عادت سے چھٹکار ا حاصل کرنے کے لئے طلبہ اپنی روز مرہ زندگی میں انجام د ی جانے والی سرگرمیوں کی ایک فہرست کو تیار کرتے ہوئے اور اس کی جانچ و تنقیح کے ذریعہ اپنے ہر فعل کی اصلاح کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
تماشہ بین (Fence Sitter)
فیصلہ سازی میں ٹال مٹول سے کام لینے یا پھر مسائل کے مثالی حل کے متلاشی عادت کے حامل افرادکوئی فیصلہ کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں ان کو تماشہ بین (Fence Sitters) کہا جاتا ہے۔غلط فیصلہ سازی کے خوف سے یہ کوئی فیصلہ ہی نہیں لے پاتے ہیں۔ایک تما شہ بین فطرت کا حامل فرد اپنی کامیابی پراپنے دوستوں کے لئے ایک دعوت (پارٹی) کا اہتمام کرنا چاہتا ہے لیکن دعوت کو ملتوی کر دیتا ہے کیونکہ کبھی اس نے دعوت کا اہتمام ہی نہیں کیا ہے۔ریاضی (Mathematics)،کیمیاء(Chemistry)،طبعیات(Physics)یا کوئی اور مضمون کو مشکل سمجھ کر اس کو نہ پڑھنا طلبہ کی مشکلات کو اور بڑھا دیتا ہے۔جب کسی مشکل کا آپ کو اندازہ ہوجائے تب اس کو آسان بنا نے کی آپ کو سعی و کوشش کرنے چاہئیے نہ کہ مشکل سے دامن بچانے کے لئے میدان عمل سے ہی راہ فرار اختیار کر لی جائے ۔یہ کمزورں اور بزدلوں کا شیوہ ہوتا ہے۔تماشہ بینی کی کیفیت سے دوچار طلبہ کسی بھی کام کو شروع کرنے اور آگے بڑھانے کے فن سے نا بلد ہوتے ہیں۔والدین اور اساتذہ کو ایسے مرحلوں میں اپنی رہنمائی کے فرائض اتم طور پر انجام دینے ہوتے ہیں۔طلبہ ایسے مرحلے میں کام کو مختصر کرتے ہوئے ، متبادلات کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے، ترجیحا درجہ بندی کرتے ہوئے اور کام کی تکمیل کے لئے ایک حتمی تاریخ مقرر کرتے ہوئے اس کیفیت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
Hoppers
بیک وقت کئی کام انجام دینے کی کوشش میں سبھی کاموں کو نا تمام ہی چھوڑ دینے والے افراد کو Hoppers کہا جاتا ہے۔یہ جلد باز ی اور تنوع سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ بہت جلد مطمین و مسرور ہوجاتے ہیں۔ اپنی بھر پور توانائی استعمال کرتے ہوئے یہ نہ صرف خو د کو فعال رکھتے ہیں بلکہ بیک وقت کئی منصوبوں کو پائے تکمیل تک پہچانے کااشتیاق بھی رکھتے ہیں۔لیکن اس فطرت کے حامل اکثر افراد خود کے یقین و اعتماد پر کامل نہیں اتر پاتے ہیں۔اگر ایک طالب علم اپنے میں جب اس کیفیت کو محسوس کرتا ہے جو اس کی پڑھائی اور تعلیمی سرگرمیوں کے لئے تباہی و بربادی کا باعث ہوتی ہے تب وہ اپنے افعال و اعمال کی بہتری کے لئے خصوصی منصوبہ بندی کر ے اور اسمارٹ(SMART) کے اصول کو اپنائیں۔یعنی مقاصد =Specific S مخصوص ہوں عمومی بالکل نہ ہوں۔ مقاصدM=Measurableیعنی قابل پیمائش ہوں،مقاصدA=Attainable قابل حصول و قابل عمل ہوں،مقاصد R=Realisticیعنی حقیقی ہوں اتنے چھوٹے بھی نہ ہوں کہ آپ کو تحریک بھی نہ دے سکیں اور اتنے بڑے بھی نہیں کہ آپ کے متعین کردہ وقت میں ان کو حاصل کرنا ناممکن ہو۔مقاصد T=Timeboundیعنی ان کی مدت معین ہوں۔بڑے کام کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں تقسیم کرتے ہوئے اور ہر چھوٹے ہدف کے لئے ایک وقت مقرر کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی جانب طلبہ رواں دواں رہ سکتے ہیں۔طلبہ کے اس عمل کی وجہ سے ان کو اپنے محاسبے کی عادت پڑجائے گی۔خود احتسابی ایک عظیم دولت ہوتی ہے اور جو اس سے متصف ہوجاتا ہے اس پر قدر ت مہربان ہوجاتی ہے اور اس پر علم ودولت کے خزانے لٹا دیتی ہے۔مذکور ہ پانچ شخصیات کی خصلتوں کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بہت زیادہ فرق نہیں پایا جاتا ہے۔ان پانچ شخصیتوں میں پائی جانے والی خصلتیں مختلف تناسب اور مختلف حالات میں ہر ایک انسان اور طالب علم میں پائی جاتی ہیں۔تعین کردہ مقاصداورمقاصد تک رسائی ،مقاصد کے حصول میں کن امور پر قابو پانا اور کن امور کو آزادی فراہم کرنا،کب اور کہاں آرام کرنا اور کسیے مقصد کے حصول میں تندہی سے لگے رہنا ان تمام خصلتوں سے آگہی پیدا کرتے ہوئے طلبہ اپنے علمی سفر کو آسان اور پر کیف بنا سکتے ہیں۔
اسپیس کنٹرولر(Space Controllers)
ٹائم کنٹرول خصلت پر سیر حاصل گفتگو کے بعد اب اسپیس کنٹرول پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے ۔جب کوئی انسان کسی خا ص اور اہم کام کی انجام دہی میں منہمک ہوجاتا ہے تب افراتفری اور تنظیم و ترتیب سے پر ماحول کا پایا جانا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی ہم ہر شئے کو اس کے مقام پر رکھ سکتے ہیں۔جسے اسپیس کنٹرولنگ یعنی ترتیب اشیاء کہاجاتا ہے۔اسپیس کنٹرولر بھی پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔(1)ذخیرہ اندوز (Dumpers)یہ لوگ اپنی میز پر ہر چیز کو سجاکر خوش ہوجاتے ہیں کہ وہ اتنے سارے کام انجام دے رہے ہیں۔اس خصلت کے طلبہ سوچتے ہیں کہ چلو آج کام کو اکھٹاکرلیتے ہیں اور کام کی اشیاء نوٹس کتابوں اور دیگر دستاویزات کو بنا کسی احیتاط اور ترتیب کے یہاں وہاں اہم کاغذات کو کتابوں کے اندر رکھ دیتے ہیں۔ کام کے وقت اشیاء کی تلاش میں اپنا قیمتی وقت تباہ کردیتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی کے شائق طلبہ میں جگہ کی ترتیب اور تنظیم کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ضرورت کی وقت بہت ہی پریشان اور الجھن میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔والدین بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی اشیاء کی ترتیب ،درجہ بندی ، اشیاء کو اٹھا کر رکھنے اور وقت ضرورت بغیر کسی الجھن کے ان کو حاصل کرنے کی سلیقہ مندی جیسے اپنے اسکولی جوتے، موزوں،اسکول بیاگ ،پین ،پنسل اور دیگر اشیاء کو سلیقہ مندی اور ترتیب سے رکھنے اور ان کو بغیر کسی الجھن اور وقت کی بربادی کے حاصل کرنے کی تربیت کا اہتمام کریں۔(2)کلین ڈسک(Clean Desk)کلین ڈسک سے مراد ہر شئے کو ترتیب اور سلیقہ مندی سے رکھنے والے طلبہ ہوتے ہیں۔اپنی زندگی میں سلیقہ مندی اور ترتیب کی وجہ سے ان کاکام او ر کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔یہ ہر شئے کوریکارذکرنے کے عادی ہوتے ہیں۔کلین ڈسک خصلت کے حامل افراد سختی سے روزانہ کام کی منصوبہ بندی کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔جب انسان اپنے روز مرہ کے افعال کی انجا م دہی کی منصوبہ بندی نہیں کرتا ہے تب وہ ذہنی الجھن و خلفشار کا شکار ہوکر اپنے معلنہ کام کی انجا م دہی میں ناکام ہوجاتا ہے۔(3)درست زاویہ نگا ہ کے حامل افراد(Right Anglers)جب تک یہ اشیا ء کو سلیقہ مندی سے رکھتے ہیں تب تک ان کو کسی بھی طرح کی افراتفری سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔یہ لوگ صفائی اور ترتیب کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ہر شئے پر قابو اوراس کو درست رکھتے ہوئے کامیاب و کامران ہوجاتے ہیں۔ آدمی سلیقہ مندی اور درجہ بندی کو اس حد تک نہ سوار کر لیں کہ کو ئی کام ہی آگے نہ بڑھنے پائے۔جب تک معمولی نظم(orthodox management)سے کام چلتا ہے اس سے کام لیتے رہیں۔ افراتفری اور بے ترتیب سے بچاؤ کے لئے سختی سے ان عادات کو تج دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس زمرے کے طلبہ اکثر بڑے کام انجام دینے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ وہ اس کو ایک ہی نشست میں مکمل نہیں کر سکتے ہیں۔اسی لئے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہر بڑے کام کوآسان بنانے کے لئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹتے ہوئے انجام دیں تاکہ باآسانی کام کی تکمیل کو ممکن بنایا جاسکے۔(4) خول خود فریبی میں محروس افراد(پیاک ریاٹس)(Pack Rats) ؛جو شخص اپنی زندگی میں ترتیب و تنظیم کی کوئی سعی نہیں کر تا اور سمجھتا ہے کہ اس کی مراد کبھی نہ کبھی ضرور پوری ہوگی ایسے افراد کو پیاک ریاٹس کہا جاتا ہے۔یہ لوگ اپنے دسترس میں واقع اشیاء کے بارے میں بہت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے غیر ضروری اشیاء کو بھی ایک خزانے سے کم نہیں سمجھتے ہیں۔کونسی شئے کو رکھا جائے اور کس کو پھینک دیا جائے یہ اس بات کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ایسی خصلت کے حامل طلبہ کو چاہیئے کہ وہ غیر ضروری اشیاء سے مفت یا معمولی قیمت پر دستبردار ہوجائیں۔طلبہ جگہ اور آرام کی اہمیت و افادیت کوملحوظ رکھیں۔(5)بد سلیقہ اشخاص(Total Slobs) یہ بھی ریاٹ پیاک افراد کی طر ح ہی ہوتے ہیں لیکن ان میں ایک فرق پایا جاتا ہے کہ یہ کسی بھی شئے کو بغیر کسی ارادے اور مقصد کے ذخیرہ کرتے رہتے ہیں۔اپنی دسترس میں موجود اشیاء کی قدر و قیمت سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی فضول اشیاء سے یہ چھٹکارا حا صل کر نے کاکوئی ارادہ کرتے ہیں۔یہ اپنی زندگی اور اشیا ء میں تنظیم و ترتیب سے نفرت کرتے ہیں۔بچوں میں دراصل یہ رجحان ماں باپ کی جانب سے خراب تربیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔یہ غیر حا ضردماغ،چڑچڑے اور جلد آپے سے باہر ہونے اور افسردہ رہنے والے افراد ہوتے ہیں۔طلبہ اس کیفیت سے اپنی زندگی میں بتدریج تبدیلی اور تنظیم و ترتیب کو جگہ دیتے ہوئے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔مثلا اپنے کپڑوں اور دیگر اشیاء کو ادھر ادھر نہ پھینکیں اور ان کو ایک جگہ رکھتے ہوئے اپنے زندگی میں ترتیب و تنظیم کو پیدا کرنے کو کوشش کر یں۔
اب طلبہ کو خو د فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کونسے معیار زندگی کو اپنائیں گے۔اپنی جگہ کو صاف اور ترتیب و تنظیم سے رکھنا آپ کی شخصیت کی غمازی کرتا ہے۔آپ کو یہ علم ہونا ضروری ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں ،اور چاہی جانے والی شئے تک آپ کیسے پہنچ پائیں گے اور نہ بھی پہنچ پائیں تب آپ کیا کر یں گے۔انیسویں صدی کا ایک معروف شاعر فلسفی گوئٹے(Goethe) کہاتا ہے کہ “Things which matter most must never be at the mercy of things that matter least”(جو چیزیں نہایت اہم ہوتی ہے ان کو غیر اہم چیزوں کے رحم و کرم پر کبھی نہیں چھوڑا جاسکتا )اور جو اس بات کو اپنے زندگی کا جزو بنا لیتے ہیں وہی زندگی ترتیب و تنظیم والی زندگی کہلاتی ہے۔طلبہ اگر زمانہ طالب علمی سے وقت کی تنظیم اور جگہ کی ترتیب کی اہمیت کو ملحوظ رکھیں تو یقینی طور پر وہ مستقبل میں ایک کامیاب اور ذمے دار شہری بن سکتے ہیں۔تنظیم و تربیت کے ذریعے ہم اپنی زندگی کو الجھنوں اور پریشانیوں سے پاک کر سکتے ہیں۔تنظیم و ترتیب کے ذریعہ نہ صرف طلبہ اپنی ذات کے لئے مفید ہوجائیں گے بلکہ یہ چیز قوم و ملت کے لئے ایک بہترین خدمت بھی ہوگی۔معروف فلسفی افلاطون کا قول نہ صرف طلبہ بلکہ ہر انسان کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔’’وقت ایک ایسی زمین ہے جس میں محنت کیے بغیر کچھ پیدا نہیں ہوتا ۔اگر محنت کی جائے تو زمین پھل دیتی ہے اور اگر بے کار چھوڑ دی جائے تو اس میں صرف خاردار جھاڑیاں ہی اگتی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے کرنے کے کام میں سو فیصد کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اس بات سے ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ ترجیحات کا علم تو ایسے وقت پر ہی کار آمد ہوتا ہے ۔اہمیت کے لحاظ سے کام کو ترجیح دیں اور اسے انجام دیں۔معاملات اور معمولات میں ہر حال میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔بشیر جمعہ نے اپنی کتاب شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر میں شیر شاہ سوری کا ایک بہت ہی پیارا قول نقل کیا ہے میں اپنے مضمون کو اسی قو ل پر ختم کرتے ہوئے آپ کو فکر و عمل کی دعوت دیتا ہوں’’بڑا آدمی وہ ہے جو اپنا سارا وقت ضروری کاموں میں صرف کرے۔‘‘
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔