چین جس تیزی سے معاشی ترقی کر رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ بہت جلد یہ امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی نمبر وَن معیشت اور ایک بڑی فوجی طاقت کے طور پر سامنے آئے گا۔ تاہم چین کے اس خواب کو تعبیر اس وقت ہی ملے گی جب چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی توانائی کی ضرورت پوری ہوگی۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنا چین کے لئے زندگی اور موت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین ایک ساتھ 50 مختلف ملکوں میں توانائی سے متعلق منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ جس میں سے ایک برما کے مسلم اکثریتی صوبے اراکان (رَکّھائین) کے ساحل پر ڈیپ سی پورٹ کی تعمیر اور چین کے شہر کونمنگ سے پورٹ تک تیل اور گیس کے علیحدہ علیحدہ پائپ لائین کی تعمیر بھی شامل ہے۔ ان کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے اور ان سب نے حال ہی میں کام کا آغاز بھی کردیا ہے۔ اس سارے پروجیکٹس پر ڈھائی ارب ڈالر کے اخراجات آئے ہیں جو چین نے فراہم کئے ہیں۔
کونمنگ جنوبی چین کے صوبے یوننان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے جو کہ برما کے قریب واقع ہے۔ کونمنگ سے مغرب کی طرف پاکستانی بندرگاہ گوادر تک کا فاصلہ 7000 کلومیٹر ہے جبکہ کونمنگ سے جنوب میں برما کے راستے خلیج بنگال کا فاصلہ صرف 2000 کلومیٹر ہے۔
تیسری طرف کونمنگ سے برما کے راستے بحرہند تک پہنچنے کا فاصلہ موجودہ روٹ یعنی پہلے مشرقی ساحلی شہر شنگھائی جانے اور پھر انڈونشیا-ملائشیا کے درمیان میں واقع آبنائے مَلاکّا سے گزرتے ہوئے بحرِ ہند پہنچنے کے مقابلے میں نصف سے بھی کم رہ جاتا ہے، جبکہ آبنائے مَلاکّا پر امریکہ کے بحری بیڑے کا قبضہ بھی ہے جو اس نے 9/11 کے بعد سے دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر کر رکھا ہے۔ چین کو یہ خطرہ ہے کہ امریکہ جب چاہے گا یہ راستہ بند کرسکتا ہے۔ جس سے چین کی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے نزدیک برما کے صوبے اراکان میں اپنے تعمیر شدہ پورٹ اور تیل و گیس پائپ لائین کی بہت زیادہ اہمیت ہے جس سے روزآنہ ساڑھے چار لاکھ بیرل خام تیل کونمنگ منتقل ہوتا ہے اور جسے وہاں کی ریفائنریز میں پاور پلانٹس کے لئے صاف کیا جاتا ہے۔
ان تمام پروجیکٹس میں روس چین کے ساتھ کھڑا ہے اور تمام 50 ملکوں میں جاری چین کے توانائی کے پروجیکٹس کا مکمل حمایتی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ سے تیل اور گیس کی تجارت کے علاوہ، ایک اندازے کے مطابق صوبے اراکان جسکا موجودہ نام رکّھائین ہے کے اپنے ساحلِ سمندر میں بھی 2 ارب مکعب میٹر سے زائد تیل اور 12 کھرب مکعب میٹر قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ قیمتی دھاتوں اور پتھروں کے ذخیرے بھی دریافت ہوئے ہیں جس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔ رَکّھائین کا دارالحکومت سائیٹ ٹوئے Sittwe ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ چین جانے والے تیل اور گیس کے دونوں پائپ لائنوں کا آغاز اسی شہر سے ہوتا ہے۔
حکومت نے پورٹ کے آس پاس کے علاقے کو ملٹری زون قرار دیا ہوا ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں فوجی تعینات ہیں۔ اس علاقے میں امن و امان قائم رکھنا چین کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ برما کی حکومت اس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو ممکنہ خطرے کی نظر سے دیکھتی رہی ہے اس لئے اس کی اندرونِ خانہ خواہش ہے کہ مسلمانوں کی پوری آبادی کو یا تو بنگلہ دیش دھکیل دیا جائے یا ختم کردیا جائے۔ رَکّھائین میں پچھلے پانچ سات سالوں میں بڑھتے ہوئے قتلِ عام کی یہ بہت بڑی وجہ رہی ہے۔ چین اس سارے معاملے پر اس لئے خاموش ہے کہ وہ ہر صورت اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔
تقریباً بیس سال پہلے 1988 میں برما میں سویلین حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے نتیجے میں امریکہ اور یوروپ نے برما کے خلاف اقتصادی اور سیاسی پابندیاں عائد کردیں تھیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں برما تقریباً پوری دنیا سے کٹ گیا تھا۔ چین نے اپنے پڑوسی ملک برما جس سے اسکی 2000 کلومیٹر طویل سرحد بھی لگتی ہے اور جس سے اسکے تاریخی اور ثقافتی تعلقات بھی رہے ہیں، کی سیاسی اور معاشی تنہائی کو بڑی مہارت سے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔ 1988 سے 2011 تک کے عرصے میں جب برما پر مغربی ملکوں کی طرف سے اقتصادی پابندی تھی، چین نے برما میں بڑے پیمانے پر انویسٹمنٹ کئے۔ یہ انویسٹمنٹ نہ صرف فوجی سیکٹر میں تھے بلکہ توانائی اور صنعتی شعبوں میں بھی تھے۔ اس عرصے میں برما کے تیل اور گیس کے ذخائر اور سونے اور تانبے کو چین لیجانے اور برما میں پَن بجلی کی پیداوار کو چین کی طرف سے خریدنے کے منصوبے بھی شامل تھے۔ اس عرصے میں برما میں چین کی انویسٹمنٹ 13 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔
نومبر 2015 کے الیکشن میں مغرب نواز آنگ سان سوچی کی حکومت بننے کے بعد برما کے امریکہ اور یوروپ سے تعلقات بہتر ہونا شروع ہوگئے، اقتصادی پابندیاں ختم ہوگئیں اور امریکی انویسٹرز نے تیزی سے برما کا رُخ کرنا شروع کردیا۔ جسکے نتیجے میں برما میں جنوری 2017 تک 70 ارب ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ہوچکی تھی۔ بڑی بڑی کمپنیاں درج ذیل ہیں
شیوران Chevron امریکہ
شیل Shell امریکہ
کیٹرپلر Caterpillar امریکہ
فورڈ Ford امریکہ
جوہن ڈئیر John Deere امریکہ
جنرل الیکٹرک GE امریکہ
اسٹیٹ آئل Statoil ناروے
ٹوٹل Total فرانس
ای این آئی ENI اٹلی
مِٹسوئی Mitsui جاپان
ڈائیوو Daewoo جنوبی کوریا
امریکہ اور یوروپ کبھی نہیں چاہیں گے کہ برما پر انسانی حقوق کو بہتر کرنے سے متعلق دباؤ ڈال کر اپنی کمپنیوں کے کاروبار کو خطرے میں ڈالیں اور چین کو موقع دیں کہ وہ اُنکے ملکوں کی کمپنیوں کی جگہ لے سکے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہنا چاہیئے کہ امریکہ کی اوپر بیان کردہ تمام کمپنیاں یا تو ریپبلکن یا پھر ڈیموکریٹ پارٹی کو بڑے بڑے چندے دیتی ہیں۔ لہٰذا یہ بات بعید اَز قیاس ہے کہ امریکہ اور یوروپ برما پر کسی طرح کا دباؤ ڈالیں گے۔ اسی طرح کئی امریکہ سینیٹرز اور کانگریس (ایوانِ زیریں) کے ممبرز کے اوپر کی کمپنیوں میں شئیرز ہیں، لہٰذا وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ برما پر اقتصادی پابندیاں لگائیں اور خود اپنا منافع ختم کریں۔
دوسری طرف جاپان نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی معیشت کے مفاد کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے پر ترجیح دیتا ہے۔ یہی پالیسی جنوبی کوریا کی ہے۔ جبکہ عملی طور پر تھائی لینڈ کی پالیسی ہے کہ *تم میرے چور کو بُرا نہ کہو اور میں تمھارے چور کو بُرا نہ کہوں* یعنی وہاں بھی انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے۔
ان تمام صورتحال کی روشنی میں یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ رَکّھائین کے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کے خلاف نہ چین بولے گا اور نہ ہی روس اور نہ ہی امریکہ، یوروپ، جاپان، جنوبی کوریا اِن مظالم کے خلاف کسی قسم کا آواز بلند کریں گے۔
رہ گئے اسلامی ممالک، تو اُن میں اتنی قوت ہی نہیں ہے کہ اقوام متحدہ میں برما کے خلاف پابندیوں کی قرارداد منظور کراسکیں اور خلاف ورزی کی صورت میں اس کے خلاف ویسی ہی کاروائی کرسکیں جیسے امریکہ نے افغانستان اور فرانس نے لیبیا میں کی تھی۔ عرب اور ایران سے امید لگانا قطعی فضول ہے کیونکہ انکے لئے دنیا بھر میں ایک دوسرے سے بڑا دشمن کوئی نہیں ہے۔ وہ پہلے ایک دوسرے کو نیست و نابود کریں گے پھر اپنے اپنے دماغ کھولیں گے۔ بنگلہ دیش تو سراسر بھارت کی کالونی بن چکا ہے۔ لے دے کر پاکستان، ترکی، ملائشیا اور انڈونیشیا رہ جاتے ہیں۔ تاہم یہ ممالک بھی ایک ساتھ دو بین الاقوامی بلاک یعنی چین اور روس کا بلاک اور امریکہ اور یوروپ کا بلاک کے خلاف جانے کی ہمت نہیں کرسکتے ہیں۔
ایک طرف امریکہ اور یوروپ کا بلاک ہے جو اسلحہ بیچنے کے بہانے امیر مسلمان ملکوں کے ذرائع و وسائل پر قبضہ جما رہا ہے اور دوسری طرف چین اور روس کا بلاک ہے جو غریب ملکوں کے معدنی وسائل اور صعنتوں کو تجارت کے نام پر تباہ و برباد کر رہا ہے۔ دونوں بلاکس کے لئے انسانوں کا بہتا ہوا خون اہم نہیں ہے بلکہ پیسہ اہم ہے۔
ایسے میں خاموش بیٹھ جانا انسانیت کی تذلیل ہے اور یہ بھی کہ اگلی باری کسی دوسرے ملک کی بھی ہوسکتی ہے۔ کرنے کے کام میں سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ نام نہاد مہذب دنیا معصوم انسانی خون کو بہنے سے نہیں روک سکتی ہے۔ یہ اہم ترین انسانی کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے نزدیک تمام انسانیت ایک خالق کی مخلوق اور ایک آدم کی اولاد ہونے کے ناطے یکساں محترم ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جاگنا ہوگا اور اپنے اپنے ملکوں کو اس قابل کرنا ہوگا کہ کم سے کم آٹھ دس مسلم ممالک ایک متحدہ قوت بناسکیں کیونکہ ایک یا دو ملک پوری دنیا سے نہیں ٹکراسکیں گے۔ انہیں ایک ایسی قوت بننا ہوگا جس سے اقوامِ عالم میں انکے بات کی اہمیت ہو، سیکیورٹی کونسل میں انکی مستقل نشست ہو۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب یہ آٹھ دس ممالک کے عوام اپنے اپنے ملکوں میں دیانتدار اور محبِ وطن قیادت کو برسرِاقتدار لائیں تاکہ انکے ممالک تیز رفتار معاشی ترقی کرسکیں اور اپنے دفاع کو مضبوط کرکے اقوام عالم میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکیں۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بھکاریوں کی، لمبے لمبے دعوے اور نعرے لگانے والوں کی، مفاد پرستوں سے اپیل کرتے رہنے کی اور کمزور لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے بلکہ ایسے لوگوں کا وزن صرف اور صرف ایک بڑا سا زیرو ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔
دوسری طرف اسلام پسندوں کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگا کہ ملک میں ایماندار اور محبِ وطن قیادت کسی شارٹ کٹ سے یا محض سیاسی سرگرمیوں سے اقتدار میں نہیں آسکتی ہے۔ شعوری مسلمانوں کو اپنے ذ ہنوں میں یہ بات بٹھانا ہوگا کہ عادل و مصنف اور سچے و ایماندار لوگ اس وقت تک برسرِاقتدار نہیں آسکتے ہیں جب تک معاشرے کی ایک خاص تعداد اپنے اخلاق و کردار کو بلند کرکے متحد نہیں ہوجاتی ہے۔
اگر ہم پاکستان کی مثال لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ پاکستان میں اچھے لوگوں کا برسرِاقتدار آنا بہت ہی آسان ہے۔ یہاں صرف %15 ووٹ لینے والا مضبوط حکومت بنا لیتا ہے۔ %15 ووٹرز کے لئے زیادہ سے زیادہ %5 باشعور و باعمل مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا۔ باقی %10 سیاسی سرگرمیوں کے نتیجے میں اور معاشرے میں موجود بہتر اخلاق و کردار کے %5 لوگوں کے کردار و عمل سے متاثر ہوکر ووٹ دیدیں گے۔ لہٰذا اسلام پسندوں کا کام صرف اتنا ہے کہ معاشرے کے صرف %5 لوگوں کے اخلاق و کردار کو بلند کرکے انہیں متحد کرنے کی جدوجہد کریں، بس!!
*یہی ہمارا قرآنی فریضہ بھی ہے اور یہی ہماری سیاسی کامیابی کا راستہ بھی ہے۔*
اور اگر اسلام پسندوں سے صرف %5 لوگوں کے اخلاق و عمل کو بہتر کرکے متحد کرنے کی حکمت عملی بھی نہیں بنتی ہے تو پھر انہیں اس آیت کے مطابق وقت کا انتظار کرنا ہوگا :
*اِلَّا تَنۡفِرُوۡا یُعَذِّبۡکُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ۬ ۙ وَّ یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ وَ لَا تَضُرُّوۡہُ شَیۡئًا ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ- 9:39*
*تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔* *التوبہ*
اور اگر 45 میں سے صرف دس مسلمان ممالک بھی اپنے ملکوں میں یہ کامیابی حاصل کرلیتے ہیں تو اقوامِ عالم میں کسی کی جراءت نہیں ہوگی کہ انسانیت کی تذلیل کرسکے۔ اور وہی دن حقیقی انسانی آزادی اور فتح کا دن ہوگا۔
ماشا اللہ اور جزاک اللہ اعجاز صاحب!
پہلی بار یہ معلوم ہوا کہ برما کے مسئلے پر کوئی آواز کیوں نہیں اٹھ رہی، اور کس کس کے کون کون سے مفادات ہیں۔