کراچی(رپورٹ:حماد حسین)طلبہ کی کردار سازی میں ناکامی کی بڑی وجوہات مذہب سے دوری، اخلاقیات، سماجی اقدار اور مذہبی اقدار کی تعلیم فراہم کرنے سے قاصر ہو نا ہے۔بچوں میںدین اور خدا کی محبت پیداکرنے کے بجائے زیادہ زور دین کی لگائی گئی پابندیوں اور خدا کے غضب و غصے کا ذکراور تنبیہی پہلو پر زیادہ ہوتا ہے، جو کم عمری میں سمجھنے اور اس پر عمل پر آمادہ کرنے کے بجائے دوری کا سبب بنتے ہیں، استاد کو قرآن وسیرت کا مطالعہ، اخلاقیات کے ساتھ بچوں کی نفسیات اور جدید تعلیمی وتدریسی مہارتیں سیکھنی چاہییں تاکہ وہ طلبہ کی کردار سازی بہتر طریقے سے کرسکے۔ ان خیالات کا اظہار بے نظیربھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے شعبہ تعلیم کی انچارج اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرصائمہ محمود، جامعہ کراچی کے شعبہ ٹیچر ایجوکیشن کے انچارج ڈاکٹر امتیاز احمد،محمد علی جناح یونیورسٹی کے صدر شعبہ معاشیات کے ڈاکٹر محمد معراج ،عثمان پبلک اسکول سسٹم کی ڈپٹی ڈائریکٹر اکیڈمک اور ماہر نفسیات شیریں سلیم خان اورشعبہ تدریس سے وابستہ کنول نازنے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ عثمان پبلک اسکول سسٹم کی ڈپٹی ڈائریکٹر اکیڈمک اور ماہر نفسیات شیریں سلیم خان کا کہنا تھا کہ طلبہ کی کردار سازی میں ناکامی کی وجوہات تو کئی ہیں جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ بھی ہورہا ہے، مگر سب سے پہلے مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے مقاصد ۔کچھ عرصہ قبل ان اداروں میں علوم، فنون کے ساتھ ساتھ قرآن فہمی اور سیرت کا مطالعہ ایک اہم جزو تھا اور ان اداروں کا مقصد ایک ایسا فرد تیار کرنا تھاجو نہ صرف علمیت اور صلاحیت کے اعتبار سے بہترین ہو بلکہ صالح اور نیک بھی ہویہی والدین کا مطمع نظر بھی ہوتا تھا۔ پچھلے 30 سالوں کے تعلیمی اداروں پر نظر ڈالی جائے اور آئے دن کھلنے والے تعلیمی اداروں کو بھی لے لیں تو ان کے مقاصد میں اصل مقصد کاروباری ہوتا ہے ، دوسرے یہ کہ ایک ایسا فرد تیار کیا جائے جو معاشرے میں اچھی نوکری حاصل کرسکے اور بہترین انگریزی بول سکے (ان اداروں میں وہ اسکول ہرگز نہیں ہیں جو گلی کوچوں میں کھولے گئے ہیں جو کسی بھی صلاحیت پر کام نہیں کرتے) والدین کے مقاصد۔والدین کے مقاصد بھی اداروں کے مقاصد سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جب ان کا بچہ کسی تعلیمی ادارے سے فارغ ہو تو اسے بہت ہی پرکشش تنخواہ اور اچھی پوزیشن والی نوکری ملے یہ تو ایک long term goalہوتاہے۔ ایکshort term goalیہ بھی ہوتا ہے کہ ایک مشہور تعلیمی ادارے میںان کا بچہ زیر تعلیم ہے یہ بتاکر وہ فخر محسوس کرسکیں۔ تیسری اور سب سے اہم وجہ استاد کا اپنا کردار سازی کے لوازم جن سے آج کل کے بیشتر اساتذہ ناواقف ہیں۔ انہیں ایک نمونہ بننے کے لیے صرف اپنی صلاحیت یعنی Teaching Skills پر کام کرنے کی ضرورت نہیں، انہیں اپنی سہولیات پر ہی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کے لیے وہ صرف اس قابل تقلید بن سکتے ہیں جب وہ اپنے مضمون پر عبور رکھنے کے ساتھ خدا خوفی، اپنے معلم ہونے کا اصل مقصد اور اس پر فخر طلبہ کیلیے محبت، شفقت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کے لیے بہترین معلم تھے۔ اسی صلاحیت اور سیرت سے عرب کا گیا گزرا معاشرہ دنیا کا مہذب ترین معاشرہ بنا۔ان تمام لوازم کے لیے استاد کو قرآن، سیرت کا مطالعہ، اقبالیات کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیات اور جدید تعلیمی و تدریسی مہارتیں سیکھنی چاہییں۔ابتدائی جماعتوں کے طالبعلم بھی اس بات کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو بات استاد ہمیں بتا رہے ہیں وہ خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں کہ نہیں۔action speaks louder then words بچے ہمیں دیکھ کر زیادہ سیکھتے ہیں ناکہ سن کر تو اساتذہ جس چیز کا بھی عملی نمونہ ہوں گے طلبہ اسی چیز کی عکاسی کریں گے۔ تربیت کی نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ بچوں میںدین اور خدا کی محبت پیدا کی جائے۔جبکہ اس کے برعکس زیادہ زور دین کی لگائی ہو ہی پابندیوں اور خدا کے غضب و غصے کاذکراور تنبیہہ پہلو پر زیادہ ہوتا ہے۔جو اس نابالغ عمر میں سمجھنا اور س پر عمل پیرا ہونے کے لیے ناصرف ناکافی ہوتے ہیں بلکہ دوری کا سبب بنتے ہیں‘بچے جب یہ تصور کرتے ہیں کہ ان کے معلمین ذاتی زندگی میں اپنی دی ہوئی تعلیمات کے برخلاف شخصیت کے حامل ہیں تو قدرتی طور پر ذہنی کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں۔نتیجتاً معلم کے احترام کے بجائے منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور احترام ختم ہو جاتا ہے ۔پروفیسر ڈاکٹرصائمہ محمود کا کہنا تھا کہ کردار سازی انسان کو سدھانے کی ایک کوشش ہوتی ہے، جس میں اخلاقیات، سماجی و مذہبی اقدار شامل ہیں۔ ہم بڑے انجینئرز، ڈاکٹرز اور پروفیسرز توپیدا کررہے ہیں مگر ان کی کردار سازی میں ناکام ہیں۔ اس ناکامی کی اصل وجہ مذہب سے دوری ہے۔ ہر شخص آگے بڑھنے اور کمانے کی فکر میں لگا ہے، انہیں اخلاقی رویہ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ استاد کا کام بچوں کو اچھائی ونیکی کی جانب راغب کرنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا ہے مگر معذرت کے ساتھ ہم سب جب تک خود عمل نہیں کریں گے بچوں کی کردار سازی نہیں کرسکتے‘آج کل طلبہ کی کردار سازی میں ناکامی کی دوسری وجہ سوشل میڈیا کااثر ونفوذ ہے جس نے معاشرے کے ہرشخص کومتاثر کیا ہوا ہے ‘ جبکہ ڈراموں میں بھی کردار سازی کا کوئی اچھا پیغام نہیں دیا جاتا۔ اگر طلبہ کی کردار سازی کرنی ہے تو طلبہ کو علم دوست بنانا ہوگا۔ بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر والدین اور اساتذہ کو نظررکھنا ہوگی ۔جامعہ کراچی کے شعبہ ٹیچر ایجوکیشن کے انچارج ڈاکٹر امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ طلبہ کی کر دار سازی میں کمی کی بنیادی وجہ اساتذہ کا تربیت یافتہ نہ ہونا ہے۔کیونکہ اساتذہ کو تربیت کے دوران ہی سیکھایا جاتا ہے کہ استاد کا کردار صرف کلاس روم تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ رول ماڈل ،کمیونٹی لیڈر اور گائیڈ ہے۔اساتذہ اگر یہ کردار ادا کریں تو طلبہ کی بہترین کردار سازی ممکن ہے۔محمد علی جناح یونیورسٹی کے صدر شعبہ معاشیات ڈاکٹر محمد معراج کا کہنا تھا کہ طلبہ کی کردار سازی میں ناکامی صرف طلبہ تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری قوم اس راہ پر گامزن ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے اعزاز اور ایک مسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود ہم اسلام کی اصل تعلیم سے بہت دور ہیں۔ صحابہ کرام کی کردار سازی، وہ پہلا کام تھا جو اسلام پھیلانے سے قبل حضور اکرمؐ نے کیا تھا۔ آج کل پوری قوم کردار میں کمزور ہے، حالانکہ ہم عبادات، نماز، زکوٰۃ ،حج وعمرہ وغیرہ پر کافی توجہ دیتے ہیں لیکن آپس کے تعلقات کے بارے میں ہمارے پاس بنیادی معلومات کا فقدان ہے، اگر معاشرے میں پیسے بنانے کی دوڑ میں صحیح اور غلط کی تمیز ختم ہو جائے تو طلبہ کس طر ح اپنے کردار کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ طالب علموں کی کردار سازی کے لیے ہمیں اپنے پورے نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے اور پوری قوم کو اسلام کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہوگی ‘ سرکاری اسکول میں7سال سے زائد عرصہ سے تدریس کے شعبہ سے وابستہ کنول ناز کا کہنا تھا کہ کردار ساسی سے مراد فرد کی مکمل روحانی تربیت، اس کی سوچ، اس کے اقدام، اس کا رہن سہن، مذہبی معاشرتی سرگرمیاں، جب انسان دنیا میں جنم لیتا ہے تو اس کی تربیت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جو اس کے رویے اور حسن سلوک سے جھلکتا ہے۔انسانی کردار کی تشکیل کا سلسلہ اس کی پیدائش سے شروع ہوجاتا ہے، اس میں سب سے پہلا کردار اس کے اطراف کا ماحول ہے جہاں بچہ پرورش پاتا ہے، جس میں سب پہلے ماں کا ذکر آتا ہے جس میں ماں فطرت، عادات اس کے رویے اس کی سرگرمیاں اس کی تعلیم و تربیت بعض اوقات گھریلو ناچاقیاں اور گھر والوں کے آپسی منفی رویے، محلے پڑوس کا ماحول بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، وہی جب بچہ اپنے ابتدائی تربیت کے بعد تربیت کے لیے دوسرے مرحلے کی طرف آتا ہے جہاں سے استاد کا کردار اہم ہوتاہے چونکہ بچے مختلف گھریلو ماحول سے بہت کچھ سیکھ کر آتے ہیں اور ان کا ماحول ان کی عادات و رویوں سے جھلکتا ہے، استاد/ معلم یا اساتذہ وہاں اچھے رویوں یا ماحول کی حوصلہ افزائی کریں جہاں اصلاح کی ضرورت ہو وہاں اپنی ذمے داری سے فرار نہ حاصل کریں بلکہ نصاب کے ساتھ اخلاقیات، مساوات و بھائی چارگی کا درس دیں اس کے لیے ان کی نفسیاتی کیفیت کا بھی جائزہ لیں اور والدین کا تعاون یہاں بھی ضروری ہے۔ موجودہ دور میں الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیاکے آزادانہ ڈراموں اور سائنس پر یوٹیوبز پر آزادانہ وڈیوز جو کہ دماغ پر غلط طرح اثر انداز ہوتی ہیں اور کچی عمر میں مکمل سرپرستی کریں ورنہ بچے بے راہ روی کا شکارہوجاتے ہیں اور یہی بڑے ہوکر معاشرے میں منفی حالات پیدا کرتے ہیں اگر بچوں کو دین کی طرف متوجہ رکھا جائے، اسلامی واقعات و کتب کا مطالعہ روزمرہ میں رکھیں تو بچے کے بھٹکنے اور منفی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں 80 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے۔