ایران سعودی عرب تعلقات کی بہتری مگر کیسے؟

448

سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ایران سے اچھے اور خصوصی تعلقات چاہتے ہیں۔ ہمارے مفادات ایران سے وابستہ ہیں اور اسی طرح ایران کے مفادات سعودی عرب سے وابستہ ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ دونوں ملک تعلقات کو فروغ دے کر خطے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ تاہم سعودی ولی عہد نے اپنی پیشکش کے ساتھ ہی ایران پر الزامات بھی عاید کر دیے۔ ان الزامات کی صحت پر بات کرنے سے قطع نظر سعودی ولی عہد کی پیشکش اور اس کے نتائج پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا بجا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملک اپنے وسائل اور اپنی قوت ایک دوسرے کے خلاف صرف کرنے کے بجائے مثبت کاموں میں استعمال کریں گے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مسلکی اختلافات کے ساتھ ساتھ خطے میں سیاسی اعتبار سے بالادستی اور کنٹرول کی جنگ بھی ہے۔ سعودی حکمران محض سو سال سے بین الاقوامی سیاست میں ہیںَ جب کہ ایران کئی ہزار سال سے سیاست میں ہے یہی وجہ ہے کہ پانچ عرب ممالک میں ایرانی حکومت نہ ہونے کے باوجود ایران کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب دبائو میں ہے۔ یہ درست ہے کہ سعودی ولی عہد نے جو الزامات عاید کیے ہیں ان میں سے بیشتر درست ہیں جیسا کہ خطے کے دوسرے ممالک میں باغیوں کی مدد کرنے کا الزام ہے۔ یہ الزام یمن، عراق وغیرہ اور شام میں بھی مداخلت کی حد تک ہے۔ لیکن شہزادہ سلمان ایران کو اس کے جوہری پروگرام سے باز رکھنے کی بات نہیں کر سکتے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر اعتراض کا سیدھا اور واضح مطلب امریکا کی ترجمانی ہے۔ اگر سعودی عرب خطے کو طاقتور بنانا چاہتا ہے تو اسے ایرن کے ایٹمی پروگرام کی حمایت کرنی
چاہیے۔ البتہ اس ایٹمی پروگرام کے دنیا کے لیے محفوظ ہونے کی ضمانت مانگی جاسکتی ہے۔ جس طرح دنیا کے دیگر ممالک خصوصا ترقی یافتہ ممالک پر امن مقاصد کے لیے ایٹمی صلاحیت استعمال کررہے ہیں اسی طرح ایران کو بھی ایٹمی قوت حاصل کرنے کا حق ہے۔ جتنے مسلم ممالک کے پاس ایٹمی قوت ہوگی مغرب اور عالم کفر کے لیے مشکل ہوگی۔ ہاں سعودی عرب کے لیے ایٹمی قوت کا حصول اگر مشکل ہے تو ناممکن نہیں اسے بھی ایران کی طرح ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا چاہیے ویسے تو ایٹمی ہتھیار بھی بنانے چاہییں۔ آج کل ایٹمی ہتھیار جنگ کے لیے نہیں جنگ روکنے کا زیادہ بڑا اور بہترین حربہ ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقت ہیں جس کے نتیجے میں انتہا درجے کی کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کی جنگ میں نہیں الجھ رہے۔
ایران سے خصوصی تعلقات کی راہ میں یمن میں ایرانی مداخلت بہرحال رکاوٹ ہے۔ اگرچہ ایرانی رہنمائوں نے شہزادہ محمد بن سلمان کی پیشکش پر مثبت ردعمل دیا ہے اور اس کا خیر مقدم کیا ہے لیکن مسائل اپنی جگہ ہیں۔ ایران نے خطے کے ممالک میں مداخلت کے حوالے سے کبھی انکار نہیں کیا اور ہمیشہ یمن سے سعودی عرب کا اثر و رسوخ ختم کرنے کی بات کی ہے۔ اس وقت ایران، عراق، یمن، لبنان، بحرین اور شام میں اثر و رسوخ رکھتا ہے وہ خطے کی بڑی فوجی قوت ہے۔ اسرائیل کو براہ راست کھل کر للکارتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر سعودی عرب اور ایران کا اشتراک اور اتحاد ہو سکتا ہے۔ لیکن ان اچھے تعلقات کے لیے سعودی عرب کو اور خصوصاً سعودی ولی عہد کو امریکا کی محبت قربان کرنا ہوگی۔ ایران کو ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے امریکا روک رہا ہے اور سعودی عرب کو یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ جہاں تک ایک دوسرے کے مفادات کا تعلق ہے تو ہر ملک کو پہلے اپنا مفاد دیکھنا چاہیے لیکن جب خطے کا مفاد اور عالم کفر اور یہودیوں سے مقابلہ ہو جائے تو بہت سے مفادات قربان کر دینے چاہییں۔ سعودی ولی عہد نے جو کچھ کہا ہے وہ حقیقت بن سکتا ہے۔ سعودی عرب کی اپنی پوزیشن بعض اقدامات کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے مثال کے طور پر سعودی معاشرتی اقدار کے منافی بے جا اور حد سے زیادہ اختلاط مرد و زن اور بے ہودگی کا فروغ۔حال ہی میں سعودی نصاب تعلیم میں تبدیلی اور رامائن اور مہا بھارت کو نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ، خواتین کی آزادی کے نام پر مخلوط و محفلوں کی اجازت سینما گھر وغیرہ اس سب میں سعودی عرب کی آبادی کا ایک مختصر حصہ شریک ہے۔ اکثریت اس سے لاتعلق ہے اور ایسے کاموں کو ناپسند کرتی ہے لیکن مغرب خصوصاً امریکا کو خوش کرنے کے لیے محمد بن سلمان نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ امریکا اور مغرب کتنا خوش ہوتے ہیں۔ یہ بات وہ خود بھی جانتے ہیں۔ وہ تو ہمیں اپنامذہب اختیار کروانے کی کوشش کریں گے اور پھر بھی راضی نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے ہم سے زیادہ قرآن کو وہ سمجھتے ہوں گے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔
ان تبصروں سے قطع نظر سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ اور بہتر تعلقات خطے کی ترقی اور استحکام کے لیے بہرحال ضروری ہیں۔ سعودی عرب اور ایران مل کر خطے میں معاشی ترقی کا کوئی جادو دکھائیں یا نہیں وہ اگر آپس کا اختلاف اور کشیدگی ختم کر دیں اور ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت پر طاقت صرف کرنے کا کام بند کر دیں تو ان کی اپنی قوت میں اضافہ ہوگا۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے چچا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے او آئی سی کے اجلاس میں اچانک ایران پہنچ کر امریکی دبائو کو مسترد کیا تھا اور لیبیا پر امریکا فضائی پابندیوں کے باوجود لیبیا کے طیارے سے عازمین حج کی آمد پر اس کا خود استقبال کرکے اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب امت مسلمہ کے ساتھ ہے جب شاہ عبداللہ نے یہ اقدام کیا تو امریکیوں کو کئی ماہ تک سانپ سونگھ گیا تھا۔ اگر شہزادہ محمد بن سلمان ایران سے تعلقات مضبوط اور بہتر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں امریکا کی ہر بات ماننے کی ضرورت نہیں جو کام خطے کے مفاد کے خلاف ہے اسے ماننا ضروری نہیں اسی طرح ایران سے تعلقات کی بہتری کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ایران یمن شام عراق وغیرہ میں مداخلت کرتا رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے پیشکش امریکی شہ پر کی ہے اگر وہ اس میں سنجیدہ ہیں تو چند ایسے اقدامات کرنے ہوں گے۔ جن سے دونوں ملکوں میں خیر سگالی کے جذبات کا اظہار ہو۔ سب سے پہلے قدم کے طور پر وہ خود یا شاہ سلمان ایران کا دورہ کریں اور ایرانی صدر اور روحانی رہنما کو سعودی عرب کے دورے کی دعوت دیں۔ ان ملاقاتوں میں کوئی بات نہ بھی ہو صرف خیر سگالی کے جذبات کا اظہار ہی ہو جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں اپنے اختلافات کے باوجود اگر کفر ملت واحدہ بن کر ہم پر حملہ آور ہو سکتا ہے تو ہم جو ہیں ہی امت واحدہ ہم ایک کیوں نہیں ہو سکتے ہمارے پاس تو ہدایت ہی یہ ہے کہ تم ایک امت ہو اور اگر آپس میں اختلافات میں الجھے رہے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی خطہ ترقی کرے یا نہ کرے امت مسلمہ کو اپنے اختلافات کے ساتھ ایک جتھہ بن کر رہنا چاہیے۔