خوشی پیسوں سے نہیں اللہ کے ذکر سے اطمینان قلب کے ذریعے حاصل ہوتی ہے

632

کراچی (رپورٹ:محمد علی فاروق) خوشی پیسوں سے نہیں اللہ کے ذکر سے اطمینان قلب کے ذریعے حاصل ہوتی ہے‘ بے چینی، اضطراب اور خود کشی کا بڑھتا ہوا رحجان اللہ اور رسول ؐ سے کمزور تعلق کا نتیجہ ہے‘ مال و دولت سے اگر خوشیاں حاصل کی جاسکتیں تو مالدارکبھی پریشان اور غریب کبھی خوش نہ ہوتا‘ دولت سے آسائش کا سامان خریدا سکتا ہے‘ باطنی خوشی رشتوں کو نبھانے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم، جامعہ کراچی کی شعبہ نفسیات کی سر براہ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال اور شیخ زید اسلامک سینٹر، جامعہ کراچی کی پروفیسر ڈاکٹر جہاں آرا لطفی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا صرف دولت سے خوشی خریدی جا سکتی ہے؟ راشد نسیم نے کہا کہ آج کل خوشی کی تلاش کے لیے بڑے بڑے کلب بنائے گئے ہیں جس میں ہالی وڈ، ڈزنی لینڈ، نائٹ کلب، شراب خانے وغیرہ شامل ہیں لیکن ان ہی جگہوں پر سب سے زیادہ نفسیاتی مریض پائے جاتے ہیں جو خوشیوں کی تلاش میں نشہ آور اشیا کی طرف راغب ہوجاتے ہیں یا پھر خودکشی کر لیتے ہیں‘ بے شمار ادا کار، ادا کارائیں اور دولت مند افراد جنہوں نے ذہنی دبائو اور پریشانیوں کی وجہ سے خودکشی کر لی‘ یہ کہنا کہ مادیت سے خوشی کا تعلق ہے یہ بات درست نہیں ہے ‘اصل خوشی کے لیے اقبال نے کہا تھا کہ’’ زندگی آمد برائے زندگی، زندگی بے بندگی شر مندگی شرمندگی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ روزہ رکھنا اور دوسروں کا احساس کرنا، اللہ تعالیٰ کے لیے راتوںکو جاگنا، ایثار اور قربانی دینا یہ اہل ایمان کے لیے سب سے زیادہ خوشی اور سکون کا باعث ہے‘ انسان بندگی کا راستہ اختیار کر ے تو سکون، خوشی اور اطمینان میسر آتا ہے ‘ ابتدائی دور میں جب اسلامی حکومت تھی اس وقت خودکشی کی تعداد صفر ہوا کرتی تھی‘ مادیت کا تعلق انسان کی خوشی سے نہیں ہے‘ خوشی کا تعلق اطمینان قلب سے ہے اور اطمینان قلب اللہ کے ذکر سے میسرآتا ہے۔ ڈاکٹر فرح اقبال نے کہا کہ انسان کی آمدن اگر اس کے مجموعی اخراجات کے مطابق ہے تو وہ اس کے لیے خوشی کا باعث ہے‘ اگر آمدن مجموعی اخراجات سے کم یا زیادہ ہے تو اس کے لیے یہ بات خوشی کا باعث نہیں ہے‘ تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ دولت اور خوشی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے‘ اس کا تعلق انسان کی باطنی خوشی سے ہے‘ دولت سے دنیا کی آسائش کا سامان خریدا سکتا ہے جس سے زندگی میں وقتی سہولیات پیدا کی جاسکتی ہیں جبکہ باطنی خوشی رشتوں کو نبھانے سے ہی حاصل ہوتی ہے‘ بہتر سماجی تعلقات ہی انسان کو باطنی خوشی دے سکتے ہیں‘ جب انسان اپنے سے جڑے ہر فرد کو سہولیات دینے اور مل جل کر خوشیاں باٹنے والا بن جاتا ہے تو پھر باطنی خوشی او ر مسرت حاصل ہوتی ہے جس کا نیم البدل کو ئی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے کئی تاجر جو بے تحاشا دولت کے باوجود ذہنی دبائو اور محرومیوں کا شکار ہیں انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان سے کوئی محبت نہیںکرتا کیوں کہ ان کی دولت لوگوں کے لیے فائدہ مندنہیں ہے۔ ڈاکٹر جہاں آرا لطفی نے کہا کہ دولت اور مادی اشیا کو جب خوشیوں کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا جائے تو وہاں سے اللہ کا خوف، عدل و انصاف، انسانی حقوق کی پاسداری، ہمدردی و غم خواری، رواداری اور برداشت رخصت ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ بدعنوانی ریاکاری، دھوکا، فریب اور مکاری لے لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن میں ہے کہ ’’مال اور بیٹے یہ دنیا کا سنگار(زینت) ہیں باقی رہنے والے اچھے اعمال ہیں ان کا ثواب تمہارے رب کے ہاں بہتر ہے‘‘ مال و دولت سے اگر خوشیاں حاصل کی جاسکتیں تو مالدارکبھی پریشان نہ ہوتا اور غریب کبھی خوش نہ ہوتا‘ آپس میں محبت، خلوص اور باہمی تعاون دراصل خوشیاں مہیا کرنے کے بنیادی ذرائع ہیں۔