مرتب: عتیق الرحمن
مطالعہ قرآن: ’’اے ایمان والو… جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ سے خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو‘‘۔ (الانفال:72) کسی بھی معاشرہ کو ظلم وزیادتی سے پاک کرنے، اس میں باہمی اعتماد واعتبار، عدل وانصاف اور امن و سکون کی فضا قائم کرنے میں جن اقدار کا اہم کردار ہوتا ہے ان میں سے ایک امانت داری ہے یہ ایک ایسی بنیادی قدر ہے اسے کسی بھی معاشرے میں پیدا کیے بغیر اس سماج کو خوف، عدم اعتمادی، خیانت، دھوکا دہی اور ظلم وستم جیسی برائیوں سے پاک نہیں لیا جاسکتا اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس میں امانت داری کو اہم مقام عطا کیا گیا ہے اور خیانت سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ شریعت اسلامیہ نے انسانیت پر رحم کرتے ہوئے اْس کے لیے نقصان دہ ہر چیز کو حرام قرار دیا تاکہ انسانیت محفوظ رہ سکے ان ہی حرام کردہ چیزوں میں سے انتہائی مکروہ اور بدترین چیز خیانت ہے۔ یہ لعنت جس معاشرے میں پھیل جائے وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ اللہ اور اْس کے رسول ؐسے وفاداری ختم ہوجاتی ہے‘ باہمی اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ ہر وقت اپنی جان، مال، عزت وآبرو اور دیگر حقوق کی پامالی کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ خیانت کے معنیٰ کوتاہی، یا بے وفائی کرنا ہے یعنی اللہ و رسولؐ کی طرف سے یا حقوق العباد میں سے عائد ہونے والے حقوق کو ادا نہ کرنا خیانت ہے۔ درج بالا آیت کی رو سے خیانت کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اللہ سے خیانت: اللّہ کی عبادت فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ ادا نہ کرنا اور زندگی کے دیگر معاملات میں حلال و حرام کی تمیز نہ کرنا۔ رسول اللہ ؐ سے خیانت: آپؐ کی سنتوں سے انحراف کرنا۔ آپؐ کی تعلیمات کی مخالفت کرنا اور آپؐ عزت و ناموس کی حفاظت نہ کرنا، انسانوں کی باہم خیانت: ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرنا، لوگوں کے مال کو ہڑپ کرجانا، دوسروں کے راز فاش کرنا، جام بوجھ کر غلط مشورہ دینا، دھوکا دہی کرنا۔
اجتماعی خیانت: ملازمت کی اوقات کی پابندی نہ کرنا، اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا، اختیارات کا غلط استعمال، سرکاری و قومی وسائل کو ناجائز طور پر اپنے ذاتی استعمال میں لانا، قومی اثاثوں کو اونے پونے فروخت کرنا، دیگر ممالک سے معاملات میں قومی مفاد کا خیال نہ رکھنا، سرکاری اراضی خود الاٹ کروا لینا یا رشتے داروں کو الاٹ کردینا، کسی فرد یا بینک سے قرض لیکر واپس نہ کرنا، اختیارات کا ناجائز استعال کرنا۔
سب سے بڑی خیانت: کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیے گئے ملک میں شریعت نافذ نہ کرنا، سودی بینکاری کو عدالتی احکامات کے باوجود جاری رکھنا، حدود اللہ کو غیر مؤثر کردینا سب سے بڑی خیانت ہے۔
مطالعہ حدیث: سیدنا ابوذر غِفاری ؓ نے ایک بار آپؐ سے امارت (سرکاری عہدہ) کی خواہش ظاہر کی تو آپ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’اے ابوذر! تو کمزور ہے اور بلاشبہ یہ (امارت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے، سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حقوق پورے کیے اور اس سلسلے میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد تھیں اس کو ادا کیا:۔
امانت: سیدنا معقل بن یسارؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جب اللہ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ پوچھا یا رسول اللہ امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جب کام نا اہل لوگوں کے سپرد کردیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری)
نوٹ: ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے ایک کلرک سے لیکر صدر مملکت تک سب امانتدار ہیں عہدوں کا امانت ہونا رسول اللہؐ سے بھی ثابت ہے۔
سیرتِ تابعین: جب عمر بن عبدالعزیزؒ کی وفات کا وقت قریب آیا تو مَسلِمہ بن عبدالملک ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: امیر المومنین! آپ نے مالِ دنیا سے اپنے بچوں کے منہ سے دور رکھا اب بہتر ہوگا کہ آپ مجھے یا جسے آپ بہتر سمجھتے ہوں ان بچوں کے بارے میں وصیت کرجائیں کہ ان کو کچھ مال دے دیا جائے، مَسلِمہ کی گفتگو مکمل ہوئی تو عمر نے کہا مجھے بٹھا دو اٹھاکر بٹھا دیا تو کہنے لگے مَسلِمہ ! میں نے تیری بات مان لی کہ اپنے بچوں کے منہ سے مال کو روکے رکھا ہے تو سن لو کہ اللہ کی قسم میں نے کوئی ایسی چیز ان سے نہیں روکی جو ان کا حق تھا اور کوئی ایسی چیز ان کو دے نہیں سکتا تھا جو ان کا حق نہ تھا، تیرا یہ کہنا کہ میں تجھے یا اپنے خاندان میں کسی کو وصیت کرجاؤں کہ وہ میرے بچوں کو کچھ مال دے دیں تو یاد رکھو میرا وصی و ولی اللہ ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب نازل کی اور وہی صالحین کا کارساز ہے۔ پھر انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلوایا یہ تعداد میں (19) تھے۔ جب عمر بن عبدالعزیز نے ان کی طرف دیکھا تو آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور کہنے لگے: ’’میری جان کی قسم! ان بچوں کو تہی دست چھوڑ رہا ہوں کہ ان کے پسند کوئی چیز نہیں ہے‘‘ پھر روتے رہے کچھ دیر بعد ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے میں تمہارے لیے بہت کچھ چھوڑ کے جارہا ہوں تم کسی ایسے مسلمان یا ذمِّی کے پاس سے نہیں گزرو گے جس کا کوئی پیسہ تم کو ادا کرنا ہو بلکہ تمہارا ہی کوئی حق ان کے ذمہ ہوگا، میرے بیٹو!۔ تمہارے سامنے دو صورتیں ہیں ان میں سے جسے چاہو پسند کرلو اگر تم غنی و مالدار ہونا چاہتے ہو تو اس کے بدلے تمہارا باپ جہنم کا ایندھن بنے گا اور اگر فقر کی زندگی پسند کرتے ہو تو تمہارا باپ جنت میں داخل ہوجائے گا، ’’میرا خیال ہے کہ تم مالداری اور امیری کو خیرباد کہہ کے اپنے باپ کو جہنم سے نکالنے کو ترجیح دو گے‘‘ پھر محبت وشفقت بھری نگاہ ان پر ڈالتے ہوئے کہا:
’’جاؤ… اللہ تمہاری حفاظت کرے اور تمہیں رزق دے‘‘! یہ سن کر مَسلِمہ نے کہا: میرے پاس 3 لاکھ دینار ہیں میں وہ آپ کو ہبہ کرتا ہوں آپ وہ رقم ان بیٹوں میں تقسیم کردیجیے یا جب چاہیں صدقہ کردیں۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا یہ ٹھیک نہیں ہے یہ مال ان لوگوں کو واپس لوٹاؤ جن سے چھینا گیا ہے، اس دولت پر تمہارا کوئی حق نہیں۔
پھر تاریخ انسانی ہمیں بتاتی ہے کہ دمشق کے در و دیوار نے اس کی گواہی دی کہ عمر بن عبدالعزیز کے بیٹوں میں سے کوئی محتاج ہوا نہ فقیر، بلکہ مجاہدین اسلام کے جو لشکر میدان جہاد میں جاتے تھے عمر بن عبدالعزیز کے صاحبزادے ان کے لیے سامان جہاد کا انتظام کرتے (رحمہ اللہ)