اسلامی نظام معیشت ہی سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے،سراج الحق

343

لاہور (نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ملک کی بگڑتی معاشی صورت حال پر شدید تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی معیشت کو اپنانے سے ہی غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، پاکستان کی 50 سے 60 فیصد آبادی انتہائی مخدوش حالات میں گزر بسر کر رہی ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے اگرچہ مجموعی طور پر ایک بحران آیا، لیکن حالات اس سے قبل بھی سازگار نہ تھے۔ پی ٹی آئی کے عرصہ اقتدار میں بے روزگاری کی شرح اوپر گئی، لاکھوں نوجوان ڈگریاں اٹھائے نوکریوں کی تلاش میں گھوم رہے ہیں۔ ملک میں افراتفری کا عالم ہے اور نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو چکا ہے کیوںکہ انھیں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا۔ اگر عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو یونہی بغیر چوں چراں کے آنکھیں بند کر کے اپنایا جاتا رہا تو وقت دور نہیں جب ملک کا مکمل دیوالیہ نکل جائے گا۔ بدقسمتی سے سابق اور موجودہ حکمرانوں نے ملک کے وسیع قدرتی ذخائر، ہیومن کیپٹل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی، غیر ترقیاتی اخراجات کو کم نہیں کیا گیا، زراعت اور صنعت کی بہتری کے لیے پالیسیاں تشکیل نہیں دی گئیں جس کے نتیجے میں ملک کی معاشی حالت کمزور سے کمزور ہوتی گئی۔ اس وقت پاکستانی قوم کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ لوگوں کے پاس روزگار کے ذرائع نہیں۔ چھوٹے بڑے تاجر پریشان ہیں۔ زرعی مداخل کی قیمتیں عام کسان کی پہنچ سے دور ہیں۔ فصلوں کے لیے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ زرعی پیداوار ہر سال کم ہو رہی ہے اور حکومتی ادارے تنزلی کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی سنت نبویؐ کی پیروی میں ہے۔ اللہ کے دیے گئے قوانین پر عمل ہو جائے تو دنیا کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ قرآن و سنت کا راستہ ہی کامیابی کا راستہ ہے۔ امت مسلمہ کو جسدواحد کی طرح ہونا چاہیے۔پاکستان میں اسلامی انقلاب کے لیے راہ ہموارکرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام تمام انسانوں کی بھلائی کا ضامن ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے منصورہ میں ملاقات کے لیے آنے والے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سراج الحق کا کہنا تھا کہ کرپشن اور بیڈ گورننس ملک کے اہم ترین مسائل ہیں، اگر وزیراعظم اپنے دعوئوں پر عمل کرتے اور کرپشن کو کنٹرول کرنے کا مؤثر نظام تشکیل دے دیتے جس میں سب کا بے لاگ احتساب ہوتا، تو ملک ٹریک پر آ سکتا تھا۔ اسی طرح حکومت کو آتے ہی گورننس کا مسئلہ درپیش ہوا جس پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ فیصلہ سازی کا فقدان ہے حکومت صبح کچھ اور شام کو کچھ اور فیصلہ کرتی ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ کنفیوژن زدہ پالیسیوں سے کبھی بھی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ثابت ہو گیا کہ موجودہ سیٹ اپ سے توقعات رکھنا بے جا ہے۔ قوم کو تبدیلی اور ریاست مدینہ کے نام سے بڑا دھوکا دیا گیا۔ عوام وزیراعظم کے وعدوں پر مزید اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔امیرجماعت اسلامی نے لوگوں سے ایک دفعہ پھر اپیل کی کہ وہ کورونا وبا کے دوران احتیاط برتیںاور ایس او پیز کا خیال رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہو کر گناہوںاور لغزشوں کی معافی طلب کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ 7 دہائیاں قبل پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، مگراب تک قوم اس نظام کے لیے ترس رہی ہے جس کے لیے ان کے آبائو اجداد نے قربانیوں کی عظیم داستان رقم کی تھی۔ اشرافیہ چہرے بدل بدل کر اقتدار کے ایوانوں میں قابض ہے۔ حکمرانوں کے بینک بیلنس میں ہر سال اربوں کا اضافہ ہوتا ہے، مگر غریب کے گھرمیں ایک وقت کا کھانا نہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ قوم اپنے حق کے لیے جدوجہد کا آغاز کرے۔ظالم اشرافیہ سے جان چھڑا کر ہی آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب پکار رہی ہے۔ اگر لوگوں نے خدمت کا موقع دیا تواللہ کے فضل و کرم سے نہایت قلیل مدت میں ملک میں حقیقی تبدیلی لائیں گے۔