روس کی پاکستان سے قربت کی وجہ سی پیک کے فوائد حاصل کرنا ہے

476

اسلام آباد ( میاں منیر احمد) دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد چودھری نے کہا کہ پاک روس تعلقات میں حالیہ گرم جوشی کی بات نہیں ہے ہم اپنی خارجہ پالیسی میں یہ بنیادی سوچ رکھتے ہیں کہ دنیا میں امن ہونا چاہیے، ہم ہر ملک کی داخلی سلامتی پر یقین رکھتے ہیں اور عدم مداخلت کی پالیسی پر چل رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سفارتی اصول یہی ہے کہ باہمی تعلقات دو طرفہ ہوتے ہیں، ہمیں امید ہے کہ پاکستان اور روس عالمی امن کے لیے اس خطہ کی خوشحالی کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ سے اس خطے کے ممالک سی پیک کے ساتھ اپنا تعلق جوڑنے کے لیے دلچسپی لے رہے ہیں، روس بھی انہی ممالک میں ایک ہے جنہیں سی پیک کے ساتھ منسلک کرنے میں دلچسپی ہے، یہ صورت حال ملک کے لیے بھی بہتر ہوگی اور ہماری معیشت کے لیے اس میں اچھا پیغام ہے۔پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی اور سا بق اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ مسلمہ سفارتی اصول کے مطابق دنیا بھر میں ہر ملک کا مفاد دوسرے ملک کے ساتھ ہوتا ہے، تاہم فیصلہ کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ باہمی تعاون کے ذریعے 2 ملک آپس میں ایک دوسرے کے لیے کس قدر مفید ہوسکتے ہیں، عالمی سفارت کاری میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ کوئی مستقل دوست اور کوئی مستقل دشمن نہیں ہوتا، باہمی مفاد ہی اصل میں ملکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے، انہوں نے کہا کہ جس طرح کی تبدیلیاں اس خطے میں ہو رہی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس مستقبل میں یہاں کے خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے پالیمانی رکن مولانا عبد الاکبر چترالی نے کہا کہ پاکستان کی سفارت کاری کے لیے یہ بنیادی نکتہ ہے کہ ہم اس ملک سے تعلق بنائیں جو ہمیں کشمیر پر ہمارے نکتہ نظر کو سپورٹ کرے۔پاکستان مسلم لیگ(ض) کے صدر محمد اعجاز الحق نے کہاکہ سفارتی اصول یہی ہے کہ باہمی تعلقات دو طرفہ ہوتے ہیں اس خطے کے ممالک سی پیک کے ساتھ اپنا تعلق جوڑنے کے لیے دلچسپی لے رہے ہیں، روس کو بھی سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے میں دلچسپی ہے دنیا بھر میں ہر ملک کا مفاد دوسرے ملک کے ساتھ ہوتا ہے، تاہم فیصلہ کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ باہمی تعاون کس قدر مفید ہے اندازہ ہوتا ہے کہ روس مستقبل میں یہاں کے خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔سابق سفارت کار ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کی واپسی کے بعد یہاں حالات تبدیل ہوسکتے ہیں، یہاں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کے اندر بھی استحکام رہے اور اسے امن کے قیام میں مدد بھی فراہم کی جائے، اس خطے میں پاکستان، چین اور روس امن کے قیام کے لیے بہت اہم ملک ہیں اور انہیں مل کر اس خطے کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں اس وقت کشمیر ہی سب سے اہم اور سلگتا ہوا مسئلہ ہے یہ مسئلہ اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے کہ جب بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آگے بڑھے گا اس کے بغیر اس خطے میں امن نہیں ہوگا، دنیا کے اور اس خطے کے تمام بڑے ممالک کو اس خطے میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور پاکستان کو بھی جہاں سے اس کے لیے مدد ملے حاصل کرنی چاہیے۔ سابق صدر مملکت کے میڈیا کنسلٹنٹ فاروق عادل نے بتایا کہ پاکستان اور روس کی قربت کی حالیہ ابتداء ایک تباہی کے بعد ہوئی ہے جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ شنگھائی تعاون کونسل اور سی پیک نے اس خطے کے ممالک کی سوچ بدل دی ہے کہ وہ اس خطے کے مسائل کے حل کے لیے اکٹھے مل بیٹھیں اور مقامی وسائل بھی خود استعمال میں لائیں اور باہم مل کر اپنے مسائل بھی حل کریں یہ سوچ بھی ابھر رہی ہے کہ امریکا دور سے آکر یہاں خرابی پیدا کرتا ہے، جیسا کہ افغانستان کی حالیہ مثال ہے اور پھر یہاں کے لوگوں کو مسائل میں گرا کر چلتا بنتا ہے جس کی وجہ سے یہاں مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب روس کے وزیر خارجہ پاکستان آرہے تھے تھے تو اس وقت امریکا میں ایک ٹویٹ کیا گیا تھا کہ افغان مجاہدین نے روس کو امریکا کے میزائلوں سے شکست دی تھی، اس ٹویٹ کا مقصد یہی تھا کہ یہاں روس کے لیے فضا سازگار نہ رہنے دی جائے لیکن اب اس خطے کے ممالک یہ سوچ رہے ہیں کہ امریکا کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے بلکہ اپنے مسائل خود حل کرکے کی پیش رفت بڑھائی جائے۔ کالم نگار اینکر پرسن رانا غلام قادر نے کہا کہ امریکا نے جب بھارت کو تزویرا تی حلیف بنا یا تو لک ایسٹ پالیسی بنائی گئی۔ چین بھی چاہتاہے کہ پاکستان روس کے قریب آئے بالآخر روس سی پیک میں شامل ہوگا گوادر سے فائدہ اٹھائے گا۔ تجزیہ کار مظہر طفیل نے بتایا کہ دونوں ملک چونکہ جنوبی ایشیائی خطے میں طاقت کے توازن کو امریکی خواہش کے برعکس ایک نئے بلاک کی تشکیل کے لیے سرگرم عمل ہیں جس کی وجہ سے خطے میں بھارت اور امریکا کی اجارہ داری اب قصہ پارینہ بننے جارہی ہے یہی ایک بنیادی نکتہ ہے کہ پاکستان اور روس نے بلاک کی کامیابی کی تشکیل سے امریکا سے کسی حد تک اپنا پرانا حساب چکتا کرسکتے ہیں۔کالم نگار تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ اس خطے میں اپنے اپنے مفادات کے اعتبار سے اس وقت بھارت امریکا، پاکستان چین اور روس ایران کا اتحادی ہے ،روس چاہتا ہے کہ وہ سی پیک سے فائدہ اٹھائے جس کے لیے وہ پاکستان کے قریب ہونا چاہتا ہے اور پاکستان کی خواہش ہے اسے اس خطے میں چین کے علاوہ بھی ایک بڑا اتحادی چاہیے جو اسے امریکا کی بلیک میلنگ سے بچائے رکھے اور افغانستان میں بھی اس کے اثرات ہوں، روس کے پاس یہ دونوں اہلیت ہیں اس کے ایران کے ساتھ بھی تعلقات ہیں اور ایران کے ذریعے وہ افغانستان میں بھی اپنے اثرات رکھتا ہے ،انہوں نے کہا اس وقت ایک لڑائی ہورہی ہے کہ معاشی مفادات کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ پاکستان اور روس میں بڑھتی گرم جوشی کے اسباب میں نئے بدلتے عالمی حالات ہیں، پاکستان جس خطے میں واقع ہے ان گرم پانیوں تک پہنچنے کی روس کی پرانی خواہش ہے جس کے لیے روس نے ایک طویل جنگ افغانستان میں لڑی لیکن کامیابی نہ مل سکی اب ان گرم پانیوں تک نئے معروضی حالات میں اچھے اقتصادی و معاشی تعلقات کے ذریعے ہی رسائی ممکن ہے اور اس معاملے میں سی پیک کے منصوبے نے اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے یوں روس کی پاکستان کے ساتھ یہ گرم جوشی افغانستان میں امریکا کی حالیہ شکست کے بعدکوئی اتنی حیران کن نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز کی رہنما ناہید خان نے کہا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان اور روسی کے مابین تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے۔ ابتدا میں روس بھارت کے بہت قریب تھا چونکہ بھارت نے امریکیوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے ہیں، لہٰذا روس نے ایک متضاد اقدام کے طور پر نئی جگہیں کھولیں اور افغان جنگ کے بعد طویل تعطل کے بعد وہ پاکستان کے قریب آ گیا۔ ابھرتے ہوئے نئے عالمی نظام کا ایک اور اہم عنصر امریکی تسلط کے خلاف چین اور روس کے مابین دوستانہ تعلقات کو بڑھا رہا ہے۔ یہ خطہ.جنوبی ایشین خطے میں نیا پاور بلاک ابھر رہا ہے پاکستان اس بلاک کا ایک اہم جزو ہے۔ فیصل حکیم نے کہا کہ بھارت اور امریکا کے درمیان بڑھتے تعلقات نے پاکستان کو بھی اپنی پالیسی کا نئے سرے سے جائزہ لینے کا موقع دیا ہے جس کے باعث پاکستان اور روس کو بتدریج قریب ہونے کا موقع ملا ہے اور اس قربت کے حوالے سے چین کا کردار بھی کافی اہم ہے۔