وزیر اعظم پاکستان جلوزئی (پشاور) میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمارہے تھے کہ ’’جزا وسزا کا تصور نہ ہوتو نظام تباہ ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون کی بالا دستی کا مطلب بار بار سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں جو پاکستان میں لوگوں کو سمجھ میں نہیں آ رہا۔ طاقتور لوگ قانون کے نیچے نہیں آنا چاہتے، پی ڈی ایم جیسا اتحاد بنا لیتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ وہ چوری کریں، ڈاکے ماریں اور منی لانڈرنگ کریں پھر بھی کوئی انہیں نہ پکڑے‘‘۔ وزیر اعظم صاحب! پاکستان کے عوام ناسمجھ نہیں بلکہ بہت زیادہ باشعور اور ہر اچھی بری بات کا خوب ادراک رکھتے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ آپ سے پہلے پاکستان میں حکومتیں کرنے والے سارے عسکری اور غیر عسکری حکمرانوں کی حکمرانی، ان کی لوٹ مار، ملک کو ہر سطح سے نقصان پہنچانے، ملک میں نفرتیں بڑھانے اور پاکستانی قوم کے دلوں میں ایک دوسرے کی جانب سے نفرتوں کے بیج بونے سے لے کر تناور جھاڑ جھنکار بننے تک کے سارے مراحل بھگتنے کے بعد ان کو رد کرکے اور ان سے باغی ہوکر آپ کو کرسی اقتدار پر اس لیے لیکر آئے تھے کہ ان کو آپ یعنی پی ٹی آئی کی صورت میں ایک ایسا نجات دہندہ دکھائی دے رہا تھا جو ان کو ناانصافی کے بھنور سے نکال کر انصاف کے ساحل تک لانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جن جن ظالموں نے ملک کی دولت کو چاروں ہاتھوں پیروں سے لوٹا ہے، واپس لیکر آئے گا۔ قومی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گا۔ معیشت کو استحکام دیگا۔ مہنگائی کے آگے نہ صرف بند باندھے گا بلکہ اس منہ زور گھوڑے کو لگام ڈال کر ہی دم لے گا۔ آپ کی پالیسیاں ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گی۔ روزگار کے اتنے مواقع نکلیں گے کہ ہر فرد اور ہر خاندان خوشحال ہو جائے گا۔ وہ پاکستانی جو بیرونی ممالک میں غربت اور جلاوطنی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں وہ نہ صرف پاکستان کی جانب لوٹ کر آنا شروع ہو جائیں گے بلکہ غیر ملکی افراد بھی پاکستان کی جانب دوڑ دوڑ کر آئیں گے اور عالم یہ ہوگا کہ زمین سونا اگلنے لگے گی اور آسمان سے من و سلویٰ کی بارش برسا کرے گی۔ اگر عوام ناسمجھ ہوتے تو وہ پچھلوں کو رد کرکے آپ کے پیچھے کیوں ہو لیتے۔ آپ نے گزشتہ 22 سال میں اور خاص طور سے 126 دنوں کے دھرنے کے دوران عوام کو جو جو کچھ بھی سمجھایا، عوام نے اسے سمجھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ پایہ تخت تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ عام لوگ ہی نہیں، پاکستان کے مقتدر حلقے بھی اس بات کے قائل تھے کہ آپ اقتدار میں آنے سے قبل جو جو باتیں عوام کو سمجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں وہ سب آپ کے دعوں کے مطابق پوری ہو کر رہیں گی کیونکہ ان کو اس بات کا یقین دلایا گیا تھا کہ آپ کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک ایسے قابل افراد اور ہر شعبہ زندگی سے متعلق ماہرین کی ٹیم موجود ہے جو ملک کی تقدیر بدل دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔
وزیر اعظم صاحب! اگر یہ قوم سمجھدار نہ ہوتی تو وہ کبھی باری باری کرسی اقتدار پر براجمان ہوتے رہنے والوں میں سے پھر کسی ایک کا انتخاب کر لیتی۔ آپ کو منتخب کرنا، اپنے لیے نجات کی کوئی سبیل نکالنا اور دکھائے گئے خوابوں کے حقیقت کا روپ دھارنے کی تمنائیں آنکھوں میں سجا کر آپ اور پی ٹی آئی کو اقتدار کی منزل تک لانا عوامی شعور کی اتنی واضح دلیل کے باوجود جب آپ ہی کے منہ سے عوام یہ سن رہے ہوںگے کہ آپ لوگوں کو آئین و قانون کی بالا دستی کا مطلب سمجھانے کی کوشش پر کوشش کیے جا رہے ہیں لیکن عوام ہیں کہ آپ کی بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں تو ان کو کتنا دکھ ہو رہا ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمرانوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ عوام کو ہر ہر بات کی آگاہی دیں لیکن حکمران وہی ہوتا ہے جو اپنے آپ کو کسی بھی معاملے میں بے دست و پا محسوس نہ کرتا ہو۔ آپ ہر قسم کی مافیاؤں کا ذکر تو کیے جائیں لیکن ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکیں۔ ملک کے چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں اور غداروں کے مضبوط ہونے کا رونا تو روئیں لیکن ان کے ہاتھ پاؤں توڑ کر رکھ دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہوں۔ آپ طاقتوروں کی منہ زوری کا تذکرہ تو کریں لیکن ان سے ٹکرانے کی ہمت کرتے نظر نہ آئیں اور دو کیا، قدم قدم پر ہر ایک کا الگ پاکستان تو دیکھتے جائیں لیکن ایسی سوچیں ختم کرکے ایک پاکستان، کہیں بھی قائم کرنے میں کامیاب نظر نہ آتے ہوں تو عوامی تائید کو اپنے حق میں کیسے ہموار کر سکتے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب! نہ تو آپ مہنگائی کے جن کو قابو کر سکیں، نہ روزگار کے مواقع بڑھا سکیں، نہ لا انفورسمنٹ ایجنسیز میں کوئی اصلاح لا سکیں، نہ لوگوں کی مشکلات میں کمی واقع کر سکیں اور نہ ہی قوم سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری آپ کے مسلک میں شامل ہو تو عوام کو اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کتنا ہی سمجھانے کی کوشش کرتے رہیں، قول سے عمل خلاف ہوگا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ ’’سمجھدار‘‘ عوام کو مزید سمجھدار بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔ آپ کہتے ہیں کہ بینک غریبوں کو لون کیوں جاری نہیں کرتے تو کیا یہی سوال عوام آپ کی حکومت سے نہیں کر سکتے کہ حکومت خود مکان بناکر غریبوں کو کیوں دینے کے لیے تیار نہیں؟۔ کوئی بھی قرض دینے والا قرض کی وصولی کا یقین ہوئے بغیر کیسے کسی کو قرض دے سکتا ہے لہٰذا یا تو بینکوں سے خود قرضہ لیکر عوام کو مکانات بنا کر دیں یا سستا گھر کے لولی پاپوں کی کہانی کا باب بند کریں۔ بہلائیں نہیں بلکہ اب باقی ماندہ قانونی مدت کے اندر اندر کچھ کرکے دکھائیں۔