آبیل مجھے مار، اب سمجھ میں آیا

340

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے ایک دن کے لیے بھی اس کی توجہ ان مسائل کے حل کی جانب جاتی نظر نہیں آئی جن کو 126 دنوں کے دھرنوں کے دوران عوام کے سامنے اجاگر کرتی رہی تھی۔ ہر اپوزیشن کے پاس سب سے بڑا ایسا پر اثر نعرہ جس کو سن کر عوام کا سمندر اس کے ساتھ ساتھ بہنا شروع ہو جائے اور وہ عوام کے اس سمندر میں ان مسئلوں کو اٹھا کر ایسا جوش پیدا کردے کہ وہ طوفانی شکل اختیار کر لے، مہنگائی کا رونا ہی ہوا کرتا ہے۔ عمران خان نے اس وقت کی مہنگائی کے ہاتھوں ستائے عوامی سمندر کو ایسا کھولایا جو اس سے قبل کوئی سیاسی جماعت نہ کھولا سکی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ تمام سیاسی جماعتوں سے دس قدم آگے بڑھ کر عمران خان نے اس مہنگائی کا جو سبب عوام کے ذہنی میں نقش کیا وہ اتنا مؤثر تھا کہ پاکستان کے ایک ایک فرد کے دل و دماغ سے ہوتا، لہو کی ایک ایک بوند میں سرائیت کرتا، بدن کے روئیں روئیں میں اترتا چلا گیا۔ عمران خان نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ عوام کو سمجھا دیا کہ مہنگائی کا یہ طوفان جو اس وقت ملک میں بپا ہے اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ماضی کی دوبڑی جماعتیں جو ملک میں ’’تو چل میں آیا‘‘ کی طرح باری باری حکومتیں کرتی رہیں، ان کے تمام رہنما چاروں ہاتھوں پیروں سے ملک کی دولت لوٹتے رہے بلکہ ناجائز ذرائع سے لوٹی ہوئی دولت کو ملک سے باہر لے جا کر بڑی بڑی جائدادیں بناتے رہے۔ عمران خان کا یہ طرز استدلال اتنا مقبول ہوا کہ لوگ مثل پروانہ ان کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی آئی کی صورت میں عمران خان اتنی مضبوط حیثیت اختیار کر گئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تخت و تاج کے مالک بنا دیے گئے۔
پی ٹی آئی کی اس شاندار کامیابی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 126 دنوں کے دھرنوں کے دوران عوام سے جو جو وعدے کیے گئے تھے، ان کی جانب پیش قدمی کو ترجیح دی جاتی لیکن نا معلوم کیوں عوام کے تمام مسائل کو بالکل ہی پس پشت ڈال کر ماضی کے حکمرانوں طرح اپنی ہر قسم کی کمزوری کو پچھلے حکمرانوں کے سر ڈالتے ہوئے اپنے تمام دعوں اور وعدوں سے انحراف پر کمر بستہ ہوگئے اور ہر وہ وجہ جس کے سبب عوام ماضی کے حکمرانوں سے باغی ہو کر عمران خان کی آواز میں آواز اور قدم سے قدم ملاکر اقتدار تک مسلسل ساتھ رہے تھے، ان کو اس مقام تک لے آئے جہاں ماضی کے حکمرانوں سے کہیں بڑھ کر مہنگائی، بد عنوانی، بے روزگاری اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی ناکام معاشی پالیسیاں، بے روز گاری کا بڑھتا ہوا رجحان اور ریاست مدینہ بنانے کے دعوں کے بر عکس دینی اقدار کے ساتھ کھلواڑ جیسے واقعات عوام کے لیے شدید دل آزاری کا سبب بن کر رہ گئے ہیں۔ 3 سالہ دور اقتدار میں اب تک جو صورت حال ہے وہ نہ صرف عوام کی مایوسیوں میں اضافے کا سبب بنی ہوئی ہے بلکہ عوام پریشان ہیں کہ اب وہ دیکھیں تو کس کی جانب دیکھیں۔
ایک جانب پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کوئی ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھا یا جس سے عوام کو یہ اطمینان ملا ہو کہ 126 دنوں تک مسلسل کیے جانے والے دعوں کی جانب پیش قدمی کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ملک کی دولت کو لوٹنے والوں کے خلاف تا حال کوئی ایسی کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی جس سے عوام کو یہ اطمینان حاصل ہو سکے کہ ملک سے باہر لیجانے والا پائی دھیلہ واپس آ سکے گا۔
اگر گزشتہ 3 برسوں کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو اب تک کی سیاسی صورت حال ’’آ بیل مجھے مار‘‘ والی جیسی رہی ہے۔ عوام کے سلگتے مسائل کے حل کی جانب بڑھنے کے بجائے چاروں جانب محاذ پر محاذ کھول دینے کی وجہ سے اپنے لیے مشکلات میں اضافے کے سوا اور کوئی ایسا کام سامنے نہیں آ سکا جس کو ستائش کے ساتھ بیان کیا جا سکے۔ اولیت یہ نہیں تھی کہ ناجائز تعمیرات ڈھائی جائیں، ہستی بستی بستیاں، بازار، مکانات اور دکانیں مسمار کی جائیں، فوقیت یہ تھی کہ بستیاں بسانے، روزگار کی مواقع بڑھانے اور مہنگائی کو نیچے لانے کے اسباب تلاش کیے جائیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت بنتے ہی سب سے زیادہ تشویشناک صورت حال یہی دیکھنے میں آئی کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایک نیا بحران جنم لیتا رہا اور ہر بحران کا سبب کوئی اور نہیں خود پی ٹی آئی ہی رہی۔
فرانس میں قرآن اور آپؐ کے ساتھ جو گستاخانہ رویہ اپنا یا گیا، جس سے پاکستان میں فرانس کے خلاف نفرت پیدا ہوئی، جب مسلمانان پاکستان نے فرانس کے سفیر کو ملک سے بیدخل کرنے کا مطالبہ کیا تو اس پر یا تو عوام کو قائل کرنے کی کوشش کی جاتی کہ بین الاقوامی سطح پر ایسا ممکن نہیں، وقوتی طور پر جوش و جذبے کو سرد کرنے کے لیے جھوٹے سچے وعدے کر کے یہ سمجھ لیا گیا کہ چند ہفتوں میں معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا، ایک ایسی احمقانہ سوچ تھی جس کے منفی تنائچ گزشتہ دو تین دن سے سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ اگر گزشتہ تین سال کی کارکردگی اور حکومتی اقدامات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنے کے بجائے مسلسل ’’پڑی لکڑی‘‘ لیتی چلی آ رہی ہے۔ جس کا ایک اور بڑا ثبوت تحریک لبیک کے سربراہ کی گرفتاری ہے۔ حکومت سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ ضروری ہے کہ ساری توجہ عوامی مسائل کی جانب مرکوز کی جائے ورنہ عوام پیار اور نفرت، دونوں کے سلسلے ’’بنجاروں‘‘ سے کم نہیں جو پیار کرتے ہیں تو پیار کرتے ہیں اور جب نفرت کرتے ہیں تو پھر صرف نفرت کرتے ہیں۔