کراچی ( رپورٹ:محمد علی فاروق ) بنگلادیشی عوام آزادی وخودمختاری کا تحفظ اور بھارتی تسلط سے نکلناچاہتے ہیں‘مودی کے دورے پر احتجاج مسلم مخالف پالیسی اور سرحدپر آباد شہریوں پرمظالم کیخلاف کیاگیا‘ احتجاج کے بعد نئی دہلی اپنی پالیسیاں ڈھاکا پر تھوپ نہیں سکے گا‘حسینہ واجد کی پاکستان مخالف پالیسیوں کا یہ مطلب نہیں کہ بنگلا دیشی عوام بھارت کے حامی ہیں۔ ان خیالا ت کا اظہار سابق سفارت کار اور معر وف دانشور عبدالباسط، جمیل احمد خان، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما آصف لقمان قاضی اورجامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مودی کے دورہ ٔبنگلادیش پر ہونے والا شدید احتجاج کیا بتا رہا ہے؟‘‘ عبدالباسط نے کہا کہ مودی کے دورہ بنگلادیش کے موقع پر احتجاج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلادیشی حکومت اور عوام کے درمیان ایک خلیج موجود ہے‘ بنگلادیشی حکومت اوربھارتی حکومت ایک دوسرے سے تعلقات کو مضبوط بنا نا چاہتے ہیں مگر بنگلادیشی عوام یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان سے بھی تعلقات بہتر ہوں‘ بنگلادیشی عوام کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ مودی حکومت نے زیادتیاں کیں‘ مسلم مخالف قوانین بنائے‘ بھارت میں مسلمانوںکو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے‘ آسام میں19 لاکھ سے زاید لوگوں کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا بلکہ ایک کروڑ سے زاید مسلمانوںکو یہ ثابت کر نا پڑا کہ وہ یا ان کے آباو اجداد 1971ء سے قبل بھارتی شہری تھے‘ بہرحال بنگلادیشی عوام اور حکومت میں ایک خلا موجود ہے جو اس احتجاج کے نتیجے میں کھل کر دنیا کے سامنے آگیا۔ جمیل احمد خان نے کہا کہ بھارت گزشتہ 50 برس سے یہ تاثر دے رہا ہے کہ بنگلادیش کو آزادی بھارت نے دلوائی‘ اسی لیے بھارت کا ہر سربراہ سمجھتا ہے کہ اس کا اثر بر قرار رہے گا‘ مودی حکومت نے بھارت میں ایسے حالات پیدا کر دیے جس میں مسلمانوں کی زندگی تنگ کر دی گئی ہے‘ بنگلادیش کو اس بات کا ادراک ہے جس کا ثبوت انہوں نے احتجاج کی صورت میں دیا‘ مظاہروں سے بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر ابھرا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک پر بھی بھارت کا تسلط زیادہ عرصے قائم نہیں رہ پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بنگلادیش آبی تنازع کے حل کی کوشش کر رہا ہے جو بے سود نظر آتی ہے جبکہ بھارت معاہدے کے تحت پانی نہیں دے رہا اور حکمران طبقے کو تو بھارت کی پشت پناہی کی ضرورت ہے تاہم بھارت اور مودی کے خلاف بنگلادیشی عوام میں نفرتیں پائی جاتی ہیں جو کہ ایک قدرتی عمل ہے‘ پاکستان کو اس وقت بنگلا دیشی عوام کے دلوں میں ہمدردی پیدا کرنے اور بین الاقوامی سطح پر راہ ہموار کرنی چاہیے کہ مودی کی پالیسیاںخطے کے امن کے لیے خطر ہ ہیں۔ آصف لقمان قاضی نے کہا کہ احتجاج نے ثابت کر دیا کہ بنگلادیش کے عوام میں بھارت مخالف جذبات کئی دہا ئیوں سے جمع ہیں‘ حسینہ واجد کی پاکستان مخالف پالیسیوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بنگلادیش کے عوام بھارت کے حامی ہیں‘بنگلادیش کی سیاست میں بھارت نواز عوامی لیگ اور دوسری جانب خالدہ ضیا کی بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی، جماعت اسلامی، علما اور بھارت مخالف پارٹیاں کھڑی ہیں ‘ بھارت اپنے ہر پڑوسی ملک پر معاشی، سیاسی، ثقافتی، سیکورٹی سبقت اور اپنی پالیسیاں مسلط کرنا چاہتا ہے‘ بنگلادیش کے عوام میں یہ احساس موجود ہے کہ بھارت ان کا معاشی اور سیاسی استحصال کر رہا ہے‘ مودی حکومت کی مسلمان دشمن پالیسیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے‘ اندرونی معاملات، دفاعی اور معاشی معاملات میں بھارت کے تسلط کی وجہ سے بنگلادیشی عوام کی بڑی تعداد مودی اور حسینہ واجد سے نفرت کرتی ہے‘ شیخ حسینہ واجد کا بھی مخالفین اور معترضین کے ساتھ سخت رویہ اور طاقت کے بل بوتے پر معاملات طے کر نے کی روش کی وجہ سے وہ ایک ڈکٹیٹر کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں‘ ہزاروں سیاسی کارکنان کو شہید کیا گیا ہے لیکن یہ صورت حال مستقل ایسے برقرار نہیں رکھی جاسکتی‘ بنگلادیش اور چین کے آپس کے تجارتی معاہدے سے لگتا ہے کہ بنگلادیش کو بھارتی تسلط سے نکلنے میں آسانی ہوگی‘ مودی کی آمد پر احتجاجی مظاہروں میں بڑی تعداد میں عوام کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ بنگلادیشی عوام اپنی آزادی اور خود مختاری کا تحفظ چاہتے ہیں اور بھارتی تسلط سے نکلنے کے خواہشمند ہیں۔ ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت نے وزیراعظم نریندر مودی کو بنگلادیش کی آزادی کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر مدعو ضرور کیا تھا مگر مودی کے آنے سے قبل ہی بنگلادیش میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور پر تشدد احتجاج کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئیں ‘ احتجاج کی بنیادی وجہ بھارت اور بنگلادیش کے بارڈر پر آباد شہریوں پر بھارت کے مظالم ہیں‘ مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے قوانین کے ردعمل کے طور پر بھی نفرتوںمیں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ بھارت بنگلادیشی عوام کے لیے ایک ناپسندیدہ ملک بن گیا اور دونوں ممالک میں دوریاں پیدا ہوئی ہیں‘ بنگلادیش نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنالیے ہیں‘ نیپال اور بنگلادیش 2 ایسے ممالک ہیں جہاں بھارت آسانی سے اپنی ہر بات منوالیتا تھا جبکہ اس احتجاج سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ وہ اب اپنی پالیسیاں بنگلادیش پر آسانی سے نہیں تھوپ سکے گا۔