مرتب: عتیق الرحمن
مطالعہ قرآن: ’’اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ان کو اللہ دردناک سزا دے گا‘‘۔ (النساء:371) خالق و مالک نے انسان کو دنیا میں اپنا نائب بنا کر خلق خدا کی بھلائی کے لیے بجھوایا ہے اور انسان کے لیے غرور تکبر کو قطعی پسند نہیں کیا گیا۔ جب اللہ پاک نے سیدنا آدم ؑکو پیدا کیا اور فرشتوں کو ان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو فرشتوں کے سردار ابلیس نے غرور میں آکر حکم عدولی کی، اس حوالے سے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا‘‘۔ (البقرۃ:43) اس پر اسے جنت سے نکال دیا گیا، اس حوالے سے قرآن کریم میں فرمان الٰہی ہے کہ فرمایا تو (بہشت سے) اتر جا تجھے زیبا نہیں کہ یہاں غرور کرے، پس نکل جا، توذلیل ہے (الاعراف:31)، حقیقتاً ابلیس کے تین قصور تھے ایک اللہ کے حکم کو نہ ماننا، دوسرے فرشتوں کی جس جماعت میں وہ رہتا تھا سجدہ کرتے وقت وہ اس جماعت سے الگ ہوا، تیسرے اس نافرمانی پر نادم ہونے کے بجائے تکبر کیا، خود کو بڑا سمجھا اور سیدنا آدمؑ کو حقیر سمجھا لہٰذا اس پر اللہ کی لعنت اور پھٹکار ہوئی اور ذلیل و خوار ہوا اور یہ لعنت و پھٹکار ہمیشہ کے لیے اس کا مقدر ہوگئی۔ اسلام ہمیں صراط مستقیم پر چلتے ہوئے عاجزی، انکساری ختیار کرنے کا درس دیتا ہے، جبکہ غرور و تکبر سے بچنے کا حکم دیا گیا، تاکہ انسان اپنی اصل کو فراموش نہ کرے کیونکہ غرور اللہ پاک کو پسند نہیں، اس حوالے سے قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ یقینا سب کچھ جانتا ہے اور وہ تکبر کرنے والوں کو قطعاً پسند نہیں کرتا (النحل:32)، اسی باب میں ایک مقام پر سیدنا لقمان ؑ کی اپنے بیٹے کوکی جانے والی نصیحت کے حوالے سے مذکور ہے کہ بے شک اللہ کسی تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا (القمان:81)، غرور کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور انہیں فرار کی کوئی راہ نہیں ملے گی۔ بلا شبہ تکبر انسان کو خالق کائنات کی خوشنودی اور رسول کریم کی محبت اور شفاعت سے محروم کر دیتا ہے اور اس طرح آدمی دین اور دنیا سے محروم ہو جاتا ہے۔
مطالعہ حدیث: حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ ربّ العزت آسمانوں کو لپیٹ لے گا، پھر انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں دے کر فرمائے گا کہ میں بادشاہ ہوں، طاقت و قوت والے (جابر) بادشاہ کہاں ہیں، تکبر والے کہاں ہیں، پھر زمینوں کو اپنے بائیں ہاتھ میں لے کر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں، طاقت و قوت والے (جابر) بادشاہ کہاں ہیں، تکبر والے کہاں ہیں؟ سیدنا ابو ہریرۃؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ تکبر میری چادر ہے۔ عظمت میرا ازار ہے، پس جو کوئی مجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے گا میں اسے آگ میں پھینک دوں گا ۔ (سنن ابو دائود) سیدنا ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے اور نہ ہی انہیں پاک و صاف کریں گے، ابو معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور مفلس تکبر کرنے والا۔ (مسلم)
سیرت ِ صحابہ: امت محمدیہؐکے فرعون ابو جہل کا غرور خاک میں
سیدنا عبد الرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ میں جنگ بدر کے روز صف کے اندر تھا کہ اچانک مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دائیں بائیں دو نوعمر جوان ہیں۔ گویا ان کی موجودگی سے میں حیران ہوگیا کہ اتنے میں ایک نے سرگوشی میں مجھ سے کہا: چچاجان! مجھے ابوجہل کو دکھلادیجیے۔ میں نے کہا: بھتیجے! تم اسے کیا کروگے؟ اس نے کہا ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہؐ کو گالی دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا وجود اس کے وجود سے الگ نہ ہوگا یہاں تک کہ ہم میں جس کی موت پہلے لکھی ہے وہ مر جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس پر تعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے شخص نے مجھے اشارے سے متوجہ کرکے یہی بات کہی۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے چند ہی لمحے بعد دیکھا کہ ابو جہل لوگوں کے درمیان چکر کاٹ رہا ہے۔ میں نے کہا ’ارے دیکھتے نہیں! یہ رہا تم دونوں کا شکار جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی وہ دونوں اپنی تلواریں لیے جھپٹ پڑے اور اسے مار کر قتل کر دیا۔ پھر پلٹ کر رسول اللہؐ کے پاس آئے، آپؐ نے فرمایا: تم میں سے کس نے قتل کیا ہے؟ دونوں نے کہا: میں نے قتل کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اپنی اپنی تلواریں پوچھ چکے ہو؟ بولے نہیں۔ آپؐ نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا: تم دونوں نے قتل کیا ہے‘‘۔ البتہ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ معاذ بن عمرو بن جموح نے بتلایا کہ میں نے مشرکین کو سنا وہ ابوجہل کے بارے میں جو گھنے درختوں جیسی۔ نیزوں اور تلواروں کی۔ باڑھ میں تھا کہہ رہے تھے: ابو الحکم تک کسی کی رسائی نہ ہو۔ معاذؓ بن عمرو کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ بات سنی تو اسے اپنے نشانے پر لے لیا اور اس کی سمت جمارہا۔ جب گنجائش ملی تو میں نے حملہ کر دیا اور ایسی ضرب لگائی کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے اڑ گیا۔ واللہ! جس وقت یہ پاؤں اڑا ہے تو میں اس کی تشبیہ صرف اس گٹھلی سے دے سکتا ہوں جو موسل کی مار پڑنے سے جھٹک کر اڑ جائے۔ ان کا بیان ہے کہ ادھر میں نے ابوجہل کو مارا اور ادھر اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر تلوار چلائی جس سے میرا ہاتھ کٹ کر میرے بازو کے چمڑے سے لٹک گیا اور لڑائی میں مخل ہونے لگا۔ میں اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے سارا دن لڑا، لیکن جب وہ مجھے اذیت پہنچانے لگا تو میں نے اس پر اپنا پاؤں رکھا اور اسے زور سے کھینچ کر الگ کردیا اس کے بعد ابوجہل کے پاس معوذؓ بن عفراء پہنچے۔ وہ زخمی تھا۔ انہوں نے اسے ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا صرف سانس آتی جاتی رہی۔ اس کے بعد معوذؓ بن عفراء بھی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ جب معرکہ ختم ہوگیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا: کون ہے جو دیکھے کہ ابوجہل کا انجام کیا ہوا۔ اس پر صحابہ کرامؓ اس کی تلاش میں بکھر گئے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسے اس حالت میں پایا کہ ابھی سانس آجا رہی تھی۔ انہوں نے اس کی گردن پر پاؤں رکھا اور سر کاٹنے کے لیے ڈاڑھی پکڑی اور فرمایا: او اللہ کے دشمن! آخر اللہ نے تجھے رسوا کیا نا؟ اس نے کہا: مجھے کاہے کو رسوا کیا؟ کیا جس شخص کو تم لوگوں نے قتل کیا ہے اس سے بھی بلند پایہ کوئی آدمی ہے یا جس کو تم لوگوں نے قتل کیا ہے اس سے بھی اوپر کوئی آدمی ہے؟ پھر بولا: کاش ! مجھے کسانوں کے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔ اس کے بعد کہنے لگا: مجھے بتاؤ آج فتح کس کی ہوئی؟ سیدنا عبد ا للہ بن مسعود نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول کی۔ اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعودؓسے۔ جو اس کی گردن پر پائوں رکھ چکے تھے۔ کہنے لگا: او بکری کے چرواہے ! تو بڑی اونچی اور مشکل جگہ پر چڑھ گیا۔ واضح رہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ مکے میں بکریاں چرایا کرتے تھے۔
اس گفتگو کے بعد عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر کاٹ لیا اور رسول اللہؐ کی خدمت میں لاکر حاضر کر تے ہوئے عرض کیا: یارسول اللہؐ! یہ رہا اللہ کے دشمن ابوجہل کا سر۔ آپؐ نے تین بار فرمایا: واقعی۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کے بعد فرمایا: (اللہ اکبر، الحمدللہ الذی صدق وعدہ ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ۔) اللہ اکبر، تمام حمداللہ کے لیے ہے جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھا یا، اپنے بندے کی مدد فرمائی، اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔ پھر فرمایا: چلو مجھے اس کی لاش دکھاؤ۔ ہم نے آپؐ کو لے جاکر لاش دکھائی۔ آپؐ نے فرمایا: یہ اس امت کا فرعون ہے۔