افغانی اور نعمت اللہ کی پیروی کیجیے

579

1979میں جب جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی بلدیہ کراچی کے میئر منتخب ہوئے تو یہ ملک میں ایک طویل عرصے کے بعد بلدیاتی اداروں کی بحالی تھی۔5 جولائی 1977 کو جب جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کیا تو انہوں نے پہلے تو 90 روز میں انتخاب کرانے کا وعدہ کیا، لیکن جب بعض سیاستدانوں کی طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ پہلے احتساب پھر انتخاب۔ پھر جنرل صاحب نے غیر معینہ مدت کے لیے انتخابات ملتوی کردیے اور ستمبر 1979میں بلدیاتی انتخاب کرائے۔ ان انتخابات میں کراچی سے جماعت اسلامی کے کونسلر بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے جن کے ووٹوں سے افغانی صاحب اس شہر کراچی کے پہلے میئر منتخب ہوئے۔
جب افغانی صاحب میئر کی نشست پر براجمان ہوئے تو ایسا نہیں تھا کہ کے ایم سی میں کرپشن نہیں تھی اور سارے کام ایمان داری اور دیانت داری سے ہو رہے تھے۔ اس وقت بعض حلقوں کی طرف سے یہ آوازیں بھی اٹھیں کہ کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کرکے بلدیہ کو کرپشن سے پاک کیا جائے۔ افغانی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں شہر کی خدمت کرنا ہے اور اس کے لیے ہم خود اپنی حد تک دیانتداری سے کام کریں گے اور کوشش کریں گے ہمارے افسران بھی اسی طرح دیانتداری کا مظاہرہ کریں ہمیں یاد ہے کہ اس وقت ایک بہت اچھا اور پر اثر جملہ افغانی صاحب یا کسی ساتھی کی طرف سے سامنے آیا کہ ’’ہم کرپشن کے سمندر میں ایمانداری کے جزیرے قائم نہیں کرسکتے‘‘، چنانچہ افغانی اور ان کے اخوت گروپ کے تمام کونسلروں نے اپنی ساری توجہ ترقیاتی کاموں کی طرف مرکوز کر دیں۔ عبدالستار افغانی نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور چار سال میں کراچی میں وہ ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے کہ ہر شہری نے اس کی تعریف و توصیف کرنا شروع کی، افغانی صاحب کے پاس بیرون ملک سے ان پاکستانیوں کے خطوط آئے جو برسوں بعد کراچی میں اپنے گھروں کو گئے تھے انہوں نے لکھا کہ ہمیں اس دفعہ کراچی بالکل بدلا ہوا لگا ہماری گلی میںکبھی سڑک نام کی کوئی چیز نہیں تھی لیکن اس دفعہ جب ہم اپنے گھر گئے تو نہ صرف ہماری گلی کی سڑک بنی ہوئی تھی بلکہ پورے کراچی میں سڑکوں کا جال بچھا ہوا نظر آیا اسی طرح شہر کی صفائی ستھرائی کی صورتحال بھی پہلے سے بہت بہتر نظر آئی۔
جماعت اسلامی کے میئر افغانی اور تمام کونسلروں کی اس شاندار کارکردگی کی وجہ سے جب 1983میں دوسرے بلدیاتی انتخاب ہوئے تو اس میں جماعت اسلامی کو پہلے سے زیادہ کامیابی ملی۔ دلچسپ بات یہ کہ اس دفعہ کے انتخاب میں جماعت نے عبدالستار افغانی کو بلدیہ کے کونسلر کا انتخاب نہیں لڑایا تھا۔ 1979 کے انتخاب میں تو وہ لیاری سے کونسلر منتخب ہوئے تھے لیکن اس دفعہ جماعت نے کچھ بڑے ناموں کو ان کے خلاف لوگوں کی شکایات کی وجہ سے ڈراپ کردیا تھا جن میں ڈاکٹر اطہر قریشی، طالب رسول، زہیر اکرم ندیم، شمیم شیخ، اسلم مجاہد و دیگر کے ساتھ عبدالستار افغانی بھی تھے۔ ایک دفعہ اسی دوران کسی صحافی کا افغانی صاحب کے پاس فون آیا کہ آپ اس دفعہ کونسلر کا انتخاب کیوں نہیں لڑ رہے تو افغانی صاحب کا ایک ہی جواب ہوتا کہ یہ جماعت کا فیصلہ ہے۔ افغانی صاحب کے ڈراپ کرنے کی خدا نخواستہ یہ وجہ نہیں تھی کہ ان کے خلاف کوئی مالی بدعنوانی کی شکایت سامنے آئی تھی یہی وجہ ہے دوسری مرتبہ جماعت کراچی نے ان کے میئر کے لیے دوبارہ انتخاب لڑانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے ان کو مخصوص نشستوں پر کونسلر منتخب کرایا گیا۔ افغانی صاحب کے پہلے دور میں کے ڈی اے سے بلک واٹر سپلائی سسٹم کے محکمے اور کے ایم سی سے واٹر سپائی سسٹم کو ملا کر ایک نیا ادارہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بنایا گیا اس نئے ادارے کا چیرمین عبدالستار افغانی کو بنایا گیا۔
1979 سے 1987 تک افغانی صاحب دو مرتبہ شہر کراچی کے میئر رہے انہوں نے ان 8برسوں میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے یہ شہر اپنے منہ سے بولتا تھا کہ کسی نے اس کو سجایا بنایا ہے۔ موٹر وہیکل ٹیکس کی وصولیابی بلدیہ کا حق تھا اس کے لیے عبدالستار افغانی نے ہر سرکاری فورم پر بھر پور آواز اٹھائی اور کراچی کے شہریوں کے اسی حق کی خاطر انہوں نے فروری 1987 میں بلدیہ کے کونسلروں کے ساتھ ایک پرامن اور قانون کے دائرے میں ریلی نکالی جو کے ایم سی ہیڈ آفس سے سندھ اسمبلی بلڈنگ تک گئی۔ موٹر وہیکل ٹیکس تو کیا ملتا حکومت سندھ نے بلدیہ کراچی کو توڑدیا اور ڈیڑھ سو سے زائد کونسلروں کو گرفتار کرلیا۔ اس تفصیل کے بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے کراچی کے حقوق کے لیے ماضی میں بھی بڑی قربانیاں دی ہیں اور آج بھی امیر جماعت اسلامی کراچی نعیم الرحمن کی قیادت میں حق دو کراچی کو۔۔ کی مہم پورے زور شور کے ساتھ چلائی جارہی ہے۔
میئر افغانی کے بعد اس شہر میں ایم کیو ایم کے فاروق ستار میئر منتخب ہوئے، افغانی صاحب نے اپنے پورے میئر شپ کے دوران ایسی شاندار خدمات انجام دی ہیں کہ بعد میں جماعت اسلامی کی سخت مخالف تنظیم ایم کیو ایم ان کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ بھی نہ دکھا سکی۔ لیاری کے جس چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے ہوئے وہ میئر بنے تھے اسی فلیٹ سے ان کا جنازہ اٹھایا گیا۔ ایک دفعہ لیاری میں پانی کا بحران ہوا تو افغانی صاحب خود بالٹی لے کر کسی جگہ سے پانی بھر کر لا رہے تھے کے ایم سی کے کسی ملازم نے دیکھ لیا اس نے متعلقہ افسران کو اطلاع کی کہ افغانی صاحب خود پانی بھر رہے ہیں تھوڑی دیر میں ان کے گھر پر پانی کا ایک ٹینکر آگیا انہوں نے ٹینکر کو یہ کہہ کر واپس کردیا یا تو سارے لیاری کو ٹینکر فراہم کیا جائے یا پھر لیاری میں جب پانی کی سپلائی بحال کی جائے گی تو میں اس وقت لیاری کے اور شہریوں کی طرح پانی بھر لوں گا۔
اسی طرح جب سن دو ہزار میں نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ ناظم کراچی بنے تو اس وقت بھی کے ایم سی کوئی صاف ستھرا محکمہ نہیں تھا کہ اس کے سارے افسران ایمان دار اور محنتی تھے نعمت صاحب نے بھی کرپشن کے خلاف مہم چلانے کے بجائے کرپٹ افسران سے ایماندارانہ کام کرائے اگر ان کے دور کی مثالیں پیش کی جائیں تو کئی کالم بھی اس کے لیے کم پڑجائیں گے جب وہ ناظم بنے تو ایک کسی کام کا ٹھیکہ 50لاکھ سے زائد میں ٹینڈر ہو چکا تھا نعمت صاحب نے اسے کینسل کرکے دوبارہ ٹینڈر کرنے کہا پھر وہ کام 29لاکھ میں ہوا۔
ان دونوں بزرگوں کی مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہ کرپشن ہوتی ہے چین میں تو اس پر فوری فیصلہ کرکے سزائے موت دی جاتی ہے لیکن پھر بھی کرپشن ہوتی ہے۔ ہماری موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور اپنے ساتھیوں کی کارکردگی پر گہری نظر رکھیں کہ وہ کسی کرپشن میں ملوث نہ ہوں اور جو ادارے کرپشن کے خلاف کام کررہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کیا جائے وہائٹ کالر جرائم کا ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لہٰذا ملک میں جو کرپشن ہورہی ہے اسے کم کرنے کی کوششیں ضرور کرتے رہیں لیکن ترقیاتی کاموں پر توجہ دیں اور مہنگائی کے جن کو قابو میں کرنے کوشش کریں وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے اگر بقیہ مدت میں آپ کچھ ڈیلیور نہ کرسکے تو اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کا جیتنا بہت مشکل ہو جائے گا۔