اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں۔۔۔۔

288

کراچی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے اس کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق تین کروڑ سے زائد ہے یہ ایک میگا سٹی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا اس شہر کو ملک کی تمام حکومتوں نے سوتیلے بچّے کی طرح سے پالا پوسا ہے جبکہ یہ وہ شہر ہے جس کے پاس بڑی وسعت ہے اس کے پاس دوبڑی بندرگاہیں ہیں جو سارا سال کھلی رہتی ہیں اور تمام دنیا کے بحری جہاز آتے اور جاتے ہیں اس کے علاوہ بہت بڑا بین الاقوامی ہوائی اڈّہ بھی ہے دن رات کام کرنے والے کارخانے ہیں۔ اپنی پیداوار کے لحاظ سے یہ شہر سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اس کے علاوہ اس کی آمدنی سے پورا ملک اپنی ضروریات پوری کرتا ہے۔ وفاق ہو یا سندھ اس سے اپنا حق پورا وصول کرتے ہیں مگر افسوس اس شہر کو اس کا حق نمک کے برابر بھی نہیں دیتے۔ ملک کے تمام صوبوں سے لوگ یہاں آتے ہیں اور یہ شہر ان کو اپنی بانہوں میں لے کر روزگار مہیّا کرتا ہے بلکہ ایک زمانہ تھا خود راقم کے ساتھ بنگلا دیش، برما اور ہندوستان کے لوگ کام کرتے اور اپنے گھر والوں کو یہاں سے رقم بھیجا کرتے تھے۔
ایک شخص کے کئی بیٹے ہوں وہاں بھی دیکھا جاتا ہے کہ جو بیٹا زیادہ محنتی ہو اور اپنی محنت سے زیادہ کماتا ہو اور اس کی آمدنی سے گھر کی ضرویات پوری ہوتی ہوں اس بیٹے کی قدر سب سے زیادہ ماں باپ کے دل میں ہوتی ہے۔ ماں باپ کی آنکھوں کا تارا یہ بیٹا جب ذرا بیمار ہوتا ہے تو سب اس کے لیے فکر مند ہوجاتے ہیں اس کے لیے دوائی اور صحت بخش غذاؤں کا بندوبست کرتے ہیں اچھے طبیب سے علاج کراتے ہیں۔ مگر یہاں اس بیٹے کو کبھی تعصب کا زہر پلایا جاتا ہے، کبھی اس کو دہشت گردوں کے حوالے کردیا جاتا ہے، کبھی اس محنتی بیٹے کے جسم کے مدافعتی نظام قانون نافذ کرنے والے ادارے، پولیس اور عدالتی لاقانونیت کے ذریعے سے اس کے جسم کو لاغر اور بیمار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے جسم کا گوشت نوچ نوچ کر کھانے والے گدھ اس کے گرد منڈلاتے ہیں۔ ان سب کے باوجود جب اس شہر کی طبیعت ٹھیک ہوتی ہے اس کے زخم مندمل ہوجاتے ہیں پر دوبارہ نکل آتے ہیں اور یہ دوبارہ شاہین کی طرح پرواز کرنے لگ جاتا ہے۔
ان سب کے باوجود اس شہر کے لوگوں کی کچھ خوبیاں ہیں یہاں کے رہنے والے اسلام سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں جب کبھی دنیا کے کسی خطّے میں مسلمانوں پر ظلم ہو، اسلام کے کسی شعائر کی توہین کی جائے یا نبی مہربانؐ کی شان میں گستاخی کی جائے یہاں کے شہری سراپا احتجاج ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں ظلم کے خلاف ایک توانا آواز بن جاتے ہیں۔ ملک کے اندریا دنیا کے کسی خطّے میں کوئی زمینی یا سماوی آفت آجائے یہاں کے لوگ دل کھول کر بندگان خدا کی مدد کے لیے انفاق کرتے ہیں۔ پاکستان کے کسی حصّے میں بھی اتنے بڑے فلاحی اور رفاعی کام نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے چند مثالیں دے کر آگے بڑھتے ہیں مثلاً انڈس اسپتال، ایس آئی یو ٹی، الخدمت کے اسپتال، وغیرہ وغیرہ۔ ماہ رمضان ہو تو پورے شہر کی عجیب کیفیت ہوتی ہے بلا مبالغہ ہزاروں دستر خوان افطاری کے لیے لگائے جاتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کو افطار کی دعوتیں دیتے ہیں۔ ایسا صرف مکے مدینے میں دیکھنے میں آتا ہے یا پھر کراچی میں۔ کراچی کے لوگ نظریاتی لوگ ہیں جس کی وجہ سے ان کے رگ رگ میں اسلام اور ملک سے محبت رچی بسی ہوئی ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ کراچی کے عوام سمجھتے ہیں کہ کراچی کی خوشحالی سے پاکستان کی خوشحالی نتھی ہے کراچی میں اگر امن اور سکون میں رہے گا اس کی معیشت کا پہیہ چلے گا تو سرمایا پورے ملک میں گردش کرے گا او ر ملک ترقی کرے گا اس لیے کراچی کے لوگوں نے 28 مارچ کی عظیم الشان ریلی جو کراچی کے حقوق کے لیے نکالی گئی اس میں بھر پور شرکت کی اور یہ ثابت کردیا کہ اہل کراچی بیدار ہیں لسانیت کی افیم اور عصبیت کا نشہ جو دھوکے سے پلایا گیا اس کا اثر ختم ہوچکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیوایم اور اے این پی کے چہرے سے نقاب اتر چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے کراچی کے چودہ کے لگ بھگ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان نے تو اپنی نا اہلی ثابت کر ہی دی اور تمام جاری کردہ فنڈ جو کراچی ترقیاتی پیکیج کے حوالے سے اعلان کیے گئے تھے وہ سب سفید جھوٹ بن کر سامنے آچکے ہیں۔
جماعت اسلامی کراچی ماضی میں بھی کراچی کی توانا آواز تھی اور اب بھی، امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ایک توانا آواز بن کر ابھر ے ہیں۔ انہوں نے گورنر ہاؤس کے دھرنے میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ حقوق کراچی کی یہ جدوجہد جاری ہے گی اس کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس پر بھی جائیں گے۔ انہوں نے واقعے کی بھی مذّمت کی کہ ضلع غربی جماعت اسلامی کے امیر مولانا مدّثر حسین انصاری کے خلاف اور نگی نالے کے معاملے پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ انہوں نے اس بات مذّمت بھی کی اور کہا کہ ہم اس طرح کی ایف آئی آر سے ڈرنے والے نہیں، مزید وضاحت کی کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ برساتی نالوں پر سے تجاوزات ختم کی جائے مگر اس طرح سے لوگوں کے گھروں کو تباہ کرنا ہرگز درست نہیں پہلے ان افراد کی آباد کاری کی جاتی اور ان کے نقصان کا ازالہ کیا جاتا۔ یہاں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ پہلے گھر مسمار کردیے گئے یا تو پہلے ہی گھر تعمیر کرنے نہ دیتے اور قانون کو اپنا فرض ادا کرنا تھا۔ ماضی میں لیاری موٹر وے ایکسپریس کی تعمیر کے دوران جب نعمت اللہ خان سٹی ناظم تھے انہوں نے تمام متاثرین کے نقصان کا ازالہ کیا تھا اور تمام لوگوں کو مشرف کالونی جیسی بہترین سڑکوں اور سیوریج کی لائنوں سے آراستہ بستیاں بنا کر دی تھی مگر جب یہ زمینیں بیچی جارہی تھیں، قانون اور عدالت اس وقت ستوں پی کر سورہے تھے آج تیس پینتیس سال کے بعد خواب غفلت سے جاگے اور بلڈوزر لے کر غریب لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنے چل دیے۔ وہ لوگ کہاں گئے جو ان زمینوں کو بیچ کر پیسا خود کماتے رہے ہیں تھانوں میں، وزیروں اور مشیروں کو پہنچاتے رہے ہیں انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی آخر وہ بھی تو برابر کے مجرم ہیں ان کو بھی سامنے لاکر سزا دینی چاہیے۔ ان تمام لوگو ں کو دودھ سے غسل دے کر پاک صاف کردیا گیا ہے اور اب سب اچھّے بچّے بن چکے ہیں۔ انصاف کا پلڑا تو ہمیشہ انہی لمبے ہاتھوں والے مجرموں سے جھک کر گلے ملتا رہا ہے اس نے ہمیشہ مظلوموں سے اپنے دامن کو دور رکھا ہے۔
کراچی کے شہری چاہے وہ کوئی زبان بولنے والے ہوں ان کا تعلق چاہے کسی مذہب سے ہو جس طرح انہوں نے ’’حق دو کراچی کو‘‘ ریلی میں شرکت کی ہے اب ان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ کراچی کے حق پر پہرہ دیں اور بڑی تعداد میں آگے آنے والی مہم میں شریک ہوں یاد رکھیے کہ مسلسل گرنے والی بوندیں سخت پتھر میں سوراخ کردیتی ہیں۔