دمشق/ برسلز (انٹرنیشنل ڈیسک) شام میں دریائے فرات کے مغربی علاقوں میں ایران نواز ملیشیائیں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے عراق کے ساتھ غیر قانونی سرحدی راستوں کے ذریعے اسلحہ لا رہی ہیں۔ خبررساں اداروں کے مطابق رواں ہفتے کے آغاز میں پھلوں اور سبزیوں کی پیٹیوں میں 3 ٹرکوں کے ذریعے اسلحہ کی کھیپ دیر الزور کے دیہی علاقے میں میادین پہنچائی گئی۔ شامی مبصر برائے انسانی حقوق کے مطابق یہ کھیپ عراقی سرزمین سے آئی۔ ملیشیاؤں کے عناصر نے اس اسلحہ کو اتار کر ان سرنگوں میں منتقل کر دیا، جنہیں ماضی میں داعش استعمال کرتی تھی۔ ان ملیشیاؤں کی جانب سے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس مقصد کے لیے ان نوجوانوں کو درپیش سنگین معاشی حالات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے شام میں اسد حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قیامِ امن کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے۔ برسلز میں شام سے متعلق عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسدحکومت اور اس کے اتحادیوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ لڑائی کا حل صرف بات چیت کے ذریعے ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام کا المیہ کسی صورت اگلے 10برس جاری نہیں رہنا چاہیے۔ ادھر امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے شام میں روس کے کردارپرنکتہ چینی کرتے ہوئے اس پرالزام عائد کیا ہے کہ وہ شامی عوام کو بھوک کا شکار کرنے کے لیے بشارالاسد کی جاری کوششوں کی حمایت کررہا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ جنگ زدہ ملک کی مزید سرحدی گزرگاہیں کھولنے کی اجازت دے۔