کچی آبادیوں اور گوٹھوں کا کوئی پرسان حال نہیں کاگف

520

حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) کچی آبادیز اینڈ گوٹھ فیڈریشن آف پاکستان کے تاحیات چیئرمین سفیر امن صاحبزادہ احمد عمران نقشبندی مرشدی نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت صوبے کی ایک لاکھ 10 ہزار کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی میں ناکام ہوچکی ہے، عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے، وہ اپنی ذمے داری پوری کریں، کچی آبادیاں اور گوٹھ تباہ حال، بیماریوں، لینڈ مافیا اور ان سہولت کاروں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، کچی آبادیوں اور گوٹھوں کا کوئی پرسان حال نہیں، وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں گوٹھوں اور کچی آبادیوں کا کردار مثالی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’کاگف‘‘ کے مرکزی آفس میں لاہور کی مختلف کچی آبادیوں کے وفود سے ملاقات کے دوان کیا۔ اس موقع پر ’’کاگف‘‘ پنجاب کے جنرل سیکرٹری صاحبزادہ کامران چشتی، صاحبزادہ بلال حسن چشتی اور عمران ارشد بھی موجود تھے جبکہ وفود میں راجہ ندیم، محمد فیاض بٹ، عرفان خان، شاہد عابد، فیاض علی، محمد یونس خان، محسن رضا، لال محمد صدیق، مہدی خان، محمد امین، منصف خان اور مرتضیٰ مہدی و دیگر شامل تھے۔ وفد نے’’کاگف‘‘ کے چیئرمین کو پنجاب خصوصاً لاہور کی کچی آبادیوں کے مالکانہ حقوق کی فراہمی میں پنجاب کے حکومتی اداروں کی جانب سے حائل رکاوٹوں سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر ’’کاگف‘‘ کے چیئرمین نے کہا کہ نیشنل ازم ہی ملک کو چیلنجز سے نکال سکتا ہے، جس کے لیے نظریہ پاکستان پر عملدرآمد اشد ضروری ہے۔ کچی آبادیوں کے مکینوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کیخلاف سازشوں کا مقابلہ اتحاد کی طاقت سے کیا جائے گا۔ ’’کاگف‘‘ غیر جمہوری اور شاہی نظام کیخلاف جلد بھرپور رابطہ عوام مہم کا آغاز کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے اور حکومت لینڈ مافیا اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف کارروائی کرکے کچی آبادیوں اور گوٹھوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق اور بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ لینڈ مافیا اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف مؤثر کارروائی کے لیے بلا امتیاز اقدامات کرے۔ لاہور کی راوی روڈ کچی آبادی، البدر پاک کالونی، المدد پاک کالونی، مجاہد کالونی، صدیق کالونی، ریلوے اور دیگر محکموں کی زمینوں پر کچی آبادی قوانین کی شرائط پوری کرنے والی کچی آبادیوں کو حکومت پنجاب کی جانب سے کچی آبادی ترمیمی بل 31 دسمبر 2012ء تک آباد تمام کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینے کا کام تاحال سرخ فیتے کی نذر ہورہا ہے۔