گلگت وبلتستان کو صوبہ بنانے کی بحث اور مسئلہ کشمیر پر اثر – پروفیسر خورشید احمد

637

یہ امر واقع ہے کہ جلد بازی میں اور خوب سوچ بچار کے بغیر مسلط کیے گئے فیصلے قوموں اور ملکوں کی زندگی پر دُور رس منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یوں بظاہر کوئی چھوٹا سا فیصلہ ،بعض اوقات ملکوں کے مستقبل کا نقشہ بدل دیتا ہے۔جموں وکشمیر کاقضیہ، جدید بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں ایک دہکتا ہوا انگارہ ہے۔ اقوام متحدہ کی بے بسی، عالمی طاقتوں کی ظالمانہ لاتعلقی اور بھارت کی عہدوپیمان شکنی اور کشمیر کے مظلوم عوام پر بدترین فوج کشی نے دنیا کے سامنے ایسا منظر پیش کیا ہے، جس پر ہر درد مند انسان خون کے آنسو روتا ہے۔

بھارت میں برسراقتدار راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کی نسل پرست فسطائی حکومت نے اس ماحول کو حددرجہ درد ناک بنا دیا ہے۔ اسی پس منظر میں عالمی اداروں کی بے حسی سے شہ پا کربھارتی حکومت نے ۵ اگست ۲۰۱۹ء کو ایک تباہ کن یلغار کے ذریعے پورے جموں و کشمیر کو ایک قتل گاہ اور بدترین بڑی جیل میں تبدیل کردیا۔اس جارحیت پر حکومت ِپاکستان کی ذمہ داری تھی کہ پوری قوت سے مسئلے پر عالمی رائے عامہ کو متحرک کرتی۔ مگر روایتی سستی اور ترجیحات کی دیرینہ خرابی آڑے آئی۔ بجائے اس کے کہ بھارتی عہد شکنی اور جموں و کشمیر کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی روش کے خلاف سراپا احتجاج بن کر دنیا کو ہم نوا بنایا جاتا، پاکستان میں ایک دوسرا ہی منظر ابھرتا دکھائی دیتا ہے، اور وہ ہے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت و بلتستان کو پاکستان کا عارضی صوبہ بنانے کا خطرناک منصوبہ۔ اس ضمن میں ہم نہایت درد مندی سے برسرِاقتدار اور فیصلہ سازی کے ذمہ دار سرگرم افراد اور اداروں کو متنبہ کرتے ہوئے ، بلاکم وکاست اپنی رائے پیش کر رہے ہیں:

تمام بین الاقوامی، سیاسی، تاریخی اور جغرافیائی شواہد کے مطابق شمالی علاقہ جات ، ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں۔ جموں وکشمیر ایک ایسی وحدت ہے جس میں لداخ ، جموں ،وادیِ کشمیر اور شمالی علاقہ جات شامل ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک، پاکستان کا یہی مؤقف ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اسی پوزیشن اور قومی اتفاق رائے کی بات کی ہے، اور آزاد کشمیر اسمبلی نے تو ۲۰۱۴ء میں ایک متفق علیہ قرارداد کے ذریعے نہ صرف اس کا اعتراف و اظہار کیاہے ، بلکہ اسے پاکستان اور کشمیری عوام کی جانب سےمسئلہ کشمیر پرمؤقف کا لازمی حصہ قرار دیا ہے، نیز اسی مؤقف کو اقوام عالم اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تسلیم کر رکھا ہے۔

۱۶جنوری ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ۲۲۸ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، اُس وقت کے پاکستان کے وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں نے کہا تھا:۔

The population of Kashmir is distributed community as follows: in Kashmir proper, apart from Jammu, 93.5 percent are Muslims. 62 percent of the population of Jammu are Muslims. Gilgit, which is the high mountain in region is entirely Muslim. The total area of the state, which is largely composed of high mountains and barren hills, is 82000 square miles.

۔”کشمیر کی آبادی اس طرح سے ایک منقسم آبادی ہے: جموں کے علاوہ کشمیر میں ۹۳ء۵ فی صد مسلمان ہیں۔ جموں کی ۶۲ فی صد آبادی مسلمان ہے۔ گلگت جو بلندپہاڑی خطہ ہے، مکمل طور پر مسلمان ہے۔ ریاست کا کُل رقبہ جو بڑے پیمانے پر اُونچے اوربنجرپہاڑوں پر مشتمل ہے، ۸۲ہزارمربع میل ہے۔“

ریاست جموں و کشمیر کے شمالی علاقہ جات ۷۲ ہزار۹سو ۷۱ مربع کلو میٹر سے زیادہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں،جن کی آبادی ۱۸ لاکھ ہے۔ اورجب بھی جموں و کشمیر میں استصوابِ رائے ہوا، تو یہ سبھی ووٹ ان شاء اللہ، پاکستان سے الحاق کے حق میں جائیں گے۔

پیپلز پارٹی کے چوتھے دور ِحکومت (۲۰۰۸ء-۲۰۱۳ء) میں صدر آصف علی زرداری صاحب نے اگست ۲۰۰۹ ء کے دوران میں’ گلگت بلتستان امپاور منٹ اینڈ سیلف گورنس‘ کے نام سے داخلی خود مختاری کا حکم نامہ جاری کیا ۔ اس حکم نامے کے تحت’ شمالی علاقہ جات‘ کو ’گلگت بلتستان‘ کا نام دیتے ہوئے، گورنر اور وزیر اعلیٰ کے انتظامی عہدے تفویض کیے، جب کہ قانون سازی و مالیاتی اختیارات اس کی مجوزہ منتخب اسمبلی کو دیے گئے، اور اس کی کونسل کا چیرمین وزیر اعظم پاکستان کو قرار دیا گیا۔

ذرا پیچھے چل کر دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۲ء میں ’شملہ معاہدے‘ کے بعد بیوروکریسی نے تب صدرِ پاکستان جناب ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی یہ تجویز دے کر قائل کرلیا تھا کہ ’’گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنایا جائے‘‘۔ لیکن جیسے ہی انھوں نےاس تجویز پر عمل درآمد کے منفی اثرات پر جوابی دلائل سنے تو اس تجویز پر پیش رفت روک دی۔ اب انھی سے وابستگی کی دعوے دار پارٹی ایک غلطی کرنے کے بعد، اپنی غلطی کا ازالہ کرنے سے گریز کررہی ہے۔جلدبازی میں اٹھائے گئے اس قدم پر آزاد کشمیر ، مقبوضہ جموں و کشمیر اور خود شمالی علاقہ جات کی بیشتر سیاسی و سماجی جماعتوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا۔

حکومت پاکستان نے ، خود پاکستان کے کئی علاقوں کی طرح، ا س علاقے کے لوگوں کے بھی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ، معاشی اور صحت عامہ کے حقوق کی بجا آوری سے پہلو تہی کا رویہ اختیار کیے رکھا تھا۔ جب یہاں کے شہری معاشی تنگ دستی پر چیخ اُٹھے تو اس کا ملبہ آزاد کشمیر حکومت پر ڈال دیا، اور یہ فلسفہ تخلیق کیا گیا کہ’ پاکستان اس علاقے کو ضم کرے گا تو سماجی، عدالتی، دستوری اور معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے‘۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بے معنی اوربودا عذر تھا۔ پیپلزپارٹی حکومت کے عاجلانہ فیصلے کے گیارہ برس گزرنے کے باوجود، وہاں حالات جوں کے توںہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ آزاد کشمیر اور اس سے وابستہ شمالی علاقہ جات کی تعمیر وترقی کے لیے آزاد کشمیر کی فراخ دلانہ مدد کرتی، لیکن افسوس کہ کم و بیش ہرحکومت نے اس معاملے میں سرد مہری کا رویہ اختیار کیا، اور بجائے اس کے کہ خرابی کو دُور کیا جاتا، ایک غلط راستے پر چلنے کے حیلے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیے۔

بلاشبہہ گلگت بلتستان اور اس کے ساتھ آزاد کشمیر کے سبھی حصوں کے احساسِ محرومی کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن خاص طور پر اس علاقے کی معاشی محرومیوں کو دُور کرنے کے نام پر اختیار کیا جانے والا یہ ایک انتہائی نامناسب راستہ ہوگا، جس سے مسئلہ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ سوال یہ ہے کہ قضیۂ کشمیر اور اس کے بارے میں پاکستان کے اور اسٹرے ٹیجک مؤقف کو نقصان پہنچائے بغیر یہاں کے عوام کو معاشی، سیاسی اورسماجی طورپر کیوں اُوپر نہیں اُٹھایا جاسکتا؟ اگرپس ماندہ علاقوں کی بہتری کےنام پر دستورِ پاکستان سے ہٹ کر حل تلاش کرنے کے لیے ایسی روایت اپنا لی گئی تو معاملات گرفت سے باہر نکل جائیں گے۔ جس طرح آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ وہ مسئلہ حل ہونے تک پاکستان کی زیرنگرانی ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان بھی آزاد کشمیر کا حصہ ہونے کی حیثیت سے یہی مقام رکھتا ہے، اور ان کے مستقبل کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے حل سے منسلک ہے۔

پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’ ’عالمی مالیاتی ادارے یا بڑے سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا اعتراض دُورکرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے‘‘۔ یہ عذر تو حددرجہ پست ہے۔ کیا کسی معاشی منصوبے کی تکمیل کے لیے ملک کے سیاسی اور تاریخی مؤقف کی قربانی دینا کوئی معقول راستہ ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرمایہ کاری کو قومی مفاد کے تابع رکھتے ہوئے قابلِ قبول بنایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے اَن تھک سفارتی، مذاکراتی اورعلمی سطح پر تگ ودو کی ضرورت ہے،اور یہ کام ہماری اعلیٰ سول اور سیاسی قیادت کو کرنا چاہیے۔

مسئلے کی نزاکت اور غورطلب پہلو

یہ ہے وہ پس منظر، جس میں گزشتہ چند ہفتوں سے راولپنڈی میں چیف آف دی آرمی اسٹاف کی زیر صدارت پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں جموں وکشمیر کے شمالی علاقہ جات، یعنی گلگت بلتستان کو عبوری طور پر پاکستان کے پانچویں صوبے کی شکل دینے کی تجویز پر عملاً ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ہم یہ اُمور وضاحت سے بیان کرنا چاہتے ہیں:

یہ بات صاف لفظوں میں ہرخاص و عام پر واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان میں کاروبارِ ریاست و حکومت انھی اصولوں کے مطابق چلا یا جائے گا، جو دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ ہیں۔ مطلب یہ کہ اس نوعیت کے امور منتخب حکومت، پارلیمان اور دستور کے تابع زیر بحث آئیں گے اور تمام اداروں کو اپنے حدود کار میں ریاست اور قوم کی خدمت کی بجاآوری کرنا ہوگی۔ انتظامیہ ، مقننہ ، عدلیہ ، عسکری اداروں اور سول ملازمین کو متعین شدہ دائرے میں خدمات انجام دینا ہوں گی، اور اسی چیز کا حلف، دستور کے مطابق سبھی ذمہ داران ریاست نے اٹھایا ہے۔

چیف آف دی آرمی اسٹاف ، دفاع وطن کے حوالے سے ایک بڑے محترم اور حددرجہ حساس منصب پر فائز ہیں۔ انھیں سیاسی امور کی بحثوں میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اپنی آرا ، وزارت دفاع کی وساطت سے یا دستور میں طے شدہ سلامتی کے اعلیٰ فورم کے ذریعے حکومت کو پیش کرنی چاہییں۔ پھر ان اُمور کو طے کرتے وقت حکومت ،وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ اور وزارت قانون کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمت عملی طے کرتے وقت بجاطورپر مسلح افواج کے مشوروں اور آرا کو بھی زیر غور لائے اور کھلے عام بحث کے بعد مناسب فیصلے کیے جائیں، جن پر ان کی روح کے مطابق، مگر لازمی طور پر دستورِ پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے عمل کیا جائے۔

اس ضمن میں بعض ’دانش مندوں‘ کا یہ کہنا کہ ’’قومی مسلح اداروں نے تو اس معاملے میں محض سہولت کاری کی ہے، کیونکہ حکومت اور حزب اختلاف میں کھلا مکالمہ نہیں ہورہا‘‘۔ یہ بہت عجیب اور نہایت کمزور مفروضہ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کل سپریم کورٹ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے مذاکرات کرکے کسی ’اتفاق راے‘ کو ڈھو نڈنے نکلے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بدقسمتی سے موجودہ حکومت ضد اور اَنا کے باعث اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرنے،سب کو سننے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے سے معذور ہے تو اس کا حل نئے قومی انتخابات ہیں نہ کہ ریاستی آئینی ڈھانچا تلپٹ کر دینا اور غیرآئینی روایات قائم کرناکوئی معقولیت ہوگی۔

ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے ’جوں کے توں‘ (stand still) منظر نامے کو تبدیل کرنا اوراس سے چھیڑ چھاڑ کرنا، بھارتی منصوبہ سازوں کی پرانی خواہشات کی تکمیل ہوگا۔ پاکستان کا اصولی مؤقف یہ ہے کہ ’’اقوام متحدہ کی متفقہ قرار داد وں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے‘‘۔البتہ بھارت کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ ’’پاکستان ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے سرِ مو انحراف کر کے ، جموں و کشمیر کی وحد ت کے ٹکڑے بانٹنے کی میز سجائے‘‘۔ پاکستان نے بھارت کی اس چال کو ہمیشہ ناکام بنایا اور بھارت نے ہر بار یہی کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان ،سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے متن سے باہر نکلے اورپھر بھارت یہ اعلان کرے کہ ’’پاکستان نے قرار دادوں سے دست برداری اختیار کر لی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس طرح پاکستان کے اصولی مؤقف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، بلکہ مؤقف سرے سے ختم ہوجائے گا۔

اگرچہ پاکستان کے بعض عجلت پسند سفارت کاروں نے مختلف اوقات میں مسئلہ کشمیر پر نہایت خطرناک بیان دیے ، لیکن ان افراد کی حماقتوں پر پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف صاحب بازی لے گئے۔ انھوں نے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنا چاہتا ہے ‘‘، اور پھر اسی آمر مطلق اور خود ساختہ حاکم نے پاکستان آبزرور کو انٹر ویو دیتے ہوئے انکشاف کیا:’’ میں نے بھارتی وزیرخارجہ نٹور سنگھ سے کہا ہے کہ آیئے، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے سانچے سے باہر رکھ کر ایک سال کے اندر حل کر دیتے ہیں‘‘۔ جواب میں نٹور سنگھ نے کہا:’’ہم کو اس قدر جلدی نہیں ہے‘‘۔ (روزنامہ پاکستان آبزرور،۳۱ جولائی ۲۰۰۵ء)۔ اسی احمقانہ مہم جوئی کو تب وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری صاحب نے ’آؤٹ آف باکس‘کوشش قرار دیا۔ حالانکہ پاکستان کے کسی بھی حاکم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ، کشمیر کے عوام کو نظرانداز کر کے ایسا کوئی قدم اٹھائے، کوئی عہدوپیمان کرے جو مسلّمہ مؤقف کے برعکس ہو۔

جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف ایسے بیانات دے کر، بلکہ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے میں بھارت کو باڑ لگانے کی اجازت دے کر، اور عملاً بھارتی فوج کی مدد کرکے کشمیر اور پاکستان کے عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ افسوس کہ اسی نوعیت کی منصوبہ سازی اب گلگت بلتستان کی ’معاشی بہتری‘ وغیرہ کے نام سے نئے صوبے کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ جنرل مشرف کا قدم مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت پر خود کش حملہ تھا، تو اب دباؤ ڈال کر یہ فیصلہ لینا، پاکستان اور کشمیری عوام کی تاریخی جدوجہد سے غداری کی طرف لے جائے گا، جس سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔

اس منصوبے کے پیش کاروں کی طرف سے یہ ایک بالکل بے معنی عذر پیش کیا جا رہا ہے: ’’سی پیک‘‘ (چین پاک معاشی راہداری) کے لیے چین بھی یہ چاہتا ہے کہ شمالی علاقہ جات کو یک طرفہ طور پر پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین کے پالیسی ساز ایسا غیرمنطقی اور غیر آئینی مطالبہ نہیں کر سکتے کہ جس سے پاکستان کے قومی مفادات پر ضرب کاری لگے اور جموں و کشمیر کی ۷۳ سال پر پھیلی طویل، دلیرانہ جدوجہد اور مظلومانہ قربانیوں کی تاریخ دریابرد ہو جائے۔ آخر ’شاہراہ قراقرم‘ (KKH) اسی ’جوں کی توں‘ صورت حال میں جموں و کشمیر کے متنازع علاقے سے گزر رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ’شاہراہِ قراقرم‘ سے بہتر شاہراہ کی تعمیر نے کون سے اور کس طرح سے نئے تقاضے لا کھڑے کیے ہیں کہ بین الاقوامی اور قومی معاملات کوتہہ و بالا کردیا جائے؟یاد رہے ۲۰۰۹ء میں عوامی جمہوریہ چین نے کشمیر ی باشندوں کی چین آمد کے لیے اپنی ویزہ پالیسی تبدیل کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا ، ’’جموں و کشمیر کے لوگ بھارتی پاسپورٹ کے بجائے سادہ کاغذ پر حلف نامے کے ذریعے چین کا ویزا لے سکتے ہیں‘‘۔ اس پر بھارتی حکومت نے احتجاج کیا تو چین نے بڑا مختصر جواب دیا: ’’کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ، جو بھارتی یونین کا حصہ نہیں ہے‘‘(روزنامہ The Nation ، ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)۔

اگر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے ، گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دے کر عارضی (اورپھر مستقل) صوبہ بنانے کا فیصلہ کر لیا، تو اس طرح بین الاقوامی سرحد تبدیل ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں پوری لائن آف کنٹرول، خودبخود بین الاقوامی سرحد میں ڈھل جائے گی۔ اس صورت میں سارے علاقے سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ہٹ جائیں گے، اور ان مبصرین کو ہٹانا بھارت کا پرانا مطالبہ ہے۔ یہ سب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۹۱ (۱۹۵۱)اور قرارداد ۱۲۲، ۱۲۶ (۱۹۵۷) کے یکسر منافی ہوگا، جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے انہدام کا سبب بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت بھی مقبوضہ جموںو کشمیر کی صورتِ حال پر عالمی عہدوپیمان کو یکسر توڑنے کا اعلان کرکے، مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنانے اور آزاد کشمیر پر دست درازی کے جواز کے لیے حکمت عملی وضع کرے گا۔ پاکستان اپنی ناقابلِ فہم عجلت پسندی سے بین الاقوامی تحفظ کے تمام وعدوں سے بھی محروم ہوجائے گا۔ یوں ایک گناہ بے لذت کے طور پر کشمیر کا مسئلہ ، بھارتی خواہشات کے مطابق، ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دفن ہو جائے گا۔

ایک مغالطہ یہ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ ’بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس رویہ اختیار کرکے کشمیر کی انتظامی اور آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا ہے، تو جواب میں اگر پاکستان بھی آزادکشمیر کے ایک محدود علاقے میں ایسا کچھ کرلے تو کون سی قیامت آجائے گی؟‘‘ یہ مفروضہ بھی سخت شرانگیزی کا شاخسانہ ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو وہ یک طرفہ طور پر بین الاقوامی عہدوپیمان سے رُوگردانی کررہا ہے، مگراس کے ایسے منفی رویے سے قراردادیں اور عالمی فیصلے تبدیل نہیں ہوئے۔ لیکن جب دوسرا فریق بھی اسی عہدشکنی کا راستہ اختیار کرے گا تو قراردادوں کی بنیاد ڈھے جائے گی اور عالمی عہدوپیمان کی ساکھ ختم ہوجائے گی۔ مسئلہ کشمیر کی متنازع بین الاقوامی حیثیت صرف اور صرف تقسیم ہند کے اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر قائم ہے، اور بھارت یہ چاہتا ہے کہ ان بنیادوں کو ختم کر دیا جائے۔

جموں و کشمیر کی وحدت پر اس دست درازی کو زیربحث لاتے ہوئے کشمیر کی مزاحمتی قیادت، جس میں سیّدعلی شاہ گیلانی، محمد یاسین ملک، میرواعظ عمرفاروق اور دوسرے محترم قائدین شامل ہیں، ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ ’’گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوئی بھی تجویز ناقابلِ قبول ہے۔ کیونکہ یہ قدم جموں و کشمیر کی وحدت اور بین الاقوامی پوزیشن کو تبدیل کرنے کے مترادف ہوگا‘‘۔اسی طرح آزادکشمیر کی قیادت، جس میں مسلم لیگ نون، مسلم کانفرنس، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی شامل ہیں، انھوں نے ۲۰۱۴ء میں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور کرکے اس ’پانچویں صوبے‘ کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ اگر بھارت نے دھونس جماکر ایک غلط قدم اُٹھایا ہے تو اس کی غلطی کے جواب میں پاکستان کی جانب سے غلطی کا ارتکاب کہیں زیادہ بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔

ہم ذرا ماضی میں جائیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں نون لیگ حکومت کی قائم شدہ ’سرتاج عزیز کمیٹی‘ نے ’گلگت بلتستان کی پاکستان میں اس طرح شمولیت کی تجویز دی تھی کہ ’’این ایف سی، ایکنک وغیرہ کے ساتھ پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی یہاںسے نمایندے لیے جائیں اور دیگر صوبوں کے مساوی حیثیت دی جائے‘‘۔ یوں پانچویں صوبے کا غلغلہ بلند ہوا، تو جموںو کشمیر کے طول و عرض میں اضطراب پھیل گیا اور کشمیری قیادت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ جواب میں وزیراعظم محمدنواز شریف نے ۱۶مارچ ۲۰۱۶ء کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کے نام خط میں وضاحت کی: ’’پاکستان، گلگت بلتستان سے وابستہ حساس اُمور سے پوری طرح واقف ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان، جموں و کشمیر کے تنازع پراپنے اصولی مؤقف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرے گا، وہی مؤقف کہ جو سلامتی کونسل کی قراردادوں پرمبنی ہے‘‘۔ { FR 1176 }

پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی اور اس کے بنیادی اجزا کو نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں گلگت اور بلتستان کو کسی شکل میں بھی پاکستان کا ایک صوبہ بنانا، اوروہاں سے پارلیمان میں نام نہاد نمایندگی دینا، دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی مخالفت اورقضیۂ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا ذریعہ ہوگا۔ دستور کے الفاظ ہیں: ’’جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے، تو پاکستان اور اس ریاست کے درمیان تعلقات، اُس ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیےجائیں گے‘‘۔

۱۹۷۳ء کے دستور پاکستان میں درج یہی الفاظ، ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں بھی شامل تھے۔ اس تسلسل سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع اور ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے نام نہاد الحاق کے نام پر اپنے دستور میں جموں و کشمیر کے بارے میں دفعہ ۳۷۰ رکھی، تو پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس بھارتی اندراج کو تسلیم نہیں کیا ، اور اسے متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کا مشترکہ مسئلہ قرار دیا۔

پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ اور تمام ریاستی ادارے اس امر کے پابند ہیں کہ دستور ی طور پر طے شدہ وعدے کے مطابق ، مسئلہ کشمیر اور اس سے منسلک علاقوں کے مستقبل کا فیصلہ جموں و کشمیر پر مشتمل وحد ت کی مرضی کے مطابق حل کرنے میں مدد دیں،اور اس عہدوپیمان کا احترام کریں۔ پاکستان اور بھارت دونوں مل کر یا الگ الگ ، جموں و کشمیر کے مستقبل کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں، تاآنکہ جموں و کشمیر کے مسلّمہ شہری ایک آزادانہ استصواب راے سے اپنی مرضی کا فیصلہ کریں۔

اندریں حالات، ہم پاکستان کی سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ، ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران اوردانش وروں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی اداروں کو دستور اور قانون کا پابند بننے پر مجبور کریں اور جو سیاسی جماعتیں اپنے غیر دانش مندانہ فیصلوں کے تحت محدود سیاسی فائدے کی اسیر ہیں، انھیںاپنی نا مناسب پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا درس دیں ۔ اگر آج روایتی کاہلی اور عجلت پسندی سے معاملات کو بگاڑا گیا تو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

(This article was first published in Friday Special)