’’جامنی رنگ کا دن‘‘ کیا ہے؟

449

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی
جامنی رنگ کا دن (Purple Day) دراصل ایک بین الاقوامی سطح پر کوشش ہے جو پوری دنیا میں مرگی کے مرض کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے منایا جاتا ہے۔ ہر سال 26 مارچ کو دنیا بھر میں لوگوں کو مرگی سے متعلق آگاہی دینے کی غرض سے لوگوں کو جامنی رنگ کے لباس پہننے اور تقریبات منعقد کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ پچھلے سال تمام براعظموں کے 85 سے زیادہ ممالک کے لوگوں نے ’’پرپل ڈے‘‘ کی تقریبات میں شرکت کی تھی۔ کینیڈا دنیا کا واحد ملک ہے جس نے 28 مارچ، 2012 کو 26 مارچ کو باضابطہ طور پر جامنی رنگ کے دن کے طور پر تسلیم کرکے پرپل ڈے ایکٹ کے ذریعہ نافذکیا تھا۔ اسی سال 8 فروری کو دنیا بھر میں مرگی کے مرض کا عالمی دن منایا جاچکا ہے جس سے اس مرض کے علاج کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اگر کسی کو خدانخواستہ پہلی مرتبہ مرگی کا دورہ پڑجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب اس کی زندگی ہمیشہ کے لیے اجیرن ہو گئی یا یہ دورے اب کبھی ختم نہیں ہوں گے یا ہمیشہ کے لیے ادویات کھانی پڑیں گی۔ اس کا انحصار مرگی کی قسم پر ہے جس کے علاج کے لیے ایسے مریض کو ایک اچھے نیورولوجسٹ یا مرگی کے مرض کے ماہر معالج کے پاس جا کر مرگی کی قسم کی تشخیص کرانا ہو گی۔ اس تشخیص سے مریض کو پتا چل جائے گا کہ یہ بیماری کب تک چلے گی یا کب تک ادویات لینا پڑے گی۔ مرگی کے مرض کی کئی اقسام ہیں۔ ایک قسم جو بچوں میں ہوتی ہے جس میں بچہ بیٹھے بیٹھے گم صم ہو جاتا ہے اور پھر اسکول سے شکایت آتی ہے کہ بچہ پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے جس پر لوگ ماہر نفسیات کے پاس جارہے ہوتے ہیں اور بچوں کو سزا دے رہے ہوتے ہیں کہ کن خیالوں میں کھو جاتے ہو حالانکہ یہ چھوٹے چھوٹے دورے (seizure) ہوتے ہیں جو مکمل طور پر قابل علاج ہے اور مناسب علاج سے ایسا بچہ مکمل ٹھیک ہو سکتا ہے اور اس کی اسکول میں پرفارمنس پہلے کی طرح بحال ہو سکتی ہے۔ دوسری مرگی کے دورے کی قسم یا شکل کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ مریض بے ہوش نہیں ہوتا ہے مگر عجیب سی شکل ہوجاتی ہے اور بیٹھے بیٹھے خیالوں میں کسی سے باتیں کررہا ہوتا ہے یا عجیب انداز میں منہ بنا رہا ہے، ہاتھوں اور انگلیوں سے اشارے کرتا ہے اور پھر یکدم سے ہوش میں آجاتا ہے۔ یہ پیچیدہ جزوی دورے (complex partial seizure) ہوتے ہیں۔ مرگی کے مرض کی یہ قسم بھی قابل علاج ہے اور اس قسم کو سرجری کے ذریعے مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ تیسری قسم عام تشنج کے دورے جن کو مرگی کہا جاتا ہے جس میں ہاتھ پیر اکڑ جاتے ہیں، جھٹکے آتے ہیں، مریض بھیانک آوازیں نکالنے لگتا ہے۔ یہ دورہ کسی سڑک، کام کی جگہ، اسکول یا پھر کہیں بھی پڑ سکتا ہے تو ایسی صورت میں مریض کو پکڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، حلق میں پانی یا کوئی بھی شے نہیں ڈالنا چاہیے اور نہ ہی جوتا سنگھانا چاہیے۔ اگر آپ کے سامنے کسی کو ایسا دورہ پڑ جاتا ہے ایسے مریض کو کروٹ کے بل لٹا دیں۔ اگر ٹائی یا گریبان ٹائٹ طرح سے بند ہے تو اسے کھول دیں۔ آس پاس کوئی نوکیلی یا نقصان دہ چیزیں ہیں تو اس کو ہٹا دیں تاکہ اس کو چوٹ نہ لگے۔ عموماً ایسا دورہ تین منٹ میں ختم ہوجاتا ہے اور مریض ہوش میں آجا تا ہے۔ اگر دورہ تین منٹ میں ختم نہ ہوتو اب ایسے مریض کو فوراً اسپتال منتقل کیا جانا ضروری ہو جاتا ہے۔
مرگی کی بیماری پاکستان میں بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے اس لیے میں پاکستان میں مرگی کی بیماری میں مبتلا مریضوں اور ان کے معالجین کو درپیش مشکلات اور اس کے علاج کے بارے میں بات کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ مرگی بھی ایک دماغی بیماری ہے۔ یہ بظاہر ایک خوفناک بیماری لگتی ہے مگر حقیقت میں یہ مکمل طور پر قابل علاج بیماری ہے۔ ہمارے ملک میں اس بیماری کے صحیح علاج کے لیے معالجین اور مریضوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی، ادویات کی قلت اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ادویات کی بلند قیمتیں بہت بڑا چیلنج ہیں اور سہولتوں کی کمی اور انتہائی مہنگی ادویات مرگی کے مرض پر قابو پانے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
مرگی کے مرض پر حکومتی سطح پر بھی توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں ضلعی سطح کے تمام سرکاری اسپتالوں میں مرگی کے مناسب علاج کو یقینی بنانا ضروری ہوچکا ہے اور ہر بڑے سرکاری اسپتال میں مرگی کے مریضوں کے لیے خصوصی وارڈز کا قیام وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ مرگی کے مرض کی ادویات کی کمی اور بلیک مارکیٹ میں ان کی فروخت مریضوں اور معالجین دونوں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ مرگی کی جعلی ادویات اور بلیک مارکیٹنگ بھی مریضوں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر حکومت کو خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ انسانی جانوں کو بچانے کا مسئلہ ہے اس لیے حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مریضوں کی تکالیف کو دور کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔