بھٹو اور جسارت اکٹھے ہی نکلیں گے

628

پروفیسر غفور احمد کی وفات دسمبر میں ہوئی تھی، یہ مارچ کا مہینہ اپنے شب وروز گزار رہا ہے، جسارت کا تعلق مارچ کے مہینے سے ہے، پہلی مارچ1970 جسارت کا ملتان سے اجراء ہوا، ہوسکتا ہے کہ کم علم طالب علم کے طور پر جسارت کی تاریخ لکھتے ہوئے اس کا حق ادا نہ کرسکوں، ویسے بھی جسارت جس طرح کا فرض نبھا رہا ہے، 1970 سے اب 2021 آچکا ہے، پچاس سال ہونے کو ہیں، مگر آج بھی صحافتی دنیا میں کوئی اس کا ہم پلہ نہیں ہے، یہ اپنے اجراء سے لے کر آج تک کنول کے پھول کی مانند اپنی پوری رعنائی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ مارچ 1970 میں پہلی بار ملتان سے شائع ہوا تھا، تب دیگر اخبارات کے علاوہ ملک میں امروز بھی شائع ہوا کرتا تھا، پاکستان کی صحافتی دنیا بائیں اور دائیں میں تقسیم تھی، شہید بیٹوں کے والد صفدر چودھری مرحوم بتایا کرتے تھے، وہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری نشرو اشاعت ہوا کرتے تھے اور انہیں امروز میں خبر شائع کرانے میں بہت دقت ہوتی تھی مگر مسلسل ربط ایک ایسا زینہ تھا جس کے باعث جماعت اسلامی کی خبر امروز میں شائع ہوجاتی تھی، بائیں اور دائیں بازو کی تقسیم کا یہ کیسا زمانہ ہوگا؟ ان دنوں یہ تقسیم فعال انداز میں اب کہیں نظر نہیں آرہی، وجہ یہ ہے کہ نظریات پر مادیت کی اوس پڑ چکی ہے، ملتان میں جسارت ان دنوں صحافیوں کی ملک بھر میں ہڑتال کی وجہ سے بند کردیا گیا، یہ احتجاج 24 دن تک جاری رہا اور اس کے نتیجے میں زیادہ تر اس وقت تک پاکستان میں کوئی اخبار شائع نہیں ہوا ہڑتال ختم ہوئی تو روزنامہ جسارت ملتان کے بجائے کراچی سے شائع ہونا شروع ہوا، اس ہڑتال کے دوران امروز کے کارکنوں کا ہلہ گلہ اور ان کے مقابل جسارت کے کارکنوں کی تحریک ملکی صحافت کی ایسی تاریخ ہے جسے ضرور دستاویز کی صورت دینی چاہیے، تاکہ آج کے نوجوان اخبار نویس یہ جا ن سکیں کہ ماضی کیسا تھا؟
یحییٰ خان کی حکومت نے بالغ جمہوری حق کی بنیاد پر ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تو، روزنامہ جسارت ایک ایسے کردار کے طور پر سامنے آیا کہ جسے صرف پاکستان اور اسلام سے پیار اور محبت تھی اور پاکستان اور اسلام کا ہی ترجمان بنا اس وقت سے یہ اپنے اسی کردار کو نبھا رہا ہے، انتخابات کے بعد ملک بحران کا شکار ہوا، پاک بھارت جنگ کا بارود پھٹا اور پاکستان دو لخت ہوا، اس بحران میں جسارت نے وہی لکھا جسے حق جانا، یوں پاکستان سے متعلق پوری ایمانداری سے اپنا موقف پیش کیا، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1972 سے 1976 کے درمیان اخبار پر متعدد بار پابندی عائد کی تھی، یہ کوئی27 مارچ1973 کی بات ہے، جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد کی گرفتاری ہوئی، جس پر جسارت میں مدیر نے مقالہ لکھا، اور حکومت نے اخبار پر پابندی لگا دی، ہائی کورٹ نے یہ حکم کالعدم قرار دے دیا، پروفیسر وقار ملک جسارت کے سابق مدیر محمد صلاح الدین پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں انہوں نے اپنے تھیسز میں یہ سارے واقعات لکھے ہیں، نوجوان اخبار نویسوں کے لیے ان کا تحقیقی کام ایک بہت بڑی قیمتی دستاویز ہوگا، اگر دستاویز دیکھی جائے تو مجیب الرحمن شامی، الطاف حسن قریشی ایسی شخصیات ہیں جن سے ایوب خان، یحییٰ اور بھٹو دور کی داستانیں سنی جاسکتی ہیں، آج کے نوجوان اخبار نویس کو ان کے تجربات اور مشاہدات سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو مل سکتا ہے۔
بھٹو دور میں جب جسارت بند ہوا تو ان پابندیوںکو تقریباً ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا تھا تب کسی نے پروفیسر غفور احمد سے سوال کیا کہ جسارت کب نکلے گا؟ جواب دیا کہ جسارت اور بھٹو ایک ساتھ ہی نکلیں گے، پروفسیر غفور احمد کتنے بڑے انسان تھے، دور اندیش بھی تھے ان کی کہی ہوئی بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی، بھٹو اقتدار سے نکلے تو جسارت بھی بحال ہوگیا، پاکستان کی بنیاد بھی23 مارچ 1940 کو رکھی گئی اور پاکستان کے ترجمان اخبار کی اشاعت بھی مارچ ہی کے مہینے میں ہوئی، آج ملک کے جو حالات ہیں، کسی محفل میں جب ملک کے تلخ حالات پر گفتگو ہورہی ہو یہی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو اللہ ہی چلا رہا ہے، بالکل یہی بات جسارت کے لیے کہی جا سکتی ہے کہ اسے بھی اللہ ہی چلارہا ہے، آج ملک کی میڈیا انڈسٹری کا جو حال ہے، الامان الحفیظ، پیسہ پھینک تماشا دیکھ والی صورت حال ہے، نظریاتی اسلامی صحافت کہاں ہے؟ اس جوہڑ میں جسارت کی کنول کے پھول کی مانند رعنائی کے ساتھ چمک رہا ہے۔