ڈسکہ ضمنی الیکشن، پریذائیڈنگ افسران کا غائب ہونا سازش تھی، عدالت عظمیٰ

360

اسلام آباد(آن لائن)عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ 20 پریذائیڈنگ افسران کا غائب ہونا انوکھا واقعہ ہے ، سازش کے تحت سب کچھ کیا گیا، 23 پولنگ اسٹیشنوں کیخلاف درخواست پر پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ حیران کن ہے،ہم نے دیکھنا ہے کیا محدود پولنگ اسٹیشنوںپر دھاندلی کے الزام پر پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرائے جا سکتے ہیں یا نہیں۔عدالت عظمیٰ میں این اے 75 ڈسکہ میں ضمنی انتخاب دوبارہ کرانے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کی۔دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل نے دلائل دیے کہ ٹرن آؤٹ کم ہونے کے باعث الیکشن دوبارہ کرانے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ کی دلیل کا اطلاق اس کیس میں نہیں ہو سکتا،تشدد کے واقعات کے سبب الیکشن کمیشن نے این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا،جن عدالتی دلیلوں کا حوالے دے رہے ہیں ان میں جیت کا تناسب متنازع ووٹوں سے کم تھا۔وکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی شکایت کا مرکز پنجاب حکومت کی ناکامی ہے،ضمنی انتخاب کے دوران رینجرز بھی موجود تھی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت نہیں بلکہ صوبائی انتظامیہ پر بات کی،الیکشن کمیشن کے فیصلے میں رینجرز کا کوئی ذکر نہیں ہے،وکیل نے کہا پنجاب حکومت کی رپورٹ میں رینجرز کا ذکر ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم اسے آسمانی صحیفہ تسلیم نہیں کر سکتے،2 ہیوی ویٹ امیدواروں کے درمیان ضمنی انتخاب ہوا، پر تشدد واقعات کے باعث حلقے کے عوام متاثر ہوئے،جو دلیل آپ دے رہے ہیں وہ پنجاب حکومت کا یکطرفہ موقف ہے،ہم نے الیکشن کمیشن کے موقف کو بھی سامنے رکھنا ہے۔ وکیل نے وڈیوز کا معاملہ اٹھایا جس پر جسٹس منیب اختر نے پی ٹی آئی وکیل سے کہا جب الیکشن کمیشن میں وڈیوز چلائی گئیں آپ نے اعتراض اٹھایا یا نہیں۔وکیل نے جواب دیا میں اپنے موکل سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ن لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجا نے وڈیو لنگ کے ذریعے دلائل دیے ۔ن لیگ کی نوشین افتخار کے وکیل نے دلائل میں کہا یہ عام کیس نہیں ہے،یہ منظم دھاندلی سے متعلق کیس ہے،انتخابات میں دونوں فریقین کو مساوی مواقع فراہم نہیں کیے گئے،الیکشن کمیشن نے خود منظم دھاندلی کو تسلیم کیا،الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے باعث فیصلہ بھی دیا، پریذائیڈنگ افسران کے ساتھ ساتھ انتخابی مواد بھی غائب ہوا، حیرت تو یہ ہے انتخابی مواد اور عملہ پولیس کے تحفظ میں تھا،الیکشن کمیشن نے اپنے عملے سے رابطہ کی متعدد کوششیں کی،کمیشن کی جانب سے انتظامیہ سے رابطوں کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں،حیرت ہے موبائل فونز کے ساتھ پولیس وائرلیس بھی اس وقت کام نہیں کر رہی تھی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ غائب ہونے والے پریذائیڈنگ افسران پولیس اسکواڈ میں تھے۔ ن لیگ کے وکیل نے جواب دیاجی ہاں عملے کی گاڑی کے ساتھ پولیس کی گاڑیاں بھی موجود تھیں، غائب عملہ اور سامان ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ سے سامنے آئے۔ کیس کی سماعت کے دوران پنجاب حکومت کے وکیل روسٹرم پہ آگئے اور کہا پنجاب حکومت پر الزامات لگائے گئے،ہم اس کیس میں فریق نہیں ہیں لیکن اگر آپ چاہیں تو ہم جواب دے سکتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیا آپ کے پاس جواب دینے کے لیے کچھ ہے۔ اس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ عدالت نے کیس کی سماعت آج جمعرات دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔