حکومت کی جانب سے مہنگائی سمیت دیگر عوامی مسائل کے سدباب باب کے لیے کارروائی نہ کی جائے اور حکمران خاموش تماشائی بن جائیں تو لوگ عدالتوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا پھر ہماری عدالتیں ازخود نوٹس کے تحت ان مسائل سے عوام کو چھٹکارا دلانے کے لیے کارروائی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ کراچی سمیت صوبے بھر کے مختلف معاملات اور مسائل کے بارے میں ایسی مثالیں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ہوںگی اور ہیں بھی۔ مسئلہ گندگی غلاظت کا ہو یا پانی اور بجلی کی فراہمی کا یا پھر بڑھتی ہوئی تجاوزات اور رفاہی پلاٹوں پر غیر قانونی قبضوں و تعمیرات کا، متعلقہ ادارے اور حکومتیں اس وقت تک کچھ نہیں کرتی جب تک عدالتوں کی جانب آئین و قانون کے مطابق کارروائی نہیں کی جاتی۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عدالتیں مذکورہ مقدمات پر فیصلے کرتی ہیں مگر ان فیصلوں پر عمل درآمد کرانا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لوگ ’’حق دو کراچی کو‘‘ کے نعرے بلند کررہے ہیں اور حقوق سلب کرنے والوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ مگر دوسری طرف ملک اور صوبے کو بلا شک و شبہ سب سے زیادہ ریونیو دینے والے کے ساتھ ظلم تو یہ بھی ہے کہ یہاں دودھ بھی دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ مہنگا فروخت کیا جاتا ہے، شیر فروشاں جب چاہے قیمتوں میں اضافہ کردیا کرتے ہیں، انہیں روکنے اور مہنگائی پر کوئی پکڑنے والا نظر ہی نہیں آتا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث یہ لوگ دودھ دہی کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں لیکن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ان ضروری اشیاء کی قیمتوں میں کمی نہیں کرتے۔ حکومت سندھ کا ایک محکمہ ’’بیورو سپلائی اینڈ پرائس کے‘‘ ہونے کے باوجود یہ محکمہ سپلائی کے امور دیکھتا ہے اور نہ ہی پرائس کے، اس لیے شبہ ہوتا ہے کہ یہ نابینائوں کا محکمہ ہے ویسے تو سندھ کے حکمران اور بیش تر سرکاری افسران بھی آنکھوں اور کانوں سے محروم ہی نظر آتے ہیں کسی نابینا کی طرح انہیں جب تک کوئی پکڑ کر ان کی ذمے داری کی نشاندہی نہ کردی جائے تب تک وہ اس پر توجہ نہیں دیا کرتے۔ شہریوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ دودھ کی قیمتوں میں اضافے کی آوازیں اندھی بہری اور گونگی سرکاری مشینری کو عبور کرتے ہوئے عدالت عالیہ تک پہنچ چکی ہیں۔ جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے کمشنر کراچی، سندھ حکومت سمیت دیگر مدعا علہیان کو نوٹس جاری کر دیے۔ بدھ کو سندھ ہائی کورٹ نے دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ فاضل عدالت نے مدعا علہیان سے آئندہ سماعت تک تفصیلی جواب جمع کرانے کا بھی حکم دیا ہے۔ درخواست گزار نے اپنے وکیل کے توسط سے دائر درخواست میں حکومت سندھ، کمشنر کراچی اور آل کراچی ملک ریٹیلر سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ دودھ کے سرکاری نرخ 94 روپے فی لیٹر مقرر کیے گئے ہیں، لیکن اس وقت کراچی میں دودھ 140 روپے فی لیٹر قیمت میں فروخت کیا جارہا ہے۔ یقین ہے کہ عدالت کی جانب سے جلد ہی نہ صرف دودھ کی قیمتوں میں اضافے بلکہ دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے پر بھی سخت فیصلے و احکام صادر کیے جائیں گے۔