۔’’سوئی اٹک گئی‘‘ اردو میں ایک محاورے کی شکل تو اختیار کر گیا لیکن آج کل بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہوںگے کہ اس محاورے کی پیدائش کب اور کیسے ہوئی۔ مجھے اس کی تاریخ پیدائش کا درست علم تو نہیں لیکن اندازہ یہی ہے اس کی عمر ڈیڑھ دو سو برس سے شاید ہی کچھ زیادہ ہو۔
آواز کو محفوظ کر لینا اور اس کو بار بار سن لینے کے سلسلے کی غالباً یہ پہلی ایجاد تھی جسے کبھی صرف ’’ریکارڈ‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ کالے رنگ کی ایک ٹھوس پلیٹ کی شکل کا ہوا کرتا تھا، اس پلیٹ کی ’’دبی‘‘ ہوئی لکیر کے اندر آواز محفوظ ہوا کرتی تھیں جس کو ایک مشین جس کا نام ’’گرامو فون‘‘ تھا، کی مدد سے چلایا جاتا تھا۔ یہ ریکارڈ اس پر رکھنے کے بعد ایک خاص رفتار سے گھما دیا جاتا تھا اور ایک ’’بازو‘‘ نما آلے کے آخری سرے پر ایک باریک سی سوئی کو ریکارڈ میں دبی ہوئی لکیر پر رکھ دیا جاتا تھے۔ جونہی یہ ’’آرم‘‘ (بازو) اپنی سوئی کے ساتھ رکھا جاتا تھا، ریکارڈ میں محفوظ آواز فضا میں گھونجنے لگتی تھی اور سوئی ریکارڈ میں دبی لکیر کے اختتام کی جانب بڑھتی چلی جاتی تھی۔ اس رکارڈ کی شکل کو سمجھنے کے لیے آج سے کچھ عرصہ قبل استعمال ہونے والی ’’سی ڈی‘‘ جس کو کمپیوٹر میں سی ڈی ڈرائیو کی مدد سے چلایا جاتا تھا، پیش کیا جا سکتا ہے۔ گرامو فون کی مدد سے کالے، کافی ٹھوس اور بڑے ریکارڈ چلائے جاتے تھے۔ یہ کالا ریکارڈ پرانا ہونے کی وجہ یا ابھری ہوئی لکیر کے کہیں سے ٹوٹ جانے کی وجہ سے سوئی کو بار بار اپنی پہلی والی لکیر کی جانب لوٹا دیا کرتا تھا۔ جب تک اس کے بازو میں لگی سوئی کو آگے کی جانب نہیں بڑھایا جاتا، وہی بول اور آواز بار بار نشر ہونے لگتے جو ان چند لکیروں میں موجود ہوا کرتے تھے۔ سوئی کے اس طرح بار بار لوٹ جانے کے عمل کا نام ’’سوئی اٹک جانا‘‘ ایسا پڑا کہ اگر کوئی بھی فرد اپنی کسی بھی ضد یا بات سے آگے بڑھنے کے لیے تیار ہی نہ ہو تو لوگ یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ فلاں فرد کی ’’سوئی اٹک‘‘ گئی ہے۔
یہ تو مشینوں اور اس میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے متعلق بات ہوئی لیکن فی زمانہ بہت سارے انسان ایسے ہیں جو اپنی تمام زندگی کسی نہ کسی بات پر آکر بالکل سوئی کے سے انداز میں اٹک جانے کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کا حال بالکل ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کا سا ہو کر رہ جاتا ہے اور جس بات پر ان کی ’’سوئی‘‘ اٹک جاتی ہے، اس سے آگے بڑھنے کے لیے کسی صورت تیار ہوکر نہیں دیتے۔ پاکستان میں ہر جگہ یہی کہانی ہے۔ ہر فرد اپنی ضد اور انا پر اس بری طرح ’’اٹک‘‘ کر رہ جاتا ہے کہ موت ہی اسے اس کی راہ سے ہٹا سکے تو ہٹا سکے۔
کوئی اپنے سیاسی لیڈر اور پارٹی سے اٹک کر رہ جاتا ہے، کوئی مذہبی جنونیوں کا آلہ کار بن جاتا ہے، کوئی اپنے مسلک پر مر مٹنے کو تیار ہو جاتا ہے اور کوئی وردی سے آگے کچھ بھی سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا۔ غرض ہر فرد کا بت اور بھگوان جدا اور ہر فرد کا دین دھرم ہر دین دھرم سے پوتر۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انسان ہونے کے ناتے ہر فرد خطا کا پتلا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہر سیاسی، مذہبی اور مسلکی جماعت میں بڑی بڑی خامیاں موجود ہیں، اپنے لیڈر اور جماعت کے ہر جائز اور ناجائز کاموں سے چشم پوشی اختیار کرنا، من حیث القوم ہمارا شیوہ بن چکا ہے اور ایسی ہی اندھی پیروی کو سوئی کا اٹک جانا کہا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کی سوئی ماضی کی حکومتوں کی مارا ماری کا بدلہ مہنگائی کر کر کے غریب عوام سے لینے پر اٹکی ہوئی ہے تو چاہنے والوں کا عالم یہ ہے کہ گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوجانے کے باوجود حکومت کی حمایت میں اپنی اپنی سوئیاں اٹکائے بیٹھے ہیں۔ ہر مرتبہ کے احتسابی عمل کے بعد ہر شے پر بیس تیس فی صد مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے تو اسی نسبت و تناسب سے حمایتیوں کا اضافہ دیکھنے میں آنے لگتا ہے۔
جب تک عوام کی سوئیاں ہر غلط اور ظالمانہ اقدام کے باوجود بھی اپنے اپنے لیڈروں، جماعتوں اور مذہبی عقائد کے پیروکاروں کے لیے اٹکی رہیں گی، مہنگائی، ناانصافی، ظلم، جبر اور زیادتیوں کا بازار اسی طرح گرم رہے گا لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی عام فرد ہو یا صاحبان اقتدار و اختیارات، اپنی اپنی سوئیوں کو کسی ایک مقام پر اٹکا کر مت رکھیں اور خواہ غلطی پر وہ خود ہوں یا دیگر، فوراً اس کی اصلاح کریں اور ضد اور انا سے گریز کریں۔ جونہی ایسا کریں گے، مشکلات کا دور خود بخود ختم ہو جائے گا بصورت دیگر کسی بھی قسم کی تبدیلی برپا ہونے کا کوئی امکان بھی دور دور تک دیکھنے کی کوشش میں آنکھیں تو پتھرا سکتی ہیں، تبدیلی کی امید کی کرنیں کبھی دکھائی نہیں دے سکتیں۔