ؒافکار سید ابوالاعلیٰ مودودی

277

آپس کی اصلاح اور اس کا طریقہ
میں آپ کو یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ آپ اپنی اصلاح کے ساتھ آپس میں بھی ایک دوسرے کی اصلاح کریں۔ جو لوگ خدا کی خاطر کلمہ حق کی سربلندی کے لیے ایک جماعت بنیں انہیں ایک دوسرے کا ہم درد و مددگار اور غم خوار ہونا چاہیے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مقصد عظیم میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ ان کی جماعت بحیثیت مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہو۔ اور اس احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تزکیے کا طریقہ یہی ہے۔ میں گرتا نظر آؤں تو آپ دوڑ کر مجھے سنبھالیں اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام لوں۔مادی دنیا میں جب لوگ ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں تو مجموعی طور پر سب کی خوش حالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اخلاق و روحانیت کی دنیا میں بھی جب یہ امداد باہمی اور داد و ستد کا طریقہ چل پڑتا ہے تو پوری جماعت کا سرمایہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
باہمی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ جس شخص کی کوئی بات آپ کو کھٹکے، یا جس سے کوئی شکایت آپ کو ہو، اس کے معاملے میں آپ جلدی نہ کریں، بلکہ پہلے اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اولین فرصت میں خود اس شخص سے مل کر تخلیہ میں اس سے بات کریں۔ اس پر اگر اصلاح نہ ہو تو معاملہ آپ کی نگاہ میں کچھ اہمیت رکھتا ہو تو اسے اپنے علاقے کے امیر جماعت کے نوٹس میں لائیں۔ وہ پہلے خود اصلاح کی کوشش کرے، اور پھر ضرورت ہو تو جماعت کے اجتماع میں اسے پیش کرے۔ اس پوری مدت میں اس معاملہ کا ذکر غیرمتعلق لوگوں سے کرنا اور شخص متعلق کی غیرموجودگی میں اس کا چرچا کرنا صریحاً غیبت ہے، جس سے قطعی اجتناب کرنا چاہیے۔(ہدایات)
٭…٭…٭
آقاؤں کے نرغے میں گھِرا ہوا انسان
ایک آقا آدمی کے اپنے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ انھیں پورا کرے۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں، خاندان میں، برادری میں، قوم اور ملک کے معاشرے میں، مذہبی پیشواؤں میں، حکمرانوں اور قانون سازوں میں، کاروبار اور معیشت کے دائروں میں اور دنیا کے تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرۂ کار میں اس کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔ کوئی دل مسوستا ہے۔ کوئی روٹھ جاتا ہے۔ کوئی نکّو بناتا ہے۔ کوئی مقاطعہ کرتا ہے۔ کوئی دیوالہ نکالتا ہے۔ کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اس ضیق سے نکلنے کی کوئی صورت انسان کے لیے اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ توحید کا مسلک اختیار کرکے صرف ایک خدا کا بندہ بن جائے اور ہر دوسرے کی بندگی کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکے۔ (تفہیم القرآن، جلد چہارم صفحہ 370)