پورے ملک میں ہنگامہ اٹھانے کے بعد پی ڈی ایم چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ مسترد کرانے والوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ لیکن یہ حیرت انگیز بات ہے جب پی ٹی آئی والوں کے ووٹ مسترد ہوئے تھے تو پی ڈی ایم والے اسے جمہوریت کی فتح قرار دے رہے تھے اور اب پی ٹی آئی والے یہی کررہے ہیں لہٰذا پہلے تو دونوں کو اس کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ یہ ان کی کامیابی کسی طور نہیں ہے اور وہ اب یہ جان بھی چکے ہیں کہ ڈور کہاں سے ہلائی جارہی تھی۔ ایک اعتبار سے وزرا نے تو یہ اعتراف کر ہی لیا ہے کہ سینیٹ الیکشن جمہوریت نہیں کھیل تھا اور ان کو یہ مزیدار بھی لگا۔ ان کا کہنا ہے کہ سب نے ایک دوسرے سے بدلے لے لیے۔ وزرا کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم والوں نے مولانا کے ساتھ بھی ہاتھ کردیا۔ سینیٹ کے کھیل میں کیا ہوا اس کے بارے میں وزیراعظم نے سب کچھ کہہ دیا۔ بعض لوگوں کو پتا نہیں ہوتا کہ کب کیا کہنا ہے ان میں سے ایک ہمارے کھلاڑی کپتان بھی ہیں چناں چہ انہوں نے برملا کہہ دیا کہ سینیٹ الیکشن میں ارکان جانوروں کی طرح فروخت ہوئے۔ ان کو معلوم ہوگا کہ ان کی پارٹی کے لیے بھی ارکان پارلیمنٹ فروخت ہوئے اور ان کے خلاف بھی… بس افسوس اس امر کا ہے کہ یہ جانوروں کی طرح فروخت ہوئے۔ خان صاحب نے تو بکے کا لفظ استعمال کیا ہے اگر اس کے ’’ب‘‘ پر زبر لگادی جائے تو بھی ارکان پارلیمنٹ ہی کی طرف خیال جاتا ہے۔ واقعی ارکان پارلیمنٹ کی منڈی لگی ہوئی تھی۔ ایک زمانہ تھا لاکھوں روپے میں اسمبلی اور سینیٹ کی
بات ہوتی تھی چند برس پیش تر بھی ایم کیو ایم کے سینیٹر حسیب خان کے بارے میں کہا گیا کہ دو کروڑ میں سینیٹر بنے، کسی نے 6 کروڑ کہا لیکن حسیب صاحب نے بہرحال تردید کی تھی لیکن اب تو حیا کی چادر تار تار ہوچکی ہے۔ لوگ کھلے عام بتاتے ہیں کہ 35 کروڑ میں ٹکٹ ملا۔ کوئی کہتا ہے کہ اتنے پیسے تو دے دیں گے اور کوئی کیا۔ وزیراعظم کی بات سند ہوتی ہے وہ خود بتارہے ہیں کہ ارکان جانوروں کی طرح بکے۔
پاکستانی وزیراعظم کی بات پر پڑوسی ملک میں بہت اعتبار کیا جاتا ہے۔ چناں چہ حکومت مخالف کسانوں کو بھی خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے معاملات کے حل کے لیے پارلیمنٹ ارکان کو استعمال کیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے وہاں منڈی لگانے کا اعلان کردیا ہے۔ پارلیمنٹ کے سامنے منڈی کا خیال اسی لیے آیا ہوگا کہ پاکستانی وزیراعظم نے بھی جو بات کی ہے وہ بالکل بکرا منڈی والی تھی۔ یعنی ارکان جانوروں کی طرح بک رہے تھے۔ کسانوں کے پارلیمنٹ کے باہر منڈی لگانے کی خبر بھی اتفاق سے نومنتخب چیئرمین سینیٹ اور وزیر ریلوے اعظم سواتی کے درمیان ملاقات کی تصویر کے نیچے لگی ہے۔ اسے اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات بڑی دور رس ہے۔ مودی اسے پاکستان کی سازش قرار دے دے گا بلکہ وہ بھی اسی طرح سوچتا ہے جس طرح بقول وزرا کے پی ڈی ایم والے سوچتے ہیں۔ ان کی سوچ کو وزرا بھارتی بیانیہ کہتے ہیں۔ اور جب مودی کی زبان سے بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے منڈی لگنے پر اعتراض ہوگا تو کچھ یوں ہوگا کہ پاکستانی فوج بھارت میں مداخلت کررہی ہے۔ جنرل باجوہ بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے منڈی لگانے سے کسانوں کو روکیں۔ لیکن یہ منڈی تو اب لگ چکی، بکنے والے بک چکے۔ وزیراعظم کو اور ان کے وزرا کو ارکان کے بکنے اور ایک دوسرے سے بدلے لینے کی بات کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے تھا کہا اگر وہ یہ باتیں درست کہہ رہے ہیں تو انہیں سینیٹ کے چیئرمین سے استعفا لے لینا چاہیے۔ حکومت کے جو سینیٹرز منتخب قرار دیے گئے ہیں ان کو بھی مستعفی کروادیا جانا چاہیے اور یہی کام پی ڈی ایم کو بھی کرنا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ چناں چہ ابھی پاکستانی اپوزیشن ووٹ مسترد کرانے والوں کی تلاش میں ہے اور حکومت پارلیمنٹ کے اندر منڈی کی بات کررہی ہے تو بھارت میں پارلیمنٹ کے باہر منڈی لگانے کی بات کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم والوں کو ووٹ مسترد کرانے والوں کی تلاش کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔ انہیں بھی وزیراعظم اور ان کے وزرا کی طرح معلوم ہی ہوگا کہ ووٹ مسترد کرانے والے کون ہیں۔ لیکن انہیں تو سب جانتے ہیں خصوصاً پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تو اسٹیبلشمنٹ سے آگے بڑھ کر نام بھی لیے گئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ انہیں اپنے اندر سے ان لوگوں کو سامنے لانا ہوگا جنہوں نے ایک ووٹ غلط ڈالا اور ایک درست۔ یہی کام چیئرمین کے معاملے میں بھی ہوا اور دونوں پارٹیاں اپنے اپنے ووٹ مسترد کرنے والوں کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ مسترد کرانے والوں کی تلاش کی ضرورت نہیں وہ خود تلاش میں رہتے ہیں کہ کس سے کیا کام لینا ہے۔ ایک اور لطیفہ بھی قابل توجہ ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے اور لانگ مارچ نہ کرنے کا مطالبہ کردیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا مینڈیٹ تسلیم کیا جائے۔ کرپشن کے سوا ہر معاملے پر بات ہوسکتی ہے۔ پی ڈی ایم کو لانگ مارچ سے کچھ نہیں ملے گا۔ یہ بات لطیفہ یوں ہے کہ اس سے ایسا محسوس ہوا جیسے پی ڈی ایم لانگ مارچ کرنے اور نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ حکومت کو بھی پتا ہے کہ ووٹ مسترد کرانے والے اور لانگ مارچ کرانے اور نہ کرانے والے کون ہیں۔ اگر لانگ مارچ کرانے والوں نے فیصلہ کرلیا کہ لانگ مارچ ہوگا تو وہ ہوجائے گا۔ اور جہاں تک پی ڈی ایم کو لانگ مارچ سے کچھ حاصل نہ ہونے کی بات ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ تجھے کیا۔ اسے کیا حاصل ہونا ہے اور کیا نہیں۔ یہ تو حکومت کا معاملہ نہیں۔ حکومت پی ڈی ایم سے کرپشن کے سوا ہر مسئلے پر بات کرنے کو تیار ہے۔ کیوں کہ کرپشن ہر ایک کو اپنی اپنی کرنی ہے۔ کوئی دوسرے کی کرپشن کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔