اردو کا ایک مشہور محاورہ ہے ’’سانپ کی منہ میں چھپکلی، اْگلے تو اندھا نِگلے تو کوڑھی‘‘۔ کوڑھ ایک ایسا غلیظ مرض ہے کہ جسے لگ جائے اس کے جسم کو جگہ جگہ سے گلا سڑا کے رکھ دیتا ہے۔ سانپ اگر کسی چھپکلی کو منہ میں دبانے کی غلطی کر بیٹھے تو وہ سخت مصیبت میں پھنس جاتا ہے کیونکہ ہر دو صورت، یعنی اس کو نگل لینے یا چھوڑ دینے میں اس کا اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ اگر وہ چھپکلی کو نگل لے تو چھپکلی کا زہر اسے کوڑھی کردے گا اور وہ ایک قابل ِ نفرین موت مر جائے گا اور اگر وہ اسے اْگلے گا تو چھپکلی اپنے فطرت کے مطابق اس پر حملہ آور ہو جائے گی اور اپنے تیز نوکیلے پنجوں سے سانپ کی آنکھیں پھوڑ کر رکھ دے گی۔ آنکھیں تو بہت بڑی بات ہے، سانپ کے جسم پر اگر معمولی سی خراش بھی آ جائے تو وہ خراش اس کی ہلاکت کا باعث بن جایا کرتی ہے۔ اس کے جسم سے خارج ہونے والا مادہ چیونٹیوں کے لیے خاص کشش رکھتا ہے، آس پاس کی چیونٹیاں سانپ پر حملہ آور ہوجاتی ہیں اور ان کی کثیر تعداد آخر ِ کار سانپ کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ تحریک انصاف بظاہر جس نیک مقصد کو لیکر میدان عمل میں اٹھی تھی وہ مقصد عوام کو آسانیاں فراہم کرنا تھا۔ اس کا سب سے بڑا نعرہ اور دعویٰ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرکے ملک و قوم کی دولت کو واپس لانا تھا۔ عوام کو آسانیاں فراہم کرنا اور کرپٹ افراد کے خلاف مسلسل دائرہ تنگ کرنے کی باتیں تو اب بھی اسی انداز میں جاری و ساری ہیں لیکن ان میں سے کسی معاملے میں بھی عملی طور پر کوئی پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
گزشتہ دنوں، وفاق سے سینیٹر بنائے جانے کے سلسلے میں حکومتی نمائندے، حفیظ شیخ کو یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں شکست کا جو سامنا کرنا پڑا وہ عمران خان کے لیے شدید ذہنی کرب کا سبب بنا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی سطح پر ان کو مناسب عددی برتری حاصل ہونے کے باوجود بھی ایسی حزیمت کا خیال دور دور تک نہیں تھا۔ اس شکست کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ خود ان کی صفوں میں موجود افراد تھے جنہوں نے دو اقسام کی حماقتیں کیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے چند سکوں کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کیا اور دوسری حماقت یہ ہوئی کہ 7 ارکانِ اسمبلی نے اپنے ہی ووٹوں کو غلط مارکنگ کرکے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ یقینا یہ بات عمران خان کے دعوں اور قوم سے کیے گئے وعدوں کے خلاف تھی جس کا بھر پور نوٹس لیا جانا بے حد ضروری تھا۔
یہ بات بھی نہیں کہ ان بد عنوانیوں کا سخت ترین نوٹس نہ لیا گیا ہو لیکن ہوا یوں کہ وہ نوٹس جس انداز میں لیا گیا وہ سانپ کے منہ میں چھپکلی جیسا بن کر رہ گیا۔ ہوا یوں کہ ہار کے فوراً بعد ایک جانب تو عمران خان نے اپنے ان 16 افراد پر 5 سے 7 کروڑ روپے لیکر ضمیر بیچنے کی از خود تصدیق کی اور پھر اپنے لیے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ طلب کرنے کا نوٹس صدر مملکت سے جاری کروا دیا۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کے ووٹ کا اپوزیشن کے افراد نے مکمل بائیکاٹ کیا اور ان کے 164 کے 164 ارکان نے اجلاس میں شرکت نہ کرکے اس بات کا واضح ثبوت فراہم کیا کہ ان کے اتحادی سارے کے سارے ان ہی کے ساتھ ہیں۔ باقی 180 وہ ارکان جو حکومت بننے سے لیکر اب تک پی ٹی آئی کے ساتھ تھے، وہی اسمبلی حال میں موجود تھے اور ان سب نے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دے کر ان کی کرسی کو سہارا دیا۔ ان 180 افراد میں وہ 16 افراد بھی شامل تھے جو بقول وزیر اعظم ’’بکاؤ‘‘ تھے اور اگر بکے نہیں تھے تو ’’فلور کراسنگ‘‘ کے ایکٹ کے تحت قانون کے شکنجے میں لائے جانے کی اہل ضرور تھے۔ وہی افراد جو کل تک ’’سیاہ رو‘‘ تھے اعتماد کا ووٹ دے کر ’’یدِ بیضا‘‘ بن چکے تھے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ضمیر فروش، محب حکومت کیسے بن گئے، مشکل یہ ہے کہ کیا عمران خان جس شاخ پر بیٹھے ہوں، اس شاخ کو کاٹ سکتے تھے؟۔
جس کرپشن کے خاتمے کے دعوے کے ساتھ عمران خان کرسی اقتدار پر بیٹھے تھے، ان کے اسی دعوے کو سولہ ’’چھپکلیوں‘‘ نے حکومت کے منہ میں گھس کر موت کی نیند سلادیا ہے۔ یہ وہی سولہ چھپکلیاں ہیں جن کو نہ نگلے بن پڑتی ہے اور نہ ہی اگلے، کیونکہ ہر دو صورت ’’اقتدار‘‘ کی موت کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جو آنے والے دنوں میں کرپشن کی انتہائیں چھونے کے باوجود عمران خان سے کرپشن کے خلاف عزم کو کمزور سے کمزور تر کرتی چلی جائیں گی۔ اب عمران خان اپنے اندر شامل اعتماد کا ووٹ پاس کرنے والی سولہ چھپکلیوں کے خلاف جب بھی کوئی قانونی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کریں گے، ان کے اقتدار کی کرسی پر بیٹھے رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ ان سولہ چھپکلیوں سے اعتماد کا ووٹ لیکر عمران خان ایسی مشکل میں پھنس گئے ہیں جس سے باہر آنا اب ممکن ہی نہیں رہا ہے۔ صورتحال یوں ہے کہ وہ ارکان اسمبلی جو عمران خان کے خوف یا احترام کی وجہ سے ہر قسم کی کرپشن سے اجتناب کرتے آئے ہیں ان کو بھی روکنا ممکن نہیں رہے گا کیونکہ ان کے ہاتھ میں عمران خان کی دکھتی رگ یعنی ’’کرسی‘‘ سے محبت ہاتھ آ گئی ہے۔ اس سونامی کو روکنے اور عوام کی نظروں میں اپنا مقام بنانے کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے اور وہ اسمبلیاں توڑ کر ارکانِ اسمبلی سے نہیں، عوام سے اعتماد کا ووٹ لینے کا راستہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایک ’’کپتان‘‘ کا دل اتنا مضبوط ہے کہ وہ پوری ٹیم نئے سرے سے بنانے کی جرأت کر سکے۔