عدالت عالیہ پشاور کا مستحسن فیصلہ

454

عدالت عالیہ پشاور نے ’’ٹک ٹاک‘‘ کو ملک بھر میں بند کرنے کا حکم دے دیا ہے اس ضمن میں دائر کی گئی درخواست کی سماعت عدالت عالیہ کے منصف اعلیٰ جسٹس قیصر رشید خاں نے کی، دوران سماعت منصف اعلیٰ نے رائے دی کہ ’’ٹک ٹاک‘‘ پر جن ویڈیوز کا اشتراک کیا جاتا ہے، وہ ہمارے معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں اور ان ویڈیوز سے معاشرے میں فحاشی پھیل رہی ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی لہٰذا اسے فوری طور پر بند کیا جائے۔ ’’ ٹک ٹاک ‘‘ سے سب سے زیادہ جوان متاثر ہو رہے ہیں ’’ ٹک ٹاک ‘‘ کے بارے میں جو رپورٹ مل رہی ہے وہ افسوسناک ہے منصف اعلیٰ نے ڈائریکٹر جنرل پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے استفسار کیا کہ ’’ ٹک ٹاک ‘‘ کا دفتر کہاں پر ہے جہاں سے یہ کنٹرول ہوتا ہے۔ جس پر انہوں نے بتایا کہ ’’ ٹک ٹاک ‘‘ کا ہیڈ آفس سنگاپور میں ہے۔ پاکستان میں اس کا دفتر نہیں ہے۔ اسے دبئی سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ منصف اعلیٰ نے ڈی جی پی ٹی اے سے استفسار کیا کہ کیا ’’ ٹک ٹاک ‘‘ ایپ کو بند کرنے سے ان کو (کمپنی) کو نقصان ہو گا؟ جس پر ڈائریکٹر جنرل پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے جواب دیا کہ جی ان کو نقصان ہو گا ڈی جی پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ’’ ٹک ٹاک ‘‘ کے عہدیداروں کو مواد کے سلسلہ میں درخواست دی ہے لیکن ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ جس پر منصف اعلیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب تک ’’ ٹک ٹاک ‘‘کے عہدیدار پی ٹی اے کی درخواست پر عمل نہیں کرتے، غیر اخلاقی مواد روکنے کے لیے تعاون نہیں کرتے اس وقت تک ’’ ٹک ٹاک ‘‘ کو بند کر دیا جائے۔ آئین کی رو سے اس مملکت خدادادکا نام، اسلامی جمہوریہ پاکستان، ہے اور یہاں قرآن اور سنت کی تعلیمات کے منافی کسی کام کی اجازت نہیں دی جا سکتی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے تحریک پاکستان کے دوران جب ایک مغربی صحافی نے استفسار کیا کہ نئی مملکت کا آئین اور قانون کیا ہو گا؟ تو انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر دو ٹوک واضح اور فیصلہ کن الفاظ میں فرمایا کہ پاکستان کا آئین تو تیرہ سو برس قبل ہی ہمیں قرآن حکیم کی صورت میں عطا کر دیا گیا تھا چنانچہ قیام پاکستان کے فوری بعد آئین ساز اسمبلی نے بھی ’’قرار داد مقاصد‘‘ منظور کر کے اس امر پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ پاکستان میں تمام قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہو گی۔ 1973ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے جس آئین کی متفقہ طور پر منظوری دی اس میں بھی قرآن و سنت ہی کو قانون سازی کی لازمی اساس قرار دیا گیا ہے اور قرآن حکیم کے آٹھویں پارہ میں سورہ انعام کی آیت نمبر 151 میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ’’بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو، خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی‘‘ پھر پارہ نمبر اٹھارہ میں سورہ النور کی آیت نمبر 19 میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔ فحاشی، عریانی اور بے حیائی کی مذمت اور ممانعت کے اسی طرح کے احکام قرآن مبین میں جا بجا ملتے ہیں۔ وطن عزیز کے آئین اور قانون میں بھی فحش کو پھیلانے کی ممانعت اور ایسا کرنے والوں کے لیے سزائیں مقرر ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ آئین اور قانون کا کھلم کھلا مذاق اڑاتے ہوئے ذرائع ابلاغ صبح شام معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دینے میں مصروف ہیں، مگر قانون حرکت میں آتا ہے نہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کان پر جوں رینگتی ہے۔ پشاور کی عدالت عالیہ نے سماجی ذرائع ابلاغ کی مختصر وقت کی ویڈیو کے اشتراک کی ’’ٹک ٹاک‘‘ نامی جس ایپلیکیشن پر پابندی کا حکم جاری کیا ہے یہ معاشرے میں بے راہروی کو فروغ دینے کے لیے بدنامی کی حد تک مشہور ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف ’’ٹک ٹاک‘‘ ہی اس برائی کو پھیلا رہی ہے، یوٹیوب، فیس بک اور اس نوع کے دیگر سماجی ذرائع ابلاغ پر کیا نہیں ہوتا۔ ان سب نے مل جل کر نئی نسل کو بگاڑنے فحاشی، عریانی، بے حیائی، بے مقصدیت اور بے راہروی کو معاشرے میں عام کرنے اور اسے قابل قبول بنانے کے لیے ایک طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔ جس کے سامنے معاشرے کے صالح عناصر خود کو قطعی بے بس محسوس کرتے ہیں حکومت کے جن اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس طوفان کے آگے بند باندھیں انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس تک نہیں۔ ’’ٹک ٹاک‘‘ پر عدالت عالیہ پشاور کی جانب سے عائد کی گئی پابندی ہی کا جائزہ لیا جائے تو سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی ضرر رساں چیزوں کو پھیلنے سے روکنا بنیادی طور پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کا فرض ہے اس فرض کی ادائیگی میں یہ اتھارٹی مکمل ناکام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت عالیہ کو مداخلت کر کے پابندی کا حکم جاری کرنا پڑا ہے۔ اس عدالتی حکم کے بعد بھی دیکھنا ہو گا کہ پی ٹی اے اس حکم پر عمل درآمد میں کس قدر فعالیت کا مظاہرہ کرتا ہے، یہ توقع رکھنا بھی شاید بے جا نہ ہو گا کہ ’’ٹک ٹاک‘‘ کے علاوہ جو دوسری ویب سائٹس اور ایپلیکیشنز فحاشی اور بے حیائی پھیلانے میں مصروف ہیں، ان کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کے لیے پی ٹی اے عدالت کے حکم کا انتظار نہیں کرے گا کہ یہ اس کی اپنی ذمہ داریوں کا تقاضا بھی ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ کے علاوہ برقی ذرائع ابلاغ کا کردار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، ان ذرائع سے پیش کئے جانے والے پروگرام خصوصاً ڈرامے اور اشتہارات ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے معاشرے کی تمام مثبت اقدار اور خوبصورت روایات کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ برقی ذرائع ابلاغ سے پیش کئے جانے والے ڈراموں اور اشتہارات خصوصاً اور دوسرے پروگراموں میںعموماً ہمارے خاندان کے ادارے اور مقدس رشتوں کو ہدف بنا کر نقصان پہنچایا جا رہا ہے، اسی طرح دینی اقدار اور سماجی روایات کو بھی تہس نہس کرنے کے لیے شعوری اور منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں۔ بزرگوں کے عزت و احترام کی تعلیم و تلقین کی بجائے بچوں کو بڑوں کے مقابل کھڑا کرنا ان ذرائع ابلاغ کی ترجیحات میں نمایاں ہے، افراد معاشرے کے مابین عزت و احترام، محبت و الفت اور باہمی یگانگت کو فروغ دینے کی بجائے نفرت کی دیواروں کو بلند سے بلند تر اور تعصبات کی دراڑوں کو گہرا کیا جاتا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ کی نگرانی اور انہیں دینی، اخلاقی، آئینی اور قانونی حدود کا پابند رکھنے کے لیے اگرچہ سرکاری سطح پر پیمرا (پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) کے نام سے ادارہ موجود ہے مگر یہاں بھی پی ٹی اے اور دوسرے سرکاری اداروں کی طرح ذمہ داران اور کارکنان اپنے فرائض پر توجہ دینے اور ان کی ادائیگی کو یقینی بنانے سے زیادہ مراعات و مفادات کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور انہیں اس بات کا ذرا احساس نہیں کہ یہ ذرائع ابلاغ معاشرے کو اخلاقی زوال کی کن گہری کھائیوں کی جانب دھکیلے چلے جا رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ معاشرے کی دینی اقدار اور معاشرتی روایات کے تحفظ کے لیے بھی ’’پیمرا‘‘ اور ’’پی ٹی اے‘‘ جیسے ادارے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اعلیٰ عدالتوں کے احکام کا انتظار کئے بغیر از خود کارروائی کر کے ملک و قوم کی جانب سے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی کا اہتمام کریں تاکہ معاشرے کو زوال کا شکار ہونے سے بچایا جا سکے کہ ہماری بقا کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔