آئین ِ پاکستان پر پہلا سب سے بڑا، باغیانہ اور ظالمانہ شب خون تو 14 اگست 1947 کی صبح طلوع ہونے سے بھی کئی گھنٹے پہلے اس آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر کر مارا گیا تھا جس کے لیے نہ صرف اس ملک ِ پاکستان کو حاصل کیا گیا تھا بلکہ اس کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی پیش کیے ہوئے چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے۔ ابھی قربانیاں دینے والوں کا لہو رزقِ خاک بھی نہیں ہوا تھا اور غازیوں کے تازہ زخموں پر کسی نے مرہم بھی نہیں لگایا تھا کہ ملک کے بانیوں نے اسی آئین و قانون کو غلامی کے طوق کے طور پر اپنے گلے کا ہار بنانے کا اعلان کر دیا تھا جس سے آزادی کی جدو جہد میں مسلمانانِ انڈو پاک نے اپنی تین نسلیں قربان کر دی تھیں۔
اگر فرنگیوں کے قانون کو فوری طور پر نافذ کرنے کے اقدام پر گہری نظر ڈالی جائے تو اس کے پس ِ پشت بھی اقتدار کو فوری تحفظ فراہم کرنے کے سوا شاید ہی کوئی اور مقصد کار فرما رہا ہو۔ اس بات کا بھی قوی امکان پایا جاتا تھا کہ شاید حاصل کردہ خطہ زمین فوری طور پر کسی بڑی آزمائش کا شکار ہو جائے لیکن یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ جس مقصد عظیم کے لیے سر زمین پاکستان حاصل کرنے کی جدو جہد کی جا رہی تھی اس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کے ذہنوں کی زمین کو تیار ہی نہیں کیا گیا اور ان پر اس بات کو صاف صاف واضح ہی نہیں کیا گیا کہ آزادی مل جانے کے صورت میں حاصل کیے گئے خطہ زمین پر صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کا قانون ہی نافذ کیا جائے گا۔ آئین و قانون پر شب خون در شب خون مارے جانے کا یہ سلسلہ پھر کہیں رک کر ہی نہیں دیا اور ان سارے والے شب خونوں کا ہمیشہ اقتدار کو تحفظ فراہم کرتے رہنے کے سوا کبھی کوئی اور مقصد اپنایا ہی نہیں گیا۔ چناںچہ قربانی دینے والے مسلمانوں نے جب اپنے دل پر یہ سمجھ کر ہاتھ رکھ لیا کہ بانیانِ پاکستان اسلامی نظام کے لیے آہستگی کے ساتھ ہی سہی، اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے اور کوئی نہ کوئی ایسا طریقہ کار ڈھونڈ نکالیں گے کہ آخرِ کار اسلامی نظام ہی اس ملک کا مقدر بن کر ابھرے گا۔ 1956 کے آئین کی صورت میں مسلمانان پاکستان کو اس بات کی امید ہو چلی تھی کہ اب دیر ہی سے سہی ہم اپنے مقصد کی جانب چل نکلنے میں کامیاب ہو ہی جائیں گے۔ ابھی امید کی کرنوں نے کفر کی تاریکیوں سے چھلکنا ہی شروع کیا تھا کہ 1958 میں مارشل نے اپنے ہی ہاتھوں بنائے گئے دستور اور پھوٹنے والی امید کی کرنوں کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا اور پورا قانون ’’جو میں کہتا ہوں‘‘ بنا کر رکھ دیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اسی ’’جو میں کہتا ہوں وہ قانون ہے‘‘ نے اپنے کہے یعنی 1962 میں بنائے جانے والے آئین کی دھجیاں خود اپنے بوٹوں تلے رونڈ ڈالیں اور پھر منہ سے ادا ہونے والے ایک ایک حرف کو پاکستان کے آئین و قانون کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس ساری اْٹخ پٹخ کے پسِ پردہ بھی صرف اور صرف ذاتی اقتدار کو طول دینے کے سوا اور کوئی دوسرا مقصد سامنے نہیں آ سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں پاکستان کو 1973 کی شکل میں ایک آئین و قانون دیا۔ یہ بھٹو کا ایک عظیم کارنامہ ہی سہی لیکن پھر ان کے سات سالہ دور میں اپنے ہی بنائے ہوئے آئین پر مسلسل شب خوب پر شب خوب مارا جاتا رہا اور ان کے ذریعے جتنی بھی آئینی ترمیمات سامنے آتی رہیں ان سب کا بھی ایک ہی مقصد رہا کہ کس طرح کسی حکمران کی حکمرانی کو تحفظ بخشا جا سکتا ہے۔
بھٹو کے بعد بھی آئینی ترمیمات در ترمیمات کا سلسلہ کہیں ٹھیر کر نہیں دیا۔ ضیا الحق ہوں، ان کے بعد ’’تو چل میں آیا‘‘ جیسی اوپر نیچے ہوتی حکومتیں ہوں یا پھر جنرل مشرف کا اقتدار سنبھالنا، ہر ایک کی کوششوں کا ایک ہی محور رہا کہ اقتدار کی کرسی کو مضبوط سے مضبوط تر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا آئینی شقوں میں ترمیمات ہوں یا بزدل ججوں سے اپنی مرضی کی تشریحات حاصل کرنے کا کریہہ فعل، ہر حربہ اقتدار کو طوالت دینے کے طریقہ کار تک ہی محدود رکھا گیا۔ صدر کو بے پناہ اختیارات دے کر بے نکیل اونٹ بنانے یا پھر صدر کے سارے اختیارات کو وزیر اعظم کی جھولی میں ڈال دینے جیسے سارے اقدامات کا اس کے علاوہ کبھی کوئی اور مقصد ہی نہیں رہا کہ حاکم وقت کے تخت و تاج کو کس کس طرح ناقابل شکست بنایا جا سکتا ہے۔ سینیٹ میں سینیٹرز کے انتخاب کے لیے کب ووٹنگ خفیہ اور کب اعلانیہ ہونی چاہیے کی بحث میں بھی یہی ساری باتیں صاف ظاہر عیاں نہیں تو کیا ہے۔ ہر وہ قانون جس میں عوام کی بھلائی، ان کے لیے امن و امان کا یقینی بنایا جانا یا ان کی مشکلات میں کیسے کمی آنی چاہیے، یہ سوچنا، کبھی پاکستان کے آئین و قانون میں کسی تبدیلی کا حصہ نہیں رہا جس کی وجہ سے ہر وہ فرد جو اپنے اپنے لیڈران کرام کے لیے اپنی عزت، آبرو، گھربار اور دھن دولت کی قربانی دینے سے کبھی دریغ نہیں کرتا، گھاٹے میں اور نقصانات اس کے حصے میں آتے ہیں اور کروڑوں کھربوں کی جائداد اور دھن دولت ان کی جھولی میں جا گرتی ہے جن کو وہ اسمبلیوں اور تحتِ اقتدار پر متمکن کرتا ہے۔ آپس کی بات ہے، پاکستان میں صرف صرف عوام ہی اندھے بہرے نہیں، بڑے بڑے دیدوں والے مضبوط ادارے بھی عام انسانوں سے بہت مختلف نہیں۔ جب تک ایک ایک فرد اور پاکستان کا ایک ایک ادارہ ’’دیدہ ور‘‘ اور دلیر نہیں بنے گا، پاکستان پیچھے کی جانب تو ضرور جا سکتا ہے، ترقی کے زینے اللہ ہی طے کرائے تو کرائے۔