توہین قرآن کے اصل مجرم

468

ریڈیو پاکستان پر ایک چینل سے ایک اشتہار سننے کا اتفاق ہوا بہت اچھا لگا۔ اشتہار میں کہا جا رہا تھا کہ قرآن پاک کا احرام ہم سب پر لازم ہے اس کے اوراق کو جلانے ردی میں پھینکنے یا کچرے میں ڈالنے سے احتراز کریں یہ اقدام تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 بی کے تحت قابل سزا جرم ہے ریڈیو پاکستان نے اس اشتہار میں بتایا کہ قرآن کا احترام ہم سب کا فرض ہے۔ یہ انتباہ ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو قرآن پاک کا احترام نہیں کرتے بلکہ اس کی آیات اور اس کے نسخوں کو ردی میں ڈالتے ہیں جو سزائیں تجویز کی گئی ہیں ان میں عمر قید بھی شامل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی کبھی خبریں آتی ہیں کہ فلاں مقام پر کسی شخص نے توہین قرآن کا ارتکاب کیا ہے اور لوگ اسے پکڑ کر مارنے لگتے ہیں کبھی پولیس گرفتار کر لیتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک سے عوام کی وابستگی جذباتی اور گہری ہے لیکن یہ بات بھی واضح ہوتی ہے قرآن سے عوام کی وابستگی شعوری نہیں ہے۔ ورنہ قرآن پاک کے اوراق یا آیات کی بے حرمتی کے واقعات 22 کروڑ کے ملک میں کئی کئی برس میں ایک دو ہوتے ہیں لیکن 73 برس سے پاکستان کے حکمران قرآن کے احکامات کو ردی میں ڈال رہے ہیں اس کے احکامات سے عمل کرنے کے بجائے انگریزی قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ بلکہ شعوری طور پر قرآن کے احکامات کا مذاق اڑاتے ہیں میڈیا کو اس کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے سرکاری اور نجی ٹی وی پر ایسے ہی لوگوں کو جگہ دی جاتی ہے۔ اس رویے کو کیا کہا جائے پاکستان میں 295 بی کی خلاف ورزی پر جتنے بھی لوگ پکڑے گئے ہیں یا تو بے گناہ ہوتے ہیں انہیں جذباتی ہجوم پھنساتا ہے یا کوئی لین دین کا تنازع ہوتا ہے جس میں کوئی مالدار آدمی کسی غریب کو پھنسا دیتا ہے کچھ واقعات حقیقی بھی ہوتے ہیں لیکن توہین قرآن پر کسی حکمران کے خلاف آج تک مقدمہ نہیں بنا میاں نواز شریف کا بڑا جرم پاناما، اقامہ یا کرپشن نہیں ہے ان کا سب سے بڑا جرم سود کے حق میں عدالت میں جانا ہے لیکن کسی نے ان کے خلاف توہین قرآن کا مقدمہ نہیں بنایا۔ پیپلز پارٹی نے حدود آرڈیننس ختم کرنے کی کوشش کی شیری رحمن حدود کی سزائوں پر تبصرے کرتی رہیں حالات سنگین ہوئے تو کچھ عرصے کے لیے منظر سے غائب ہو گئیں۔
ہمارے ملک میں روایت بھی یہی ہے اور عوام کا مزاج بھی یہی ہے کہ مسجد کی گھڑی چرانے والے یا کسی دکان پر جیب کاٹنے والے کو پکڑ لیتے ہیں مارتے پیٹتے ہیں گدھے پر بٹھانے ہیں منہ کالا کرتے ہیں بچوں کو پیچھے لگا دیتے ہیں لیکن ملک لوٹنے والے سیاستدانوں حکمرانوں ارکان اسمبلی سر پر بٹھاتے ہیں ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور شکایت بھی نہیں کرتے جب ان کو سر سے اتارنے کا موقع آتا ہے تو بھی انہیں پھر سر پر بٹھا لیتے ہیں۔ یہ کون سا طریقہ ہے کہ بڑا آدمی جرم کرے تو اس کو جرم ہی نہ سمجھا جائے اور غریب کرے تو اسے سب مارنے کو دوڑیں یہ معاملہ توہین قرآن کے ساتھ ہے حکمراں قرآن کے احکامات پر عمل کرنے کے بجائے کسی اور قانون کو اس سے بالا تر قرار دے کہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق عمل نہ کریں وہ فاسق ہیں۔ ایک جگہ ظالم کا اور ایک جگہ کافر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی توہین قرآن کرنے والے باز نہیں آتے اور ان کیخلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا۔ کوئی کسی غلطی کے سبب پرانے کاغذ جلا رہا ہو اور اس میں اتفاق سے یا غلطی سے قرآن کے اوراق آجائیں اور کوئی دیکھ لے تو وہ بے چارا تو توہین قرآن کا مجرم قرار پاتا ہے اور جانتے بوجھتے اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے والا علی الاعلان اقرار کرتا ہے کہ میں اسلام اور نظریہ پاکستان کا وفا دار رہوںگا لیکن کام اس کے برخلاف کرتا ہے۔ پاکستان ہی میں دینی مدارس کیخلاف سب سے زیادہ مہم ارکان اسمبلی چلاتے رہے ہیں اب بھی وزرا کی زبانیں دینی مدارس کے معاملے میں زیادہ دراز رہتی ہیں۔ آئین پاکستان کہتا ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں ہوسکتی اور ارکان پارلیمنٹ اس کے برخلاف قرآن و سنت کے احکامات کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کے خلاف قانون سازی کرتے ہیں۔
سود کو حلال بنانے کی کوششوں کے علاوہ حکمرانوں کی جانب سے توہین قرآن کے بہت سے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ قرآن لوگوں کے راستے بند کرنے کو منع کرتا ہے۔ ہمارے حکمران وی آئی پی اور طاقتور لوگ جہاں چاہتے ہیں راستہ بند کردیتے ہیں۔ اس کی مثالیں بیریئرز بھی ہیں اور مختلف سڑکوں اور گلیوں کی بندش بھی کچھ سیاسی پارٹیاں جن کی سرپرستی سرکار ہی کرتی ہے سڑکیں اور پورے پورے شہر کو بند کرنے میں مشہور تھیں اعلیٰ سرکاری شخصیات کے علاوہ سیکورٹی پر مامور ادارے بھی قرآن کے اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ قرآن کا ایک اور حکم ہے کہ ’’ناپ تول میں گھپلا نہ کرو‘‘ ہمارے حکمران لیتے وقت تو پورا ٹیکس وصول بلکہ کشید کرلیتے ہیں لیکن عوام کو سہولتیں دینے کے وقت ان کے پاس عذر کے انبار ہوتے ہیں لینے اور دینے کے پیمانے مختلف کیوں ہیں۔ قرآن کے حکم کے صریح خلاف کام کرنے والے ان حکمرانوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ یہی حکمران ٹھیلے والے اور پرچون والے کے خلاف زیادہ قیمت لینے پر جرمانہ کرتے ہیں۔ قرآن حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو ان کی اشیا کم نہ دو … لیکن ہمارے حکمران سستا پٹرول لے کر مہنگا دیتے ہیں اور کم دیتے ہیں۔ اشیائے ضرورت آٹا، چینی، تیل، پھل، سبزیاں اور اب تو ادویات بھی مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہیں اور ہر چیز غائب کرنے والے حکومت کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ لوگوں سے پورا ٹیکس لے کر لوگوں کو ان کی اشیا نہ دینے والے حکمران قرآن کے احکامات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں۔ یہ تو چند ایک معاملات ہیں ورنہ دین کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور احکامات پس پشت بھی ڈالتے ہیں۔ کیا یہ آئین کے آرٹیکل 295 بی کی گرفت میں نہیں آتے۔