افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

340

مصافحہ
جہاں تک مصافحے کا تعلق ہے، محض خوشی کے مواقع پر ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ہر ملاقات کے موقع پر وہ نہ صرف جائز بلکہ مستحب اور مسنون ہے۔ ابوداؤد میں براء بن عازبؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان آپس میں مل کر مصافحہ کرتے ہیں اور اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کرتے ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمادیتا ہے‘‘۔ ترمذی میں ارشاد مبارک کے الفاظ یہ ہیں: ’’جب دو مسلمان آپس میں ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے ہیں اللہ ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت فرما دیتا ہے‘‘۔ یعنی ان کا ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا چونکہ مسلمان سے مسلمان کی محبت اور باہمی اکرام کا اظہار ہے، اس لیے یہ ان کی مغفرت کا موجب ہوتا ہے۔ ابو داؤد میں ہے کہ سیدنا ابوذرؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہؐ ملاقات کے وقت آپ لوگوں سے مصافحہ فرمایا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں حضورؐ سے ملا ہوں اور آپ نے مجھ سے مصافحہ نہ کیا ہو۔ اسی بنا پر مصافحہ کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
٭…٭…٭
معانقہ
معانقے کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض فقہا (جن میں امام ابو یوسف بھی شامل ہیں) اسے بلا کراہت جائز سمجھتے ہیں، بعض صرف سفر سے واپسی پر یا ایسے ہی کسی غیر معمولی موقع پر اس کو جائز اور عام حالات میں مکروہ قرار دیتے ہیں، اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ مطلقاً مکروہ ہے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ معانقے کے بارے میں احادیث مختلف ہیں۔ ترمذی میں انسؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہؐ سے پوچھا، یا رسول اللہ ہم میں سے کوئی شخص اپنے کسی بھائی سے ملے تو کیا اس کے آگے جھکے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ اس نے پوچھا کیا اس سے معانقہ کرے اور اس کا بوسہ لے؟ فرمایا نہیں۔ اس نے پوچھا کیا اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کرے؟ آپؐ نے فرمایا، ہاں۔ ترمذی ہی میں ایک اور روایت ہے جس میں عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب زید بن خالد بن حارثہ مدینہ پہنچے تو انہوں نے آکر ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ رسول اللہؐ جلدی سے اٹھ کر باہر تشریف لے گئے اور انہیں گلے سے لگا کر ان کا منہ چوما۔ ابوداؤد میں ابو ذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ نے مجھے طلب فرمایا تو میں گھر میں موجود نہ تھا۔ بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ حضورؐ نے مجھے یاد فرمایا ہے تو میں خدمت مبارک میں پہنچا۔ آپ نے مجھے گلے لگالیا۔
ان روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہؐ عام طور پر صرف مصافحے پر اکتفا کرتے تھے۔ معانقہ آپ کا عام معمول نہ تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی خاص موقع پر آپ نے معانقہ فرمالیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فعل ناجائز بھی نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، فروری 1966ء)