طلبہ یونین پر پابندی کا مقصد مزاحمتی سیاست کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے

386

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) اسٹیبلشمنٹ طلبہ کو رنگروٹ کی حیثیت میں اور سیاستدان ایندھن کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ مسلم لیگ نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور پیپلزپارٹی نے پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو مضبوط کر نے کی کوشش نہیں کی‘ حکمران طلبہ یونین اس لیے بحال نہیںکرتے کہ وہ بدنیت ہیں‘ حکمرانوں کے تصور جمہوریت میں طلبہ یونین کا خاکہ کسی طرح درست نہیں بیٹھتا ‘مارشل لا ختم کرتے وقت بہت سارا ملبہ چھوڑ دیا گیا‘ طلبہ یونین کے ذریعے عوامی طبقے سے اٹھنے والی باصلاحیت قیادت جاگیردارانہ بنیاد پر قائم سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار سابق طالب علم رہنما، جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر اسامہ بن رضی، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک، جامعہ کراچی کی آخری طلبہ یونین کے منتخب صدر، معروف کالم نگار شکیل فاروقی، معروف دانشور ثروت جمال اصمعی، ماہر تعلیم عمار علی خان، صحافی راشد رحمن اور جامعہ کراچی کی طالبہ مینزہ سعید نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’حکمران طلبہ یونین کو بحال کیوں نہیں کرتے ؟‘‘ شکیل الرحمن فاروقی نے کہا کہ حکمران طلبہ یونین اس لیے بحال نہیںکرتے کی وہ بدنیت ہیں‘طلبہ یونینز جمہوری اقدار و روایات کی نرسری یا گہوارہ ہیں اور حکمرانوں کا تصور جمہوریت ان کی خواہشات اور پسند ناپسند کا تابع ہے جس میں طلبہ یونین کا خاکہ کسی طرح درست نہیں بیٹھتا‘ اسٹیبلشمنٹ طلبہ کو رنگروٹ کی حیثیت میں اور سیاستدان ایندھن کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں جو طلبہ یونین کی صورت میں ممکن نہیں‘ دورِ حاضر کی حکومتوں کی سمجھ میں وہ خاکہ اب تک آیا نہیں جس میں ڈھال کر طلبہ یونین کو روبوٹ بنایا جاسکے‘ اس لیے حکمراں فی الوقت طلبہ یونین نہیں کرنا چاہتے ۔عمار علی جان نے کہا کہ طلبہ یونین پر مستقل پابندی کا مقصد درحقیقت مزاحمتی سیاست کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے اور ا س بات کو یقینی بنانا ہے کہ تدریسی اداروں میں آزاد سوچ پیدا نہ ہو اور وہ نظام کو آمرانہ انداز میں چلاتے رہیں اور ان کا کسی بھی معاملے پر احتساب نہ ہو۔ راشد رحمن نے کہاکہ اس پابندی کا مقصد دماغوں کو ڈبوں میں بند رکھنا ہے‘ حکمران اس لیے طلبہ یونینز کے خلاف ہیں کیوںکہ انہیں خوف ہے اگر طلبہ کو سیاست کا حق دیا گیا تو پھر ان کا ا قتدار خطرے میں پڑ جائے گا‘ یہی خوف کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں نیا خون شامل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور وہ سلسلہ جس کے ذریعے طلبہ آگے چل کر ملکی سیاست کا حصہ بنتے تھے‘ وہ ختم ہو گیا۔ اسامہ بن رضی نے کہا کہ طلبہ تنظیمیں بنیادی طور پر سیاسی اور جمہوری عمل کی تربیت گاہیں ہیں جس کی ضرورت حقیقی سیاسی، جمہوری عمل اور نظریاتی جماعتوں کو ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک کے بالادست اور حکمران طبقے کو اس کی قطعی ضرورت محسوس نہیں ہوتی‘ طلبہ یوینز پر پابندی تھی لیکن طلبہ تنظیمیں موجود تھیں ‘ کیا وجہ ہے کہ خود کو جمہوری اور سیاسی کہلانے والی مسلم لیگ نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور خود کو عوامی جماعت کہلانے والی پیپلز پارٹی نے پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو مضبوط کر نے کی کوشش نہیں کی؟ اسامہ بن رضی کا کہنا تھا کہ طلبہ تنظیمیوں پر پابندی مارشل دور میں لگی لیکن مارشل لا کے بعد خود کو منتخب اور جمہوری کہلانے والی حکومتوںنے بھی اس پابندی کو برقرار رکھا‘ دراصل ملک میں ایک حکمران طبقے کی مستقل آمریت قائم ہے جو کبھی فوجی آمریت، کبھی شخصی آمریت اور کبھی جمہوریت کے نام پر سامنے آتا ہے ‘ اس طبقے کو حقیقی سیاسی اور جمہوری ورکرز کے بجائے ایسے غلاموںکی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی بالادستی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا سکیں‘ طلبہ کی سیاست جمہوری عمل ہے جو آمرانہ مزاج کے حامل اور جاگیردارنہ سوچ رکھنے والوں کیلیے قابل قبول نہیں ہیں‘ ایسی لیے حکمران طبقے کی جانب سے طلبہ یونیز پر پابندی نہیں ہٹائی جاتی۔ افراسیاب خٹک نے کہا کہ جب مارشل لا ختم ہوتا ہے تو بہت سارا ملبہ چھوڑ دیا جاتاہے اور بہت ساری رکاوٹیں افسر شاہی کے پاس ہوتی ہیں جو دور سے نظر نہیں آتیں‘ ہمارے یہاں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ عبوری دور اپنے منطقی انجام تک پہنچا ہو جس کی وجہ سے جمہوری اداروں کی بحالی نہیں ہو سکی۔ ثروت جمال اصمعی نے کہا کہ طلبہ یونین کے ذریعے سے قوم کو عوامی طبقوں سے اٹھنے والی باصلاحیت قیادت میسر آتی ہے‘ ایسی قیادت جاگیردارانہ بنیاد پر قائم سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے‘ طاقتور حلقے یہ خطرہ نہیں مول لے سکتے ہیں کہ ملک کے چپے چپے میں ایسی قیادت کی تیاری کا عمل شروع ہو جائے جو ان کی اجارہ داری کو ختم کرنے کی بھر پور اہلیت اور جرأت کی حامل ہو اور اس نظام کے خاتمے کا سبب بن جائے۔ مینزہ سعید نے کہا کہ حکومت تعلیمی اداروں کو درس گاہوں کے بجائے ڈگریاں دینے والے اداروں کے طور پر چلانا چاہتی ہے‘ طلبی یونین پر پابندی کا مقصد نئی سیاسی قیادت کی تربیتی عمل کو روکنا ہے ‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ملک میں نئی قیادت اور پڑھے لکھے سیاستدان موجود نہیں ہیں۔