پشاور کی ایک خوبصورت شام

662

پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے تو اس حوالے سے اسے پھول نگر کہنا بجا ہوگا۔ اس شہر سے اسی کی دہائی سے یادوں کا ایک سلسلہ جڑا ہے جب پاکستان کے پہلو میں ایک خون آشام جنگ جاری تھی اور پشاور ملک بھر سے افغانستان جانے والوں کا اہم پڑائو تھا۔ یونیورسٹی ٹائون کے سیف ہائوس میں نوجوانوں کو اپنی باری کا انتظار کرنے میں کئی کئی دن لگتے اور اس انتظار کی بوریت دور کرنے کے لیے شہر کے در ودیوار پڑھنے نکل جانا معمول تھا۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تو اکثر معالعاتی دوروں کا مرکز بھی اٹک کے اس پار طورخم تک کا علاقہ رہا۔ اسی کی دہائی کی طرح جنگ کا کردار آج بھی وہی ہے مگر دوسرا کردار بد ل کر رہ گیا ہے۔ اس وقت یہ جنگ افغان مجاہدین اور سوویت یونین کے درمیان اور اب افغان طالبان اور امریکا کے درمیان جاری ہے۔ پہلی جنگ کے مضر اثرات نے پورے پاکستان کو بالعموم اور پشاور کو بالخصوص متاثر کیا تھا اور دوسری جنگ کا بوجھ بھی سب سے زیادہ اسی شہر پر پڑا۔ یوں لگتا ہے کہ اس بوجھ سے تھوڑا ریلیف ملنے کے بعد پشاور نے دوبارہ مسکرانا شروع کیا ہے۔ اس کے پھولوں نے دوبارہ مہکنا اور اس کے باغوں نے دوبارہ پھلنا پھولنا شروع کیا ہے۔ خدا ان مسکراہٹوں کو دائمی بنادے۔
ہفتہ کی شام پشاور سروسز کلب میں کرنل (ر) ذوالفقار خان کی صاحبزادی کی رخصتی کی تقریب تھی۔ کرنل ذوالفقار خیبر پختون خوا کے ایک فوجی گھرانے کے فرد ہیں اور ان کی بیگم بھی کرنل ڈاکٹر ہیں۔ ایک فوجی گھرانے کی تقریب ہو تو لامحالہ اس میں سابق فوجی حضرات کا غلبہ ہونا یقینی ہوتا ہے۔ سروسز کلب کی اس تقریب میں بھی ملک بھر سے سرجری اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے سابق فوجی افسروں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ ریٹائرڈ فوجی افسروں کی محفل زیادہ تر کیرئیر، پوسٹنگ، ترقی اور اس کے بعد کاروبار کے گرد گھومتی ہے۔ سیاست اور ملکی معاملات کی طرف بحث چل پڑے تو بھی ان کی رائے کا ایک اپنا وزن ہوتا ہے کیونکہ فوج میں تربیتی اور تعلیمی کورسز نے ان کا ایک ورلڈ ویو بنایا ہوتا ہے۔ سابقین ِ فوج کے اس اجتماع میں میں واحد اخبار نویس تھا۔ یہاں ایک دلچسپ ملاقات بریگیڈئر(ر) اشرف خان آفریدی سے رہی۔ بریگیڈئر اشرف آفریدی نوے کی دہائی کابل کے پاکستانی سفارت خانے میں ملٹری اتاشی رہ چکے ہیں۔ اسی دوران ان کے ساتھ ایک ایسا ناخوش گوار واقعہ پیش آیا تھا جس کی گونج عالمی ذرائع ابلاغ میں سنائی دی تھی۔ شمالی اتحاد کے حامیوں نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت پاکستانی سفارت خانے پر دھاوا بولا تھا اور بریگیڈئر اشرف آفریدی سمیت عملے کی افراد زخمی ہوئے تھے۔ زخمیوں کو پاکستان منتقل کیا گیا اور اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے سی ایم ایچ راولپنڈی میں بریگیڈئر اشرف آفریدی کی عیادت کی تھی۔ اشرف آفریدی کابل کی شدید نفرت انگیز فضاء کو آج بھی نہیں بھولے۔
اس تقریب کا اہم موضوع ملک حالات اور موجودہ حکومت کی پالیسیاں تھیں۔ محفل پر مجموعی طور پر عمران خان کی حکومت کی ہمدردی کا رنگ غالب تھا کیونکہ ملک کے عام آدمی کی طرح اس طبقے نے بھی دوجماعتی نظام کی دھینگا مشتی اور غلط پالیسیوں کی بدولت تیسری طاقت کے اُبھار کا خواب دیکھا تھا۔ اب دو جماعتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس میں مزید شکست وریخت ہونا ابھی باقی ہے مگر بہت ارمانوں سے اُبھاری جانے والی تیسری طاقت بھی ملکی حالات پر اپنی گرفت قائم نہیں کر سکی۔ اب تو یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ حکومت کا پہلا نقش ہی آخری بھی ہے۔ حکومت کو ڈلیور نہ کرسکنے کا امیج اب اس کے ساتھ چلتا جائے گا اور زمینی حالات اور حقائق عوام کی بڑی تعداد کو تیسری طاقت سے بھی مایوس کر رہے ہیں۔ اس مایوسی کا مطلب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حمایت ہرگز نہیں۔ یہ دونوں ماضی کی آزمودہ جماعتیں ہیں اور پیپلزپارٹی جس طرح سندھ کو چلا رہی ہے اس سے پارٹی کا رومانس بڑھنے کے بجائے کم ہو رہا ہے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سے مایوسی کا نتیجہ ایک گمنام اور نامعلوم مسیحا کے انتظار کی امید کی صورت برآمد ہوتا تھا مگر اب المیہ یہ ہے پی ٹی آئی کی حکومت سے مایوسی بے سمت اور لامحدود ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ نہ تو کسی کے پاس اس کا جواب ہے اور نہ اس کا کہ اس کے بعد کیا ہونا چاہیے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی ٹیم ان کے ویژن کے عملی شکل میں ظاہر ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ راولپنڈی میں مقیم ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب سرجری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کے خیال میں صحت کارڈ کی پالیسی سے وقتی فائدہ تو ہورہا ہے مگر آگے چل کر یہ پالیسی تباہ کن نتائج سامنے لائے گی۔ ہر بیماری کا ایک محدود سی رقم میں علاج ممکن نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ علاج کا میعار گر جائے گا۔ انشورنس کمپنی کو سارے معاملات ٹھیکے پر دینے سے کئی قباحتوں نے جنم لیا ہے۔ ڈاکٹروں کو پہلے سے لگی بندھی تنخواہ میں صحت کارڈ کی سہولت پرکام کرنے پر مامور کرنا ڈاکٹروں کو دل برداشتہ کرکے کسی اور ملک کا راستہ اپنانے پر مجبور کردے گا۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ڈاکٹروں کو کسی اضافی سہولت کے بغیر ہی ان پر ہیلتھ کارڈ کا بوجھ بھی ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کو صحت کارڈ سے متعلق پالیسی میں طب کے شعبے کی رائے کو سننا اور سمجھنا چاہیے اور اس رائے کو پالیسی میں سمونا چاہیے بصورت دیگر یہ پالیسی بھی ناکامی کا شکار ہو گی۔ طب کے شعبے میں تو یہ رائے زیر گردش رہی ہے کہ شہباز شریف کے دور میں ینگ ڈاکٹرز پر ڈنڈے برسائے جانے کا مقصد انہیں ملک چھوڑ کر بیرونی دنیا کی راہ لینے پر مجبور کرنا تھا۔ اس طرح ایک تو ملکی معیشت پر بوجھ کم ہونا تھا تو دوسری طرف انہی پروفشنلز کو باہر سے ڈالر بھیج کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا تھا۔ اپنے ٹیلنٹ کے بارے میں اگر یہ سطحی رویہ اپنایا جائے تو پھر اس ملک ومعاشرے کا یہی حال ہوتا ہے جس سے آج پاکستانی معاشرہ دوچار ہے۔ قصہ ٔ کوتاہ حکومت کو نان فنکشنل ہونے کے تاثر کو بدلنا ہوگا جو اب اس کے حامی اور ہمدردوں کے حلقوں تک سرایت کرتا جا رہا ہے۔ ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔